سول سروس کا”اللہ حافظ“

سیاسی مداخلت اور پسند نا پسندکی بھینٹ چڑھ کر گریڈ 21 سے22میں ترقی نہ پانے والے اعلیٰ افسر ابھی تک حیران،پریشان ہیں، وہ حالات کا رونا رو ہی رہے تھے کہ ان کے اکثر جونیئرز کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہاتھ کر دیا گیا، گریڈ19سے20اور گریڈ 20سے21میں ترقی کے لئے سالوں سے منتظر ان افسروں کو ایسا چرکہ لگایا گیا کہ وہ باقی زندگی پچھتاوے میں گزار دیں گے،اور کچھ بہت اچھے افسر اتنے دل برداشتہ ہیں کہ وہ شائد ایسی سول سروس کو ہی ٹھوکر ماردیں جس میں محنت اور ایمانداری کا کوئی صلہ نہیں، ایک طرف سپریم اور بالادست ہونے کے دعویداروں نے بغیر کسی بحث اور تاخیر کے اپنی تنخواہ اور مراعات میں بیک جنبش قلم اضافہ کرا لیا، مگر ساری زندگی ریاست سے وفاداری نبھانے والی بیورو کریسی پروموشن بورڈز کے اجلاس کے لئے دبلی ہوتی رہی اور نتیجہ میں ملی کوفت،سبکی اور بے یقینی،ترقی نہ پانے والے تمام عمر خود کو کوستے اور وضاحتیں دیتے رہیں گے کہ اپنے حلف کی پاسداری اور قائداعظمؒ کے فرمان”کام کام اور بس کام“ میں کیوں زندگی گال دی،وہ بھی سیاسی عناصر کی کاسہ لیسی اور پروموشن بورڈ کے ممبران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کچھ کرتے تو آج سر خرو ہوتے۔
ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم ریاست اور آئین کو بالادست سمجھنے کی بجائے اپنی ذات کو بالادست سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہیں، نتیجے میں ریاست کی حیثیت ثانوی اور حکومت وقت ترجیح ہے،آئین کی پاسداری تو دور کی بات اسے ہم کبھی خاطر ہی میں نہیں لائے،نتیجے میں آج شخصیات مضبوط اور ریاستی ادارے کمزور ہو چکے ہیں،اعلیٰ افسروں کی ترقی کے لئے آئین میں میکنزم موجود،مگر اس پر کبھی عملدرآمد کی نوبت ہی نہیں آئی، وزیراعظم ہائی پاورڈ بورڈ کے سربراہ ہیں،اور ترقی کے معاملے میں ان کا حکم چلتا ہے مگر انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے نائب کو سونپ دی، شریک حکومتی جماعت پیپلز پارٹی کو خوش کرنے یا حصہ بقدر جثہ دینے کے لئے بلاول بھٹو کو بھی بورڈ کی نمائندگی دیدی گئی،افسروں کی ترقی خالصتاًانتظامی معاملہ ہے اس میں حکومت کی مداخلت ہی نا انصافی اورمیرٹ کی خلاف ورزی کوجواز فراہم کرتی ہے،نتیجے میں ریاست اور حکومت میں پُل کا کردار ادا کرنے والی بیورو کریسی غیر جانبدار نہیں رہتی اور سیاسی بن جاتی ہے۔
ریاستی اداروں کو سیاست کی غلاظت سے آلودہ کرنا کسی بھی طور ریاست کے مفاد میں نہیں،مگر ہمارے کرم فرماؤں نے پہلے عسکری ادارہ کو سیاسی بنانے کی سعی لاحاصل کی،فوج کے اپنے نظم و ضبط اور کڑے نظام کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا،پھراپنی بالا دستی کے زعم میں عدلیہ کی بنیادیں ہلا دی گئیں،جبکہ عدلیہ کی ذمہ داری انصاف کی فراہمی کے ساتھ حکمرانوں کی نگرانی بھی ہے اور قانون سازی پر نگاہ رکھنا بھی اس کے آئینی فرائض کا حصہ ہے، بد قسمتی سے آج کی عدلیہ فوجی آمروں کے دور سے بھی زیادہ کمزور،بے اختیار اور بے ضرر ہے،حکمران طبقہ کو اب عدلیہ کا کوئی خوف نہیں رہا،کہ آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے کانوں اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے،اب ترقی اور تعیناتی کے ہتھیاروں سے بیوروکریسی کے ہاتھ پاؤں باندھے جا رہے ہیں،نتیجے میں ریاست کے دو ادارے عدلیہ اور انتظامیہ بے حیثیت ہو گئے، میں نے بہت پہلے لکھا تھا کہ سول سروس کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے ،پچاسی کے بعد آنے والے حالات اور خصوصی طور پر پنجاب کے حکمرانوں نے اس سروس میں اپنے اتنے حواری اور تابعدار پیدا کر لئے ہیں جو خود کو سول سرونٹ کہلا نے کی بجائے کچھ اور کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں، اقبال نے بھی شائد موجودہ حالات کو بھانپتے ہوئے بہت پہلے کہا تھا،
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہا ں سے آئے صدا لا الہ الاللہ
میری نظر میں گریڈ 21 اور 20 کے پروموشن بورڈز میں کچھ نیا نہیں ہوا ،ایسا مسلم لیگ(ن) کی گزشتہ وفاقی حکومت کے دور میں بھی کیا گیا تھا،اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو پروموشن بورڈ نے گریڈ 21 اور20 کے لئے جب اپنی سفارشات بھیجیں تو انہوں نے اس فہرست کو اس نوٹ کے ساتھ واپس کر دیا کہ اس میں تو بہت سارے افسر کرپٹ اور ترقی کے قابل نہیں ہیں، ان سارے افسروں کی کرپشن یہ تھی کہ انہوں نے پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی مخالف حکومتوں کے دور میں کلیدی عہدوں پر سروس کی تھی اور اب بھی جن افسروں کو پروموشن سے محروم کیا گیا ہے ان کی اکثریت پی ٹی آئی کے دور میں اہم عہدوں پر کام کر چکی تھی یا وہ ن کے سرکل میں نہیں ہیں۔صدرِ مملکت کے ساتھ موجودہ ایڈیشنل سیکرٹری ارم بخاری کا قصور یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے دور میں پنجاب میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری تھیں یوں وہ گریڈ 22 کے لئے موزوں نہ ٹھہریں،اسی خاتون افسر نے میاں شہباز شریف کے ساتھ بھی کام کیا تھا اور اس وقت میاں صاحب ان کی محنت کے اتنے معترف تھے کہ ان کے لئے تالیاں بجوایا کرتے تھے۔گریڈ 21کے لئے جن کو ترقی سے محروم کیا گیا ہے ان میں اکثریت محنتی افسروں کی ہے، مگر کیپٹن عثمان کا نام اس لسٹ میں دیکھ کر لوگ حیران ہیں کہ اگر انہیں ترقی نہیں دی گئی تو پھر ترقی کا معیار کیا ہے؟پنجاب میں سیکرٹری اطلاعات رہنے والے ایک ہر دلعزیز محنتی افسر بلال احمد بٹ تو کئی سالوں تک ہانگ کانگ میں قونصل جنرل کے فرائض سر انجام دے کر کچھ عرصہ قبل ہی واپس لوٹے ہیں،ان کی محنت اور کام کا کوئی جا کر ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانیوں سے پوچھے کہ وہ تو چوبیس گھنٹے پاکستان کی خدمت کے لئے موجود ہوتے تھے،انہیں اس محنت کا صلہ ترقی سے محروم کر کے دیا گیا ہے۔اسد اللہ فیض ایک محنتی اور بے ضرر افسر ہے، مگر نون گروپ میں نہیں اور اسی لئے ترقی کی لسٹ میں بھی نہیں۔آصف بلال لودھی،احمد عزیز تارڑ اور جاوید اختر محمو د موجودہ پنجاب حکومت کے اہم سیکرٹریوں کی فہرست میں شامل ہیں، مگر ترقی سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔اسی طرح آسیہ گل،سقراط امان رانا،مدثر ریاض ملک کے کام میں کیا کمی ہے؟ہاں ایک ہی کمی ہے کہ ان سب نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اہم پوسٹوں پر کام کا جرم کیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ جن افسروں کے کیس پروموشن بورڈ میں زیر بحث آئے ان کی سالانہ رپورٹس بہترین تھیں، اکثریت نے ترقی کے لئے لازمی کورسز میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کیں، مگر ان کے لئے بعض خفیہ اداروں کی رپورٹس کو مینج کیا گیا، جس پر ہنسا ہی جا سکتا ہے،ترقی،تعیناتی کا ہتھیار ہر دو میں بیوروکریسی کی راہ میں رکاوٹ رہا اور آ ج بھی ہے۔لولی لنگڑی انتظامیہ ریاست کے لئے مفید ہو سکتی ہے نہ حکومت کے لئے اور نہ ہی عوام کے لئے سود مند،اگر سول سروس میں ترقی کے لئے محنت اور کام کی بجائے صرف ایک ادارے کی رپورٹ کو بنیاد بنانا ہے تو پھر سالانہ رپورٹس اوراعلیٰ تربیتی کورسز کو ختم کر دیں ،نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی،نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ