اہلِ دفاع اس موضوع پر سوچیں 

    اہلِ دفاع اس موضوع پر سوچیں 
    اہلِ دفاع اس موضوع پر سوچیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فوج جوائن کرنے کا منصوبہ میرا کوئی سوچا سمجھا پلان نہیں تھا۔ میرے بزرگوں میں کوئی فوج میں نہیں تھا۔ اکثریت پولیس میں تھی۔فوج کے بہت سے آفیسرز معاشرے کے جس طبقے سے آتے تھے ان کے بزرگوں کا پیشہ سپاہ گری تھا۔ پاک فوج کی آفیسرز کلاس کا ایک بڑا حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو پاکستان بننے سے پہلے برٹش انڈین آرمی میں بھرتی ہوئے اور جب ریٹائر ہوئے توپاکستان میں ان کا رینک زیادہ سے زیادہ صوبیدار میجر تھا۔ ان کے بیٹوں کو ملٹری کالج سرائے عالمگیر (جہلم)میں داخلہ مل جاتا تھا۔ اس تدریسی ادارے کی فضا سراسر عسکری ماحول سے لبریز تھی۔ سارے انسٹرکٹرز اور ساری تعلیمی سرگرمیاں اور نصابی کتب وغیرہ بھی فوج کے مختلف امور و معاملات کا احاطہ کرتی تھیں۔ اس لئے یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کو بڑی آسانی سے آرمی میں کمیشن مل جاتا تھا۔ ان طلباء کا سارا گھریلو ماحول بھی چونکہ عسکریت زدہ تھا۔ اس لئے جب یہ PMA (پاکستان ملٹری اکیڈیمی) میں جاتے تھے تو ان کو زیادہ اجنبیت اور مغائرت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ ملٹری کالج یا کیڈٹ سکولوں سے آنے والے کیڈٹوں کی تعداد بمقابلہ سویلین لائف سے آنے والوں سے کم ہوتی گئی۔ میرا خیال ہے کہ آج ملٹری اکیڈیمی میں آنے والے زیادہ تر کیڈٹس کا تعلق غیر فوجی خانوادوں اور غیر فوجی تدریسی اداروں سے آنے والے طلباء پر انحصار رکھتا ہے۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب تک کوئی جنگ نہ ہو، آفیسرز کلاس کی مانگ زیادہ نہیں ہوتی۔ جنگیں جتنی طویل ہوں گی، افسروں اور جوانوں کی مانگ اتنی ہی زیادہ بڑھ جائے گی۔ گزشتہ کئی برسوں سے اگرچہ پاکستان کسی علاقائی جنگ میں ملوث نہیں ہوا اس لئے 1999ء میں کارگل وار کے بعد آج ایک چوتھائی صدی گزر چکی ہے لیکن ان 26برسوں میں ملٹری اکیڈیمی میں آفیسرز کیڈٹس کی مانگ میں کوئی زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے زمانے میں PMA میں کیڈٹوں کی دو بٹالینیں ہوتی تھیں جو آج چار ہو چکی ہیں۔

آج کل پاکستان کو داخلی محاذ پر ایک اور طرح کی جنگ کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کا ناسور بالخصوص بلوچستان اور کے پی میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ وہاں سے آئے ان افسروں اور جوانوں کی شہادتوں کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ اس طرح کی جنگ میں شہادتوں کو اصطلاح میں ”اٹریشن وار فیئر“ کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ مروجہ اصطلاحی مفہوم میں تو باقاعدہ جنگ نہیں ہوتی لیکن اس میں افسروں اور جوانوں کی شہادتیں باقاعدہ جنگوں کی شہادتوں کے سکیل پر ہوتی نظر آتی ہیں …… خدا کرے اس دہشت گردی کا جلد خاتمہ ہو اور فوج کے افسروں اور جوانوں کی اٹریشن کی جلد روک تھام ہو سکے۔

گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں ہوئیں جن کا دورانیہ بالترتیب چار برس اور چھ برس تھا۔ اب اگر تیسری جنگ ہوئی تو خدا جانے اس کا دورانیہ کتنا ہو۔ روائتی جنگ کو جوہری جنگ میں تبدیل ہونے کے لئے ”وقت“ کی ضرورت ہوتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر روس۔ یوکرین کی جنگ زیادہ پھیلی تو شاید یہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن جائے۔ فی الحال تو امریکی صدر ٹرمپ نے اچھا کیا ہے کہ جنگ کے بادلوں کو زیادہ گہرا اور تاریک ہونے سے روک دیا ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ اگریہ جنگ، روس۔ یوکرین کے حصار سے نکل کر باہر پھیل گئی تو اس کو قابو میں لانا مشکل ہو جائے گا۔

جنگ کسی بھی قسم کی ہو اس کی تعمیر و تسلسل میں زیادہ رول جرنیلوں کا ہوتا ہے۔ روس۔ یوکرین سہ سالہ جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی یوکرین اس جنگ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس کا صدر کہتا ہے کہ اگر اس کو روپیہ پیسہ، ہتھیار اور جنگی ساز وسامان کی کوئی بڑی کھیپ دے دی جائے تو وہ ’بڑی خوشی سے‘ جنگ کا تسلسل برقرار رکھ سکتا ہے…… نجانے یوکرین کی پبلک کو کیا ’عارضہ‘ لاحق ہے کہ وہ اپنے صدر سے جنگ بندی کا مطالبہ ہی نہیں کرتی۔

دوسری جنگ عظیم جب ستمبر 1939ء میں شروع ہوئی تھی تو دنیا کو اندازہ نہ تھا کہ یہ جنگ یورپ کے محاذوں سے نکل کر افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیاء کے محاذوں تک بھی پھیل جائے گی۔ پھر اس جنگ کا خاتمہ ایک ایسے ہتھیار سے ہوا جسے ایٹم بم کہا گیا۔ آج 9ملکوں کے پاس یہ بم موجود ہیں اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔

یہ ایٹم بم گویا ایک ایسا ویپن ہے جس کے بعد روائتی جنگ جاری نہیں رکھی جا سکتی۔1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے بعد آج 2025ء میں اسے 80برس گزر چکے ہیں۔ جوہری بموں اور میزائلوں کے بعد کوئی ایسا بڑا اور قاتل ہتھیار ایجاد نہیں ہوا جو جنگ کا خاتم بن سکے۔ شائد اس لئے بھی یہ جوہری جنگ ابھی تک رکی ہوئی ہے۔ لیکن میرا پختہ یقین ہے کہ یہ جوہری جنگ جب بھی ہوئی اس کا آغاز مغربی قوتوں کی جانب سے ہوگا۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی سپریم پاور کا رہنما (ٹرمپ) کہتا ہے کہ: ”میرا جی چاہتا ہے کہ دنیا میں تمام جوہری بم ختم کر دیئے جائیں تاکہ دنیا اس عذاب میں مبتلا رہنے کی کشمکش سے چھوٹ جائے“۔

ٹرمپ کے اس بیان پر بڑے تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ گوگل پر جا کر ان تبصروں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اگر ٹرمپ یا کوئی اور عالمی سطح کا لیڈر مثلاً صدر پوٹن یا صدر شی مل کر بھی جوہری بموں کو ختم کرنے کا عہد کریں تو یہ ممکن نہیں ہوگا…… تو پھر سوال یہ ہے کہ اس مرض کا علاج کیا ہے؟

دفاعی امور پر نظر رکھنے والے بہت سے دانش وروں کا کہنا یہ بھی ہے کہ آج دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہے کہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہوسکتی……ان کے استدلال میں وزن ہے!

اگست 1945ء میں امریکہ نے جاپان پر اس لئے حملہ کر دیا تھا کہ نہ تو کوئی جوہری بم جاپان کے پاس تھا او رنہ دنیا کے کسی اور ملک کے پاس تھا۔ لیکن 1949ء میں روس نے جب ایٹمی دھماکہ کر لیا تو گویا یہ دھماکہ اس ضمانت کا آغاز بن گیا کہ اب جوہری جنگ نہیں ہوگی۔ 1950ء میں کوریا کی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت کے امریکی جنرل میکارتھر نے امریکی صدر کو کہا کہ کوریا (شمالی کوریا) پر ایٹمی حملہ کر دیا جائے تاکہ جاپان کی طرح اس کا قصہ بھی پاک ہو جائے۔ لیکن امریکی صد رنے میکارتھر کے بار بار کہنے پر بھی شمالی کوریا پر ایٹمی حملہ کرنے سے انکار کر دیا…… اس وقت صرف روس کے پاس جوہری بم تھے۔

جس امریکہ نے 1945ء میں جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے اسی نے صرف 5برس بعد جب تیسراایٹمی بم استعمال کرنے کی مخالفت کر دی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ کو معلوم تھا کہ اگر کوئی ایٹم بم (کبھی بھی)امریکہ پر گرایا گیا تو یہ خود امریکہ کا بھی خاتمہ کر دے گا…… لیکن اس کے بعد تو برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان اور شمالی کوریا نے بھی جوہری دھماکے کر دیئے۔ اس لئے دفاعی تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ ایٹم بم کی موجودگی، دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں ملوث ہونے سے بار رکھ سکتی ہے…… آج (بقول گوگل) انڈیا کے پاس 172اور پاکستان کے پاس 170مختلف طرح کے جوہری بم موجود ہیں اس لئے پانچویں انڈو۔ پاک وار کا کوئی بھی خدشہ دور دور تک موجود نہیں …… اب صرف معاشی جنگ ہوگی۔ یعنی جس ملک کی معیشت کمزور ہے، وہ کمزور رہے گا اور جس کی اقتصادیات مستحکم ہوں گی وہی پھلے پھولے گا…… اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کے لئے مستقبلِ بعید میں بھی کسی انڈین حملے کا کوئی خطرہ موجود نہیں۔ انڈیا اگر پاکستان پر حملہ کرے گا تو بھی یہ کوئی آل آؤٹ دوبدو جنگ نہیں ہو گی۔ ہاں پراکسی جنگوں اور لڑائیوں (Battles) کو ہم آج بھی پاکستان کے دو صوبوں میں ہوتے دیکھ رہے ہیں …… اہلِ دفاع اس موضوع پر سوچیں اور قوم کو بریف کریں۔

مزید :

رائے -کالم -