اسرائیلی جارحیت.... صدر اوباما کی حمایت

اسرائیلی جارحیت.... صدر اوباما کی حمایت
اسرائیلی جارحیت.... صدر اوباما کی حمایت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

غزہ میں اسرائیل کی ننگی جارحیت کو ہر کوئی محسوس کر رہا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کو طویل عرصے سے ایک قید خانے میں تبدیل کر رکھا ہے۔ جن لوگوں کی سرزمین پر اسرائیل قابض ہے، جن کے لئے انسانی بنیادوں پر کوئی امداد نہیں پہنچائی جا سکتی، جن سے دو ریاستوں کے قیام کے فارمولے کو اسرائیل نے پوری ڈھٹائی سے فراموش کررکھا ہے اور امریکہ کے متعدد بار کے انتباہ کے باوجود یہودی بستیوں میں توسیع کا سلسلہ جاری ہے۔ اُن لوگوں کی اِس صورت حال سے نکلنے کی کوئی کوشش تو جارحیت ہے اور اِس کے جواب میں کئی ہزار فضائی حملے کر کے عورتوں اور معصوم بچوں کو ہلاک کرنے کے باوجود اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ غزہ کے رہنے والے اِن فلسطینیوں کو بھی کوئی حق حاصل ہے یا نہیں ہے؟ اور یہی اصل سوال ہے۔ جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے تو امریکہ کی طرف سے اِس کا کوئی جواب نہیں ملتا، البتہ خودامریکہ کی طرف سے ایک سوال کیا جاتا ہے؟” مسلمان امریکہ سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟“
صدر اوباما نے اپنے پہلے انتخابات کے موقع پر جو وعدے کئے تھے، وہ دھرے کے دھرے رہ گئے، کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ امریکی صدارتی امیدواروں کو وعدے کرنے سے کوئی نہیں روکتا، لیکن منتخب ہونے کے بعد اُسے صدارتی فرائض سنبھالنے تک دو تین ماہ لگ جاتے ہیں۔ اس عرصے میں ”اصل حکمران“ اُس کی ”سکھائی پڑھائی“ شروع کر دیتے ہیں۔ اُس پر اُس کی حدود واضح کر دی جاتی ہیں ، پھر وہ صدارتی فرائض سنبھال کر ”اصل حکمرانوں“ کے ایجنڈے پر جُت جاتا ہے اور انتخابی وعدے؟.... اگر وہ ایجنڈے کے برعکس تھے تو اُنہیں بھلا دینا ہی بہتر ہے۔
صدر اوباما کا دوسری بار صدر منتخب ہو جاتا، اس قدر تعجب خیز نہیں، جس قدر پہلی بار صدر منتخب ہونا تھا۔ ایک سیاہ فام صدر سے ڈیموکریٹس کے دانشور، بائیں بازو کے حامل عناصر کو بہت توقعات ہیں۔ سیاہ فام اقلیت نے پہلی بار ووٹ درج کرانے میں دلچسپی لی ،ووٹ ڈالنے کے لئے باہر نکلنے کی زحمت گوارا کی اور قطاروں میں لگ کر ووٹ ڈالے۔ دوسری اقلیتوں نے بھی سیاہ فام اقلیت کا مکمل ساتھ دیا، کیونکہ مسلمان، سپینش، چینی، جاپانی، کورین اقلیتیں اب بھی خود کو امریکی تو سمجھتی ہیں، لیکن وہ سفید فام اکثریت سے کسی بھلائی کی توقع نہیں رکھتیں۔ لوگ بُش انتظامیہ کی بے مقصد جنگوں سے تنگ تھے۔ اِن جنگوں کی وجہ سے سیکیورٹی کے نام پر امریکی آئین کے عطا کردہ بنیادی حقوق پر جو قدغنیں لگا دی گئی ہیں، اُن کے خلاف تھے اور ڈوبتی ہوئی معیشت سے خوف زدہ تھے۔ اِس ڈوبتی ہوئی معیشت کی وجہ سے صحت کا پروگرام ،بڑھاپے کی پنشن کا پروگرام اور کتنے ہی دوسرے فلاحی پروگرام خطرے میں پڑ گئے تھے۔ عوام ہر قیمت پر تبدیلی چاہتے تھے اور اوباما کا نعرہ ”تبدیلی“ تھا....
لیکن جب سیاہ فام صدر باراک اوباما وائٹ ہاو¿س کی کانِ نمک میں گیا، تو گورا نمک بن گیا۔ سوائے ایک آدھ کے کوئی وعدہ پورا نہ ہوا۔ البتہ اسرائیل کے سلسلے میں پہلی بار ایک خم محسوس ہوا۔ اسرائیل جو دو ریاستوں کے قیام کے امریکی فارمولے سے عملاً منحرف ہوچکا ہے، یہودی بستیوں کی توسیع کے سلسلے میں اسرائیل نے امریکی تشویش یا انتباہ کی کوئی پروا نہیں کی۔ اُلٹا اسرائیل امریکہ کو ایران پر چڑھ دوڑنے کے لئے اُکسانے لگا۔ اسرائیل کا اندازہ تھا کہ صدارتی انتخابات کے قریب امریکہ سے ایسا مطالبہ امریکہ کو مجبور کر دے گا، کیونکہ کوئی بھی صدارتی امیدوار اسرائیل کو ناراض کرکے امریکی سیاست میں مو¿ثر یہودی عنصر کی مخالفت مول لینا پسند نہیں کرے گا، لیکن صدر اوباما نے اِس جال میں پھنسنے سے انکار کر دیا، بلکہ اِس قدر ناراض ہوگئے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے آنے والے نیتن یاہو سے ملاقات سے انکار کر دیا، اگرچہ اِس فیصلے کی تلخی کو دور کرنے کے لئے صدر اوباما نے اِس موقع پر کسی بھی عالمی سربراہ سے ملاقات نہیں کی، تاہم نیتن یاہو سے ملاقات نہ کرنا ایک ایسا اقدام تھا، جس کی کسی امریکی صدر سے توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی۔
 میرا خیال تھا اور ہے کہ وائٹ ہاو¿س کے اوول آفس میں بیٹھی کٹھ پتلی کے پیچھے مضبوط ہاتھوں نے یہ فیصلہ کیا تھا، کیونکہ امریکہ، عراق سے مکمل طور پر نکل نہیں پایا اور افغانستان سے نکلنے کے لئے اُسے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ امریکہ کے اصل حکمران ایک تیسرا محاذ کھول دینے کے نقصانات سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور وہ اسرائیل کی خاطر ایک ایسی جنگ میں کُودنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں جو بعض ملکوں اور بعض حلقوں کے مطابق تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ دوسرے صدارتی انتخابات میں اسرائیل اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے مٹ رومنی سے اپنی دس سالہ دوستی نبھاتے ہوئے اُن کی انتخابی مہم میں اُ ن کابھرپور ساتھ دیا۔ اسرائیل میں مٹ رومنی کو ”خفیہ فنڈز“ دئیے گئے۔ امریکہ میں اسرائیل نواز یہودیوں نے اربوں ڈالر مٹ رومنی کو دئیے۔ نیتن یاہو کے دوست اور جوئے خانوں کے بادشاہ شیلڈن نے مٹ رومنی کے لئے ڈالروں کی بوریوں کے منہ کھول دئیے اور کاچ برادران نے مٹ رومنی پر اِس طرح ڈالر نچھاور کئے، جیسے تماش بین کسی طوائف پر نچھاور کرتے ہیں۔
ڈیموکریٹ پارٹی کے عناصر ترکیبی میں گورے ہی شامل نہیں۔ اُن میں بائیں بازو کے خیالات تک کا حامل ایک بڑا طبقہ بھی شامل ہے۔ اِس میں وہ دانشور طبقہ بھی شامل ہے جو صحافیوں، مصنفوں، فلم سازوں، فلمی ڈائریکٹروں اور فلمی اداکاروں پر مشتمل ہے۔ ”گوری بالا دستی“ کی سوچ رکھنے والے عناصر کی ری پبلیکن پارٹی میں اکثریت کی وجہ سے اقلیتوں کو بھی ڈیموکریٹ پارٹی میں جائے پناہ ملتی ہے۔ ری پبلیکن میں .... کنڈولیزا رائس اور جنرل پاﺅل جیسے کالے ہیں جو گوروں کی صحبت میں رہ کر خود کو کالا تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ وائٹ ہاو¿س کی پالیسی مختلف ہو سکتی ہے، لیکن ڈیموکریٹس کے دانشور حلقوں میں وائٹ ہاو¿س کی اسرائیل پالیسی سے اختلاف رہا ہے۔ یہودیوں کے زیر اثر کارپوریٹ میڈیا تو اسرائیل کا راگ الاپتا ہے، لیکن اب انٹر نیٹ پر ”متبادل میڈیا“ بہت مو¿ثر ثابت ہو رہا ہے۔ یہ متبادل میڈیا، بالخصوص وہ حصہ جو ڈیموکریٹس کو سپورٹ کرتا ہے، اسرائیل کی کھل کر مخالفت کرتا ہے۔ مَیں اِس میڈیا کی غیر جانبداری کے دعوے کو اکثر اِسی پیمانے پر ناپتا ہوں اور یہ پیمانہ ہمیشہ درست ثابت ہوتا ہے۔ اِس میڈیا کی بدولت اب ”امریکہ سے بھی پہلے اسرائیل“ کا کلیشے دم توڑتا محسوس ہو رہا ہے۔ امریکی اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے ٹیکسوں کی آمدن سے اسرائیل کو اربوں ڈالر کی بھینٹ کو اب پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔
صدارتی امیدواروں کے آخری مباحثے میں مٹ رومنی نے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ صدر اوباما نے بحیثیت امریکی صدر ہمارے چہیتے دوست اسرائیل کو نظر انداز کیا ہے۔ صدر اوباما نے اِس کے جواب میں کہا کہ اُنہوں نے صدر منتخب ہوتے ہی اسرائیل کا دورہ کیا تھا، لیکن مٹ رومنی کا سوال تھا کہ مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملکوں کے دورے کے وقت صدر نے اسرائیل کو نظر انداز کیا۔ صدر اوباما نے کہا، نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ پھر دونوں نے مل کر کورس میں گایا کہ اسرائیل ہمارا عزیز ترین دوست ہے۔ اِس کی سلامتی کو درپیش خطرات کے لئے امریکہ کچھ بھی کر سکتا ہے“۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مٹ رومنی نے نیتن یاہو سے ملاقات سے انکار پر کوئی سوال نہیں کیا، حالانکہ ری پبلیکن کارپوریٹ اور متبادل میڈیا اِس حوالے سے مسلسل صدر اوباما پر چاند ماری کر رہا تھا۔ اِس سے میرا یہ یقین مزید پختہ ہوگیا کہ اِس پالیسی کی ڈور صدر اوباما کے ہاتھ میں نہیں تھی، کہیں اور تھی، ورنہ اِس پر صدر اوباما کو رگڑا دینا آسان بھی ہوتا اور ضروری بھی ہوتا۔
 ری پبلیکن کے حامی کارپورٹ میڈیا سے بھی بڑھ کر غیر روایتی یا متبادل میڈیا جو ری پبلیکن کی حمایت کرتا ہے، نہایت شدت پسند ہے۔ یہ” کرسچین طالبان“ پر مشتمل ہے اور اسرائیل کی حمایت اِس کا پہلا اور آخری مشن ہے۔ اِسی پر بس نہیں، مسلمانوں اور فلسطینیوں سے نفرت کا زہر پھیلانے میں اسے کمال حاصل ہے۔ اس میڈیا سے صدر اوباما کی کامیابی ہضم نہیں ہو رہی ۔ اِسی میڈیا نے عین صدارتی انتخابی مہم کے دوران مسلمان ووٹروں کو اوباما سے دور کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے، لیکن مسلمان ووٹروں کو اگرچہ صدر اوباما سے بھی کسی بھلائی کی کوئی توقع نہیں ہے، پھر بھی ”کم تر“ بُرائی کے انتخاب کے اصول پر اُن کے لئے صدر اوباما ہی مناسب ہیں۔
 اِس ریڈیکل ری پبلیکن میڈیا نے ری پبلیکن کو صدر اوباما کی صدارت کو قبول کرنے سے انکار پر اُکسانا شروع کر دیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں ریاستوں کی علیحدگی کی پٹیشنیں آئی ہیں۔ اب اُن کا مشورہ یہ ہے کہ عوامی ووٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود دسمبر کے آخری سے پہلے بدھ کو دونوں ایوانوں (الیکٹورل کالج) سے صدر کی توثیق کو روکا جاسکتا ہے۔ اگر ری پبلیکن منتخب نمائندے اجلاس میں شرکت نہ کریں۔ اِس طرح صدارتی انتخاب کے لئے ریاستی ووٹوں کی دو تہائی کی شرط پوری نہ ہونے سے ایوان کا کورم ٹوٹ جائے گا، پھر ایوان نمائندگان کو اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ صدر اور سینیٹ نائب صدر کو منتخب کر لے۔ یہودی لابی کروڑوں ووٹروں کو تو قابو نہیں کرسکی، لیکن اگر اِس ترکیب پر عمل ہوا تو اِس کے لئے نمائندگان (کانگریس مین اور سینٹرز) کو خریدنا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ اگرچہ ایسا کرنا امریکی روایت سے انحراف ہوگا، لیکن اِس کی کون پروا کرتا ہے؟
اِس لئے دسمبر تک صدر اوباما کی صدارتی کامیابی پر تلوار لٹک رہی ہے۔ صدر اوباما اگر اسرائیل کو دفاع کے حق کے نام پر جارحیت کے علاوہ بھی کچھ بخش دیں تو کوئی بعید نہیں ہے، لیکن امریکہ کے اندر خیالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے گرد و نواح میں ہونے والی تبدیلیاںبھی بے حد اہم ہیں۔ اب مصر حسنی مبارک کا مصر نہیں ہے۔ ترکی بدل چکا ہے۔ شام اور اردن تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ونیز ویلا کے صدر اوگو چاویس نے کھل کر فلسطینیوں کی حمایت کی اور کہا کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے لئے وہ فلسطین کی حمایت کریں گے۔ گویا جانی نقصان کے باوجود فلسطین کے حق میں فضا بدل رہی ہے۔ مسلم ممالک کو اِس سلسلے میں سخت رویہ اختیار کرنا ہوگا اور اگر فلسطینیوں کو طیارہ شکن ہتھیار فراہم کر دئیے جائیں تو پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ اب نظریں مسلمان ملکوں اور اُن کے سربراہوں پر لگی ہیں۔
( اشرف قریشی لاہور کے متعدد اخبارات سے وابستہ رہے ہیں۔ ہفت روزہ ”تکبیر کراچی“ کے نمائندے بھی رہے۔ اس وقت نیویارک میں مقیم ہیں اور ہفت روزہ ”ایشیا ٹربیون“ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔)

مزید :

کالم -