بلا عنوان
چشمِ فلک نے شاید ہی اِس سے پہلے اتنی سفاکی دیکھی ہو گی،جو آج برما میں مظلوم مسلمان اقلیت پر روا رکھی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے ظلم کی یہ داستانیں پوری دُنیا میں پھیل چکی ہیں،مگر نام نہاد مہذب دُنیا نے اِس ظلم پر انتہائی محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے،ہر کسی کے اپنے مفادات ہیں اور اب دُنیا میں انصاف اور ناانصافی کا فیصلہ صرف مفادات کی عینک سے نظر آنے والا منظر کرتا ہے۔آج برما سے بڑی طاقتوں کے مفادات وابستہ ہیں اور جن کے مفادات براہِ راست نہیں وہ بالواسطہ برما کو اپنے لیے اہم سمجھتے ہیں، لہٰذا اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا چاہے وہ لاکھوں مسلمانوں کو زبردستی اپنے مُلک سے بے دخل کر دے چاہے وہ ان لوگوں کی واپسی کی راہ مسدود کرنے کے لئے بارڈر کو بارودی سرنگوں سے بھر دے، چاہے کھلے عام سینکڑوں لوگوں کو زندہ جلا دے یا ذبح کردے۔
چاہے برہنہ مسلمان عورتوں کو درختوں سے لٹکا کر زندہ کھال اُتار دے،چاہے ہاتھ پاؤں بندھے مسلمان مردوں اور عورتوں کو قصائی کی طرح چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دے اور مسلمان ہونے کی سزا زیادہ سے زیادہ دینے کے لئے ان انسانوں کا یہ حشر اُس وقت کرے جب ابھی وہ زندہ ہوں۔
چاہے زیادتی کے بعد عورتوں کی لاشوں کو بکھیر دے،سروں کے مینار بنانے کی تاریخی روایتیں خدا جانے درست ہیں یا غلط، مگر آج کی جدید دُنیا میں برمی فوج اور بدھسٹ بھکشو اِن تاریخی روایات کو عملی شکل میں ساری دُنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں، مقتول مسلمانوں کے سر اس طرح ترتیب سے چن کر میڈیا کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں جیسے وننگ ٹرافیاں سجا کر رکھی گئی ہوں۔مسلمانوں کے شیر خوار بچوں کو درختوں سے اور سڑکوں سے ٹکرا کر موت کے گھاٹ اتارنا آج کی برمی سوسائٹی کا فیشن بن گیا ہے۔کتنا لکھوں، ایسی ایسی داستانیں ہیں، سُن سُن کر دِل ڈوبتا ہے، آنسو نہیں رکتے کیسے بیان کروں۔عجیب بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو یہ سزا صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے دی جا رہی ہے ان کا اور کوئی قصور نہیں،نہ وہ مسلمانوں کے گھر جنم لیتے نہ اُنہیں حقِ شہریت،تعلیم، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی،بچوں کی پیدائش،روزگار اور ان تمام بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا جو بنیادی انسانی حقوق کہلاتے ہیں اور جن کا ضامن جنیوا کنونشن پر دستخط کے بعد اقوام متحدہ کا ادارہ ہے،مگر اقوام متحدہ اور اس کی تنظیموں کے باوجود اگر یہ حالات ہیں تو مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی بہرحال اب سمجھ جانا ہو گا کہ یہ تمام بین الاقوامی ادارے انہی کی حاکمیت کے لئے مصروف ہیں جو ان کے بانی مبانی ہیں۔
مسلمان چاہے کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق، شام،لیبیا کا ہو یا برما کا اُس پر ہونے والے ظلم کو یہ ادارے نہیں روکیں گے،بلکہ اکثر جگہ تو یہ ظلم ان اداروں کی چھتر چھایہ کے نیچے ہورہا ہے۔
او آئی سی کے رکن اسلامی ممالک کی برمی مسلمانوں پر ہو نے والے مظالم پر بالعموم خاموشی نے بھی اب واضح کر دیا ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے اسلامی اُمہ پر جن حکمرانوں کو مسلط کیا ہوا ہے ان میں سے کوئی بھی اِس قوم کا لیڈر بننے کا اہل نہیں۔سبھی اپنی ذاتی جاگیروں اور شاہی مراعات کے لئے غیروں کے سامنے دوزانو بیٹھے ہیں اور اپنی بے حمیتی کو مصلحت کے پردے میں چھپانے کی سعی میں مصروف ہیں،جبکہ حقیقت میں یہ لوگ مصلحت نہیں منافقت سے کام لے رہے ہیں،کیونکہ مصلحت اور منافقت میں فقط نیت کا فرق ہوتا ہے اور ہم پر مسلط ٹولے کی نیت اب بالکل واضح ہے کہ چاہے ساری اُمت غیروں کی غلام بن جائے، آپس میں لڑ لڑ کر ختم ہو جائے ان کا اقتدار باقی رہنا چاہئے پھر یہ بے حمیتی کون سی نئی ہے اندلس سے بوسنیا تک، فلسطین سے کشمیر تک ہم یہی تو ثابت کرتے آئے ہیں۔قصور ہمارا تو نہیں ہمارے حکمرانوں کا بھی نہیں، قصور تو برما کے مسلمانوں نے کیا ہے تو اب وہ اس کی سزا بھی بھگتیں، اُنہیں کس نے کہا تھا کہ بھکشوؤں کی حکومت میں اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں، کیا اُنہیں اندازہ نہیں تھا کہ بے حس اور مردہ ضمیر لوگوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو بدمعاش برمی فوج کو للکار کر اس ظلم سے روک سکے۔ اُنہیں پتہ ہونا چاہئے تھا کہ ہم کسی غیر کو ظلم سے روکنے کی بجائے آپس میں جھگڑنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ کسی ماڈل روڈ پر، کسی تہران یونیورسٹی سے،کسی التحریر اسکوائر میں ان کے لئے کوئی جمع نہ ہو گا اور ان کے لئے کوئی جمع بھی کیوں ہو، وہ کون سا کسی کو اقتدار چھین کر دے سکتے ہیں۔
میرے برمی بھائیوں، بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کو اب یقین کر لینا ہو گا کہ صلاح الدین ایوبی جنم دینے والی کوکھ بانجھ ہو چکی۔ روما کی سلطنت کو تہس نہس کرنے والا شیر اِن حالات میں کبھی ہوشیار نہیں ہو گا وہ خاموشی سے اپنے کلمہ گو ہونے کی سزا بھگتیں۔ وہیں حالات سے سمجھوتہ کر لیں۔ جس اُمت کی وہ دہائی دے رہے ہیں وہاں تو حالات ہی یہ ہیں کہ:
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے