آفتابِ درخشاں،اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمدؐ       (1)

  آفتابِ درخشاں،اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمدؐ       (1)
  آفتابِ درخشاں،اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمدؐ       (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دنیا میں گمراہ انسانوں کو سیدھی راہ دکھانے والے…… انسانی عقل کو اوہام کی زنجیروں سے آزاد کرنے والے…… نوعِ بشر کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلانے والے اور انسانیت کے درمیان کامل مساوات قائم کرنے والے…… 

عرب میں قریش کے قبیلے کی سرداری مُسلّم تھی اس قبیلے کا سب سے زیادہ باعزت خاندان ہاشمیوں کا تھا۔ اس خاندان کے بزرگ عبدالمطلبؓ کے دس بیٹے تھے اور سب سے چھوٹے بیٹے عبداللہؓ تھے۔ جن کی شادی حضرت آمنہؓ سے ہوئی۔ ابھی چند ماہ ہی شادی کو ہوئے تھے کہ حضرت عبداللہؓ کا انتقال ہوگیا۔ آمنہ بیوہ ہوگئیں۔ 20اپریل571ء کو پیر کے دِن ایک روز طلوعِ صبح سے پہلے خانہئ کعبہ کی دیواریں تعظیم کو جھک گئیں۔ کافروں کے بت منہ کے بل آرہے۔ آمنہؓ کے حجرے سے ایک نور اس طرح طلوع ہوا کہ اس کی روشنی آسمان تک گئی اور ایک آواز مکّے کی پہاڑیوں میں گونج اُٹھی۔ حق آگیا باطل مٹ گیا۔ اہل مکہ کی نظر عبدالمطلب کے گھر کی طرف تھی کیونکہ ان کی گود میں سفید کپڑے میں لپٹا ہوا ایک خوبروبچہ تھا اور وہ اسے دیکھ دیکھ کر نہال ہورہے تھے۔ دیکھو یہ ہے میرے پیارے عبداللہ کی نشانی……

عبدالمطلبؓ نے بچے کا نام محمد رکھا۔ آمنہؓ اپنے نورِنظر کی عظمت دیکھ کر بیوگی کا غم بھول جاتیں۔ بچے کی ولادت سے پہلے عبداللہؓ کو خدا نے اپنے پاس بلا لیا تھا مگر آمنہ کی دلجوئی کے لیے انہیں اتنا مبارک بچہ عطا کیا تھا۔ 

اسی سال عرب کے مضافات سے عورتیں بچوں کو دودھ پلائی کے لیے لینے آئیں۔ ان میں حلیمہ سعدیہؓ اپنی بیمار اونٹنی کی سست رفتاری کے سبب آخر میں پہنچیں اور کہنے لگیں ”میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنا پوتا مجھے کھلائی کے لیے دے دیں تو ہماری گزر اوقات سہولت سے ہوجائے گی۔“ عبدالمطلب گویا ہوئے…… ”ہم سوال کرنے والوں کو کبھی خالی نہیں لوٹاتے…… یہ میر اپوتا…… میرا پارہئ جگر بنی ہاشم کی آبرو ہے۔ یہ ہمارے بیٹے عبداللہ کی نشانی ہے۔ اس کا مبارک وجود باعث خیروبرکت ہے۔ ہم اسے خود سے جدا تو نہیں کرنا چاہتے لیکن تونے سوال کیا ہے تو یہ سعادت تمہیں مبارک ہو! مگر تمہیں اس کی حفاظت جان سے بڑھ کر کرنا ہوگی۔ 

حلیمہؓ بچے کو لے کر اپنی بیمار اور لاغر اونٹنی پر سوار ہوئی تو اونٹنی برق رفتاری سے سفر کرنے لگی۔ فضاؤں میں خوش الحانوں کی صدائیں گونجنے لگیں۔ 

اے حلیمہؓ یہ تیری قسمت کی یاوری ہے۔ خوش بختی تیرے ہمراہ ہے۔ تجھے یہ سعادت مبارک ہو…… خدا کا شکر بجا لا…… 

معاہدے کے مطابق عبدالمطلبؓ نے تین سال بعد محمدؐ کو واپس بلالیا۔ لیکن حلیمہ کے یہاں جو خوشحالی اور شادابی آچکی تھی وہ کبھی رخصت نہ ہوئی……

عبدالمطلبؓ بچے کو گود میں لیتے اور کہتے…… میرے لعل عنقریب دنیا تیری عظمت و حیثیت کو جان لے گی۔ تیرے قدم تو ابراہیم ؑ کے قدموں سے مشابہہ ہیں۔ خدا تیری حفاظت کرے……

ایک روز محمدؐ آئے تو آمنہؓ بچے کو لے کر اُن کے والد کی قبر کی زیارت کو گئیں۔ آمنہؓ انہیں لے کر مکہ روانہ ہوئیں لیکن جیسے جیسے مسافتیں بڑھتی گئیں اُن کی طبیعت بگڑتی گئی۔ محمدؐ محبت کرنے والی ماں کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ ماں نے غم سے نڈھال محمدؐ کو اپنے قریب بلایا۔ پیشانی کو بوسہ دیا اور ان کے چہرے پر الوداعی نگاہ ڈالتے ہوئے بولیں۔ ”میرے بیٹے میرے نورِنظر…… تم اُس باپ کے فرزند ہو جو سردار اور شریف تھے، خدا تجھے بابرکت کرے تو بڑی عظمت والا ہے۔“ محمدؐ کی ٹھنڈی چھاؤں ربواء میں رہ گئی۔ محمدؐ واپس لوٹے تو عبدالمطلبؓ کی مہربان بانہوں نے محمدؐ کو اپنے محبت بھرے سینے میں سمیٹ لیا۔ یہ سن 8 عام الفیل کا زمانہ تھا۔ مختلف قبائل کے وفود رنجیدہ و افسردہ مکے میں آجارہے تھے۔ رئیس مکہ سید العرب اس دنیا سے منہ موڑ گئے تھے۔ بنی ہاشم کے لیے یہ سانحہ بڑا دلدوز تھا عبدالمطلبؓ کا جنازہ مقامِ مجون میں دفن کے لیے لے جایا گیا تھا اور اس کے پیچھے آٹھ سالہ محمدؐ بھی بوجھل قدموں سے چلے جارہے تھے۔ آنکھوں میں آنسو قطرہ قطرہ رُخساروں کو بھگو رہے تھے۔ 

ابوطالبؓ نے مفارقتوں میں بھیگے ہوئے ان آنسوؤں کو اپنے دامن میں جذب کرلیا۔ ابوطالبؓ اپنے عظیم بزرگوں کی روایات کے امین تھے۔ وہ اپنے بزرگوں کی طرح خیر کا سرچشمہ مصیبت زدوں کے مددگار، ناداروں کا سہارا، صلہئ رحم کے عامل، تعظیم و احترام کے خوگر تھے، اس لیے وہ جلد ہی کلے میں شیخ بطحا اور بیضۃ البلد کے القاب سے معروف ہوئے…… 

حضرت عبدالمطلبؓ 82برس کی عمر میں اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔ عبدالمطلبؓ کے فوت ہوتے ہی بنوہاشم کا اقتدار ختم ہوگیا اور دنیوی اعتبار کے لحاظ سے بنوامیہ غالب آگئے۔ 

آپ کی کفالت کی ذمہ داری آپ کے چچا ابوطالبؓ نے اُٹھالی وہ آپ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ شام کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کو ساتھ لے لیا راستے میں بحیرہ راہب نے حضور نبی کریمؐ کو دیکھ کر کہا کہ اے ابوطالبؓ یہ لڑکا نبی آخرالزماں ہے اور اس کا ذکر تورات اور زبور کے علاوہ انجیل میں بھی آیا ہے۔ شام کے یہودی اس کے سخت مخالف ہیں، ابوطالبؓ یہ سن کر حضور کو واپس لے آئے۔ عربوں کے مختلف قبیلے آپس میں لڑتے رہتے۔ قریش اور قبیلے حین کے درمیان جنگِ فجار ہوئی اس جنگ میں نبی کریم بھی شامل ہوئے۔ قریش مسلسل لڑائیوں سے تنگ آچکے تھے اور سخت پریشان تھے کچھ لوگوں نے قوم کی اصلاح کے لیے معاہدہ کیا۔ 

آنحضرؐت بھی اس معاہدہ میں شامل تھے۔ اس معاہدہ میں بعض لوگوں کے نام فضل سے شروع ہوتے تھے مثلاً فضل حارث، فضل بن داعی اور مفضل وغیرہ اس لیے اس معاہدہ کو حلف الفضول کہتے ہیں۔ 

خانہئ کعبہ کی عمارت بہت بوسیدہ ہوچکی تھی۔ طے پایا کہ خانہئ کعبہ کی تعمیر نو کی جائے۔ چنانچہ کعبۃ اللہ کی دوبارہ تعمیر شروع کی گئی۔ جب حجراسود نصب کرنے کا وقت آیا تو قریش میں حجراسود نصب کون کرے پر رسہ کشی شروع ہوگئی ہر سردار یہ سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک آپہنچی کہ تلواریں نکل آئیں۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ کل صبح جو شخص آئے گا وہی حجراسود نصب کرے گا، سب نے یہ فیصلہ تسلیم کیا۔ 

جو فلسفیوں سے حل نہ ہوا جو نکتہ وروں سے کھل نہ سکا 

وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اِشاروں میں 

جب صبح قریش کے سردار اکٹھے ہوئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ محمدؐ پہلے ہی موجود ہیں۔ آپ نے چادر منگوائی حجراسود اس میں رکھا سردارانِ قریش کو سمجھایا کہ چاروں طرف سے چادر اُٹھا لیں پھر آپ نے حجراسود کو اُٹھا کر دیوار میں نصب کردیا۔ اس طرح حضور نبی کریمؐ کی فہم و فراست سے ایک بڑی لڑائی ٹل گئی۔ (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -