کوئی باصلاحیت ٹیم کیوں نہیں بنائی گئی

کوئی باصلاحیت ٹیم کیوں نہیں بنائی گئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دنیا کی سب سے مثالی جمہوریت برطانیہ میں ہے۔برطانیہ میں ایک جماعت حکومت میں ہوتی ہے تو اپوزیشن جماعت بھی متبادل حکومت کے طور پر کام کر رہی ہوتی ہے۔اپوزیشن جماعت شیڈو کابینہ بنا کر زندگی کے مختلف شعبوں کے ماہرین کو قوم سے متعارف کراتی ہے اور یہ لوگ اپنے اپنے شعبے میں حکومتی پالیسیوں پر مثبت تنقید کرتے ہیں اور قوم کے سامنے حکومت سے بہتر پالیسیاں پیش کرتے ہیں۔

یہ لوگ پوری تیاری کرکے پارلیمنٹ میں آتے ہیں اور ان کی کارکردگی دیکھ کر عوام فیصلہ کرتے ہیں کہ کس جماعت کے پاس اچھی ٹیم موجود ہے اور کس کی پالیسیاں اور اہداف زیادہ واضح ہیں۔وزرا کا مقابلہ اپوزیشن کی شیڈو کابینہ سے ہوتا ہے اس لئے حکومت اور اپوزیشن کو انتہائی قابل لوگوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔جمہوریت کی کامیابی کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے پاس ماہرین کی ٹیم ہونا ہی جمہوریت کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔عمران خان نے پچھلے چند سالوں سے بار بار قوم کے سامنے شیڈو کابینہ بنانے اور باصلاحیت ٹیم کے انتخاب کا ڈھنڈورا پیٹا۔وہ برطانیہ کی جمہوریت کو بطورمثال پیش کرتے رہے۔

عمران کی حکومت اپنے پہلے سال کے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے پہلے سال میں سیاسی و معاشی مسائل گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔اداروں کی ابتر صورتحال پہلے سے زیادہ ابتر ہوتی جارہی ہے۔بہتری کے سارے آثار معدوم ہوتے جار ہے ہیں۔عمران خان جیسا ”صادق اور امین“ کرپشن ختم کرنے اور،معاشی حالات کوبہتری کی طرف لے جانے سے قاصر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال عمران خان نے پارلیمنٹ کو بالکل وقت نہیں دیا۔پارلیمنٹ میں تمام اہم مسائل پر بحث کے دوران وہ مسلسل غیر حاضر رہے۔ان کی پارٹی کے ارکان نے پچھلی حکومت کی پالیسیوں پر کوئی مثبت بحث نہیں کی نہ کوئی متبادل معاشی،تعلیمی،خارجہ اور داخلہ پالیسی پیش کی۔ان میں کسی کی کارکردگی کھل کر سامنے نہیں آئی۔متبادل کابینہ کے طور پر کوئی ممبر سامنے نہیں آئے۔عمران شیڈو کابینہ تیار کرنے میں ناکام رہے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی سے یہ لوگ بائیکاٹ کرکے لاتعلق رہے اور انہوں نے کوئی تیاری نہیں کی اور نہ کوئی پالیسی مرتب کی۔

ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی یہ بات کھل کر سامنے آچکی کہ اداروں کی اصلاحات اور نظام میں انقلابی تبدیلیوں کا کوئی خاکہ تیار نہیں کیا گیا تھا۔ایف بی آر، غیر جانبدارانہ احتساب، عدلیہ کی اصلاحات، تھانہ و پٹوار کلچر بدلنے کے دعوے تو بہت کئے گئے، لیکن ان کو بدلنے کے لئے کسی قسم کی حکمت عملی کی تیاری نہیں کی گئی۔اپنے دعوؤں کی تکمیل کے لئے کسی قسم کا ہوم ورک نہیں کیا گیا۔کپتان کو جو کان میں کہتا رہا کپتان نے اسے ہی ماہر سمجھ لیا۔اسد عمر کی مثال ہی لے لیں کپتان نے کبھی اس کے دعوؤں اور معاشی پالیسی کو پاکستان کے چوٹی کے ماہرین کے سامنے رکھ کر نہیں پوچھا کہ کس طرح اس کے آئی ایم کے پاس نہ جانے کے دعوؤں پر عمل ممکن ہے یا یہ صرف ہوائی قلعے قائم کر رہا ہے اور کپتان آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے بار بار اعلان کرتا رہا اور آج آئی ایم کے سامنے کشکول لئے کھڑا ہوکر اپنے ہی سب سے بڑے وعدے سے انحراف کر چکا۔
عمران خان کے ہوم ورک نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل وزیراعلٰی پنجاب کا انتخاب ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے اور آدھے پاکستان کی آبادی کے برابر پنجاب کے وزیر اعلٰی کے لئے کپتان کے پاس پہلے سے کوئی نام موجود نہ تھا اور انتظامی امور کا اعلی تجربہ نہ رکھنے والے شخص کو لا کر کپتان نے قوم کے ساتھ مذاق کیا اور اپنے دیرینہ کارکنوں کو شدید مایوسی کا شکار کیا۔

کپتان کے پاس سب سے تجربہ کار آدمی پرویز خٹک تھا جس نے کے پی کے میں پانچ سال حکومت کرکے تحریک انصاف کو کے پی کے میں بھاری مینڈیٹ سے جتوایا لیکن کپتان نے اسے بھی کے پی کے سے ہٹا کر پنجاب جیسا ہی مذاق کے پی کے کے عوام کے ساتھ کیا اور وہاں ایک کمزور اور نا تجربہ کار شخص کو وزیراعلٰی بنا دیا گیا۔یہاں بھی دیکھنے میں آیا کہ کپتان کے پاس پرویز خٹک کی جگہ کے پی کے متبادل کے وزیراعلٰی کے لئے کوئی نام پہلے سے موجود نہ تھا اس پر بھی ہوم ورک نہیں کیا گیاتھا۔
عمران کو حکومت میں آنے کے بعد کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کہاں سے آغاز کرنا ہے اور منزل کیا ہے، کس سمت چلنا ہے اور قافلے میں کون کون لوگ کس ذمہ داری پر کام کریں گے۔جس طرف نظر پڑ گئی پرانے دور کے شہنشاہوں کی طرح جذباتی، عارضی اور مخولیا فیصلے کئے گئے بھینسیں بیچنے سے لے کر گورنر ہاوس کی دیواریں گرانے تک اور چند گاڑیاں بیچ کر معیشت کو سہارا دینے جیسی باتوں سے مذاق بنوایا۔چٹکی بجا کر جادوئی چھڑی سے اکانومی سدھارنے کے دعوؤں،بغیر کسی جائزے کے ڈالروں کی بارش کے شیخ چلی اعلانا ت اور ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں جیسے ہوائی قلعوں نے ترقی کے خواب سجانے والوں کو بہت مایوس کیا۔

کبھی نوے دنوں میں تبدیلی کے مضحکہ خیز دعوے کئے گئے تو کبھی چند دنوں میں سب ہرا ہرا دکھائی دینے کی امید دلا دی گئی جب کہ گراؤنڈ پر اس کے لئے کسی قسم کا آغاز نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی بس جو منہ میں آیا کہہ دیا۔
کپتان نے پانچ سال کا ٹیسٹ کھیلنا تھا لیکن اس کے پاس ٹونٹی ٹونٹی کھیلنے کی اہل ٹیم بھی نہیں ہے جس میں اکثر کھلاڑی ان فٹ ہیں اور وہ پہلے راؤنڈ ہی میں ہانپ کر گرتے دکھائی دے رہے ہیں۔تکنیکی طور پر کپتان کے پاس پانچ سال جم کر کھیلنے کے کھلاڑی موجود نہیں ہیں۔ان میں صلاحیت ہے نہ ٹیلنٹ دکھائی دے رہا ہے۔یہ محنت کے قابل ہیں نہ ان میں اپنے شعبوں میں کمال دکھانے کا ہنر نظر آتا ہے۔ہمارا سیاسی نظام سیاسی کامیڈٰی پیش کرتا نظر آتا ہے۔ یہاں جمہوریت کا مطلب مخولیات لیا جاتا ہے۔یہاں اپوزیشن کا مطلب متبادل کابینہ کی تیاری نہیں بلکہ گالم گلوچ کرنا اور حکومت کو مفلوج کرنا لیا جاتا ہے۔
کپتان کی حکومت آج جس صورتحال کا شکار ہے اور گراؤنڈ پر جو معاشی و سیاسی ابتری نظر آرہی تو اس کا ذمہ دار کوئی دوسرا نہیں خود کپتان ہے۔ سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہوں کی نامزدگیاں ایسے کی گئیں جیسے کسی قسمت کے کھیل میں ایک ڈبے میں نام ڈال دیئے جاتے ہیں اور ڈبے میں ہاتھ ڈال جس نام کی پرچی نکل آئی اسے انعام سے نواز دیا۔تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان نے کسی ادارے کو یا نظام بدلنے کے لئے تو کوئی منصوبہ بندی تیار نہیں کی اور نہ اب تک اس کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔ اس فرسودہ نظام کو بدلنے کے لئے کپتان اور اس کی ٹیم کچھ کرتی نظر نہیں آرہی، لیکن ایک تبدیلی ضرور دیکھنے کو مل رہی ہے کہ کپتان اور اس کی ٹیم اس نظام کا حصہ بن چکی ہے اور پرانی حکومتوں کی ڈگر پر چلنا شروع ہو چکی ہے۔کپتان اور اس کی ٹیم نے خود کو تبدیل کرکے موجودہ نظام میں خود کو ڈھالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کپتان نے شیڈو کابینہ تیار نہ کرکے اور ایک اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل ٹیم نہ بنا کر خود اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دیا بلکہ تبدیلی کی امید لگانے والے کروڑوں لوگوں کو بھی دھوکہ دیا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -