قائداعظمؒ اور اسلامی تعلیمات

قائداعظمؒ اور اسلامی تعلیمات
قائداعظمؒ اور اسلامی تعلیمات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مَیں اپنی آج کی گفتگو میں اس عمومی رائے اور خیال کو دلائل و شواہدکے ساتھ رد کرنے کی کوشش کروں گا کہ قائداعظمؒ اسلام اور اس کے احکامات کے بارے میں واجبی سا علم رکھتے تھے…… یہ درست ہے کہ قائداعظمؒ کی زیادہ تر تعلیم و تربیت مغربی ماحول میں ہوئی تھی۔ قائداعظمؒ کا لباس اور ظاہری طرز زندگی بھی مغربی ماحول سے قریب تھا، لیکن قائداعظمؒ کا دین اسلام اور سیرتِ رسولؐ کا مطالعہ کسی بھی لحاظ سے کم نہیں تھا۔بادشاہی مسجد لاہور میں 31سال تک خطابت و امامت کا منفرد اعزاز رکھنے والے نامور اور ممتاز عالم دین حضرت مولانا غلام مرشد سے بہتر شہادت اور کس کی ہو سکتی ہے۔ مَیں قائداعظمؒ کے اسلامی تعلیمات کے گہرے مطالعہ کے حوالے سے ان کی تحریر یہاں پیش کر رہا ہوں۔وہ لکھتے ہیں: ”مَیں مختلف مکتبوں اور دارالعلوموں میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ بڑی بڑی نامور ہستیوں سے شرفِ تلمذ اور تعارف حاصل رہا۔ مَیں نے سیاسی لیڈروں کو بھی دیکھا اور مذہبی رہنماؤں کو بھی، لیکن مجھے پوری زندگی میں قائداعظمؒ سے بڑھ کر کوئی شخصیت متاثر نہ کر سکی۔ مَیں نے ہر ایک کوان سے کم تر پایا۔ بلندی ء کردار کے اعتبار سے بھی اور قرآنی بصیرت کے حوالے سے بھی۔ اس قسم کے انسان صدیوں میں جا کر پیدا ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان کے خلاف ہذیان بک رہے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ چاند پر تھوکا خود اپنے منہ پر آیا کرتا ہے“…… قائداعظمؒ کے بارے میں یہ کسی عام آدمی کی رائے نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسے عالمِ دین کی رائے ہے جو اپنے شعبے میں خود ایک بے بدل اور بے مثال شخصیت تھے۔

قائداعظمؒ نے تحریک پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے پر رکھی تھی اور دو قومی نظریہ قرآن مجید کا عطا کیا ہوا ایک غیر متبدل اصول ہے۔ قرآن حکیم کی سورۃ الکا فرون میں فرمایا گیا ہے کہ ”کہو کہ اے منکرو مَیں ان کی عبادت نہیں کروں گا، جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت مَیں کرتا ہوں۔ اور مَیں ان کی عبادت کرنے والا نہیں جن کی عبادت تم نے کی ہے۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت مَیں کرتا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین“……قائداعظمؒ اسلام کو سرتاپا عمل کا دین سمجھتے تھے۔ قائداعظمؒ کا کہنا تھا کہ جب رسولِ کریمؐ نے ہمیں عمل کی تلقین فرمائی تو ان کے پیش نظر ایسی تنہا او رمجرد زندگی نہیں تھی جو صرف اپنے لئے عبادت تک محدود ہو یا اس کا دائرہ صرف حقوق اللہ تک ہو۔ قرآن حکیم کی رو سے عبادت اور زندگی کا تعلق بہت گہرا ہے۔ اسلام انسانی برادری کی خدمت کے لئے آیا ہے نہ کہ صرف عبادت کے لئے۔ قائداعظمؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں انسان کو اللہ کا خلیفہ کہا گیا ہے۔ اس تعریف کے مطابق ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم قرآنِ پاک کی تعلیمات کی روشنی میں دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق اور سلوک کا وہ راستہ اپنائیں جو اللہ تعالیٰ نے رب العالمین کے طور پر تمام انسانوں کے لئے روا رکھا ہے۔ اگر خلقِ خدا کے ساتھ محبت اور رواداری کا جذبہ ہمارے دلوں میں موجود ہے تو اس کا اظہار ہمارے روزمرہ کے معمول سے ہونا چاہیے۔ ہمیں ایسے کام کرنا ہوں گے جو ملک کی فلاح و ترقی اور پوری انسانیت کی بھلائی کے ضامن ہوں۔


قائداعظمؒ نے قرآنی ہدایات اور سیرت رسول اکرمؐ کی روشنی میں اسلام کو جس طرح سمجھا، اس کا خلاصہ قائداعظمؒ ہی کے الفاظ میں یہ ہے:”خلقِ خدا کی خدمت اور رواداری سے بڑھ کر کوئی جذبہ ہمارے پیغمبر صادق ؐ کو مرغوب نہیں تھا۔یہی زندگی کا اصل مفہوم ہے اور اسی پر ہماری سیاسی و سماجی کامرانی کا انحصار ہے“…… قائداعظمؒ کے پیش نظر یہی بات تھی کہ جب پاکستان معرض وجود میں آ جائے گا تو ہم پاکستان میں حضور خاتم المرسلینؐ کے طرز اور راستے کے مطابق حکومت تشکیل دیں گے اور حکومت کے ہر دائرے میں قرآن حکیم کی حکمرانی ہو گی۔ ایک اسلامی حکومت کا تصور پیش کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے جو کچھ فرمایا، وہ 19اگست 1941ء کے ”راہبر“ دکن میں درج ذیل صورت میں شائع ہوا؟ ”اسلامی حکومت کے تصور کا یہ بنیادی امتیاز پیش نظر رہے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے۔ اس لئے تعمیل کا مرکز قرآنِ مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی شخص یا ادارے کی۔

قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست اور معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے“……قائداعظمؒ قرآنی احکام کو صرف مذہبی اور اخلاقی فرائض تک محدود نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک قرآن مسلمانوں کے لئے ایک ہمہ گیر ضابطہ ء حیات تھا۔ تحریک پاکستان کی بنیاد بھی یہی نظریہ تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور قرآن کریم کی صورت میں ان کا اپنا ایک مکمل ضابطہ ء حیات ہے، جس پر عمل متحدہ ہندوستان میں قطعی طو رپر نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ متحدہ انڈیا میں مسلمان صرف 25فیصد تھے اور غیر مسلموں کی تعداد 75فیصد تھی۔ 75 فیصد غیر مسلم مسلمانوں کو متحدہ انڈیا کی اجتماعی زندگی میں قرآن کریم کو بطور ضابطہ ء حیات اپنانے کی اجازت کیسے دے سکتے تھے۔ ہندوستان میں ہم مسکینی و محکومی اورہمیشہ کے لئے مایوسی کی زندگی تو گزار سکتے تھے،لیکن ایسی زندگی نہیں جس میں ہم اجتماعی معاملات میں اسلام پر عمل کر سکتے۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھاکہ:


ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد


ہندوستان کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کی محرومی و مسکینی اور مظلومیت والی جو زندگی ہے، اسے دیکھ کر ہمارا یقین قائداعظمؒ کی بصیرت افروز قیادت پر اور بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے قیام پاکستان کس قدر ضروری تھا۔ قائداعظمؒ کے نزدیک تحریک پاکستان کی بنیاد اسلام تھی اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں کامیابی کے لئے بھی وہ قرآن ہی سے رہنمائی کو مسلمان قوم کے لئے ناگزیر خیال کرتے تھے۔11جولائی 1946ء کا ان کا ایک فرمان مجھے یاد آ رہا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ”اس وقت میدان سیاست میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی جنگ جاری ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کون کامیاب ہو گا؟ علمِ غیب خدا کے پاس ہے، لیکن مَِیں ایک مسلمان کی حیثیت سے محکم یقین کے ساتھ علی الاعلان یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا قطعی اور آخری راہبر بنا کر شیوۂ صبر و رضا پر کار بند ہوں اور اس ارشاد خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت، بلکہ کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کر سکتیں۔

ہم تعداد میں کم ہونے کے باوجود بھی فتح یاب ہوں گے، بالکل اسی طرح جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران و روما کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیئے تھے“……قائداعظمؒ نے تحریک پاکستان کی کامیابی کے لئے دو رہنما اصول بیان کر دیئے۔ پہلا اصول کہ قرآن کو ہم اپنا آخری اور قطعی راہبر تسلیم کر لیں اور دوسرا اصول بھی قرآن ہی کی یہ تعلیم ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ اگر قائداعظمؒ نے قرآن مجید کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ نہ کیا ہوتا تو قرآن کا یہ ایمان افروز پیغام اپنی مسلمان قوم تک کیسے پہنچاتے؟…… سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر103 میں فرمایا گیا ہے کہ ”اللہ کی رسی سب مل کر مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ پس تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے کنارے کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے، تاکہ تم رہنمائی حاصل کرو“۔


سورۃ الحجرات میں بھی تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا گیا ہے۔قائداعظمؒ نے قرآن میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو اپنے ایک خطاب میں کتنی خوبصورتی سے سمویا ہے، آپ بھی ملاحظہ کریں۔ 1943ء میں مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کراچی میں قائداعظمؒ نے فرمایا کہ ”وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد و احد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے، جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس نے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک کتاب، ایک امت“۔ قائداعظمؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ مسلمان قوم کو ہندوستان بھر میں ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے انہیں ہم قدم اور ہم آواز بنا دیا۔ اگر ہم اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ کر امتِ واحد کے طور پر متحد نہ ہوتے تو قیام پاکستان کا معجزہ کبھی رونما نہیں ہو سکتا تھا۔

اسلامی تعلیمات پر مبنی قائداعظمؒ کے اقوال آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ جس طرح ہم نے اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کا مظاہرہ کرتے ہوئے قیام پاکستان کو ممکن بنایا تھا، استحکامِ پاکستان کے لئے بھی اسی جذبے کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام اور پاکستان کے درمیان جو گہرا رشتہ ہے،اسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے…… اور آخر میں بھی اسلام اور پاکستان کے رشتے کو سمجھنے کے لئے مَیں قائداعظمؒ ہی کے ایک پیغام پر اپنی گفتگو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ 11اکتوبر 1947ء کو قائداعظمؒ نے بطور گورنر جنرل پاکستان اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ: جس پاکستان کے قیام کے لئے ہم نے گزشتہ دس برس جدوجہد کی ہے، آج وہ اللہ کے فضل سے ایک حقیقت بن چکا ہے، مگر صرف ایک ریاست کا قیام ہمارا مقصد نہیں تھا، بلکہ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں، جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں، جو ہماری تہذیب و تمدن کے مطابق پھلے پُھولے اور اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصولوں پر ہم عمل کر سکیں“۔
(مارجنگ نبیل سکول سسٹم کی تقریب میں پڑھا گیا۔)

مزید :

رائے -کالم -