"جنت الفردوس" میں چند لمحے

           "جنت الفردوس" میں چند لمحے
           

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 " جیو " کے پروگرام  "خبر ناک" سے شہرت پانے والے اداکار علی میر کو دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ آخر اس  کے پاس ایسی کون سی گدڑسنگھی ہے کہ راتوں رات مقبولیت کے سنگھاسن پر براجمان ہو گیا۔فن کار تو وہ مکمل ہیں۔۔ان کے پاس آواز اور چہرے کی لچک ہے۔وہ جب چاہے کسی کی بھی آواز اپنے منہ سے نکال سکتے ہیں اور جب چاہے کسی کا بھی چہرہ اپنے چہرے پر سجا سکتے ہیں۔لیکن مکمل فن کار تو بہت سے ہیں۔انھیں وہ شہرت اور عزت کیوں نہیں مل سکی جو آزاد کشمیر سے آئے ہوئے اس جوان رعنا کو بہت تھوڑے عرصے میں مل گئی۔اگلی سطروں میں آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔

چند روز پہلے میں اپنے دوست حسیب پاشا صاحب کے ساتھ علی میر صاحب  سے ملاقات کے لیے "جیو" کے دفتر گیا۔ہمارا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹا ان کے پاس بیٹھیں گے اور واپس آ جائیں گے لیکن ہماری یہ ملاقات ساڑھے تین گھنٹے پر محیط ہو گئی۔ان سے بات چیت کرنے کے بعد پتا چلا کہ اللہ تعالی' ان پر مہربان کیوں ہے؟ بذلہ سنجی، شگفتہ مزاجی اور علم  کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی' نے انھیں وضع داری، خاطرداری،محبت، مروت، سادگی، خدمت، احترام،انکسار،احتیاط، دردمندی اور سنجیدگی جیسے اوصاف سے بھی نوازا ہے۔علی میر کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ان کے اندر کہساروں کی خاموشی، جلال و جمال، بلندی اور خزینہ داری سب موجود ہے۔ انھوں نے نہایت بے تکلفی کے ساتھ پر تکلف چائے پلائی۔جس طرح میں اپنے گھر میں چپل، شرٹ اور ٹراوزر پہنے رہتا ہوں وہ بالکل اسی طرح "جیو" میں اپنے دفتر میں ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔گویا وہ "جیو" کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ میری خواہش پر تصویر بنائی جانے لگی تو بولے:"سر! میں آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ لوں؟"ہم رخصت ہونے لگے تو" جیو" کی تیسری منزل سے گراونڈ فلور تک چھوڑنے آئے۔

اس ملاقات کے دو یا تین دن کے بعد علی میر صاحب نے مجھے فون کیا۔کہنے لگے:" کیا آپ میرے ساتھ جنت الفردوس میں چلیں گے؟ سوال غیر متوقع اور غیر فطری تھا۔کون کہ سکتا ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں؟ میری حیرت کو بھانپ کر علی میر بولے: "میرے کچھ دردمند دوستوں نے "جنت الفردوس" کے نام سے ایک ٹرسٹ بنا رکھا ہے۔اس کا مرکزی دفتر لاہور کی رائے ونڈ روڈ کے ایک دیہاتی علاقے میں بنایا گیا ہے جہاں لوگ ابھی صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔اس مرکزی دفتر میں یتیم اور بے سہارا بچیوں کے لیے ایک نہایت خوب صورت اور تمام ضروری سہولتوں سے آراستہ ایک قیام خانہ بنایا گیا ہے۔ان بچیوں کو مہنگے سکولوں اور کالجوں میں داخل کرایا گیا ہے۔ہر روز انھیں ٹرسٹ کی گاڑی سکول کالج لے کر جاتی اور دوپہر کو واپس  لاتی ہے۔اس قیام خانے میں بچیوں کو قرآن پاک پڑھایا جاتا ہے۔نئے زمانے کے مطابق جینا اور زندگی کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر جینا سکھایا جاتا ہے۔یہاں ان کے لیے بہت سے تفریحی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی روحانی اور تخلیقی شخصیت کی بھی تکمیل ہو سکے۔فی الوقت اس قیام خانے میں کل 80 بچیاں مقیم ہیں اور ٹرسٹ کے چلانے والوں کے لیے جنت الفردوس کا راستہ بنا رہی ہیں۔"

پھر انھوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے ان بچیوں کے لیے آپ کے دوست حسیب پاشا المعروف ہامون جادوگر  اور ان کی پوری ٹیم کو مدعو کر رکھا ہے۔ہم سفر اچھا ہو تو مشکل سے مشکل سفر آسان ہو جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے حسیب پاشا کے ساتھ جنت الفردوس میں جانے کا فیصلہ کیا۔پاشا صاحب کے ساتھ وہاں پہنچا تو اداکار نورالحسن اور گلوکار ابرارالحق بھی آگئے۔یہ دونوں فن کار بھی میری اور حسیب پاشا کی طرح درد کے مارے ہوئے ہیں۔کسی نے اپنا درد سنا دیا تو اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ بھی ہم دونوں کی طرح "جنت الفردوس" میں مقیم یتیم بچیوں کے سروں پر دست شفقت رکھنے آگئے تھے۔ہامون جادوگر نے اپنے منتروں سے اور ان کے ساتھ آئے ہوئے نوآموز اداکاروں نے اپنی بے ساختہ اداکاری سے جہاں یتیم بچیوں کے چہروں کو مسکراہٹوں کا تحفہ دیا وہاں دوسرے حاضرین محفل کو بھی لوٹ پوٹ کر دیا۔پاشا صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ تفریح کے ساتھ ساتھ نہایت عمدہ اور قیمتی پیغام بھی دیتے جاتے ہیں۔باتوں باتوں میں تمام چھوٹے بڑوں کو بڑے بڑے سبق دیتے جاتے ہیں۔سکولوں کالجوں کے اساتذہ جو اخلاقی باتیں اپنے طلبہ و طالبات کو دو چار سال میں رفتہ رفتہ سکھاتے ہیں، وہ باتیں پاشا صاحب ایک گھنٹے کے پروگرام میں بچوں کے دلوں میں اتار دیتے ہیں۔اپنا شو کرنے کے بعد پاشا صاحب نے برملا اعتراف کیا کہ انھیں یہ شو کرنے کا لطف بس دو بار آیا۔ایک بار بالا کوٹ کے زلزلے سے متاثرہ بچوں کے سامنے اور دوسری بار آج "جنت الفردوس" کی ذہین بچیوں کے سامنے۔

مولانا حالی نے کہا تھا:

  یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں 

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں 

"جنت الفردوس" جیسا ادارہ چلانے والے لوگوں کو شہرت کا شوق ہے نہ دولت کمانے کا۔وہ تو بس چپ چاپ خدمت کا کام کیے چلے جا رہے ہیں۔انھوں نے چند بچیوں کے لیے اس دنیا کو جنت بنانے کا راستہ چن  کر دراصل اپنے لیے جنت کمالی ہے۔

اس پروگرام میں علی میر کا انہماک اور وارفتگی دیکھ کر مجھے پتا چل گیا کہ اس کے پاس کون سی گدڑسنگھی ہے جو اسے شہرت اور عزت کے سنگھاسن پر بٹھائے ہوئے ہے۔وہ اس ادارے کی بچیوں کے لیے اپنا قیمتی وقت نکالتا ہے۔دامے، درمے،قدمے اور سخنے ان کے ادارے کے ساتھ رہتا ہے۔یہی خوبی میں نے منو بھائی میں بھی دیکھی تھی۔غریبوں کے بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھنے کے لیے وہ کہیں بھی پہنچ جایا کرتے تھے۔ایک بار میں نے انھیں لاہور کے ایک مضافاتی علاقے میں واقع ایک نجی تعلیمی ادارے کی ایک تقریب میں شرکت کی دعوت  دی تو انھوں نے انکار کر دیا۔لیکن جب میں نے انھیں بتایا کہ اس تعلیمی ادارے میں پسماندہ گھرانوں کے بچے پڑھتے ہیں تو وہ فورا" چلنے کو تیار ہو گئے۔میں تو اپنی اب تک کی زندگی سے اس نتیجے تک ہی پہنچ سکا ہوں کہ اپنے سے کمزور کا ہاتھ تھامنا ہی اصل عبادت ہے اور جنت ایسے ہی لوگوں سے آباد ہوگی۔

مزید :

رائے -کالم -