فیکون: مائنڈ کیئر۔ نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کا حل

             فیکون: مائنڈ کیئر۔ نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کا حل
             فیکون: مائنڈ کیئر۔ نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کا حل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شمیلہ ارم ایک ابھرتی ہوئی ماہر نفسیات ہیں جواں عزم و ہمت ہونے کے ساتھ ساتھ پُرجوش قائدانہ صلاحیتوں کی بھی مالک ہیں،شعبہ جاتی اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور اس شعبے میں ہونے والی تحقیق و تجربات سے ہم آہنگ ہونے کے لئے ہمہ وقت مصروف رہی ہیں ملکی اور غیر ملکی اداروں سے کئی ڈپلومے بھی لے رکھے ہیں۔ماہر نفسیات کے طور پر  اپنا آپ منوانے کے لئے پُرجوش ہی نہیں عملی کاوشیں بھی کرتی رہتی ہیں۔ ماہر کلینکل سائیکالوجسٹ کے طور پر مسائل کا شکار مرد و خواتین کا علاج بھی کرتی ہیں۔اپنا کلینک بھی چلاتی ہیں۔نو آموز ماہرین نفسیات کی تربیت کے لئے نہ صرف کئی اداروں میں جزوقتی پروفیسر/ماہر کے طور پر مصروف رہتی ہیں، بلکہ ان کی عملی تربیت کے لئے ورکشاپس کا اہتمام بھی کرتی ہیں۔اپنے پیشہ وارانہ معامات کی تنظیم کے لئے ”فیکون:مائنڈ کیئر“ کا ایک ذاتی ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے، جس کے تحت دور دراز شہروں و علاقوں میں جا کر ٹریننگ ورکشاپس منعقد کرتی ہیں۔وہ اس شعبے میں اپنا آپ منوانا چاہتی ہیں، ناموری یا دولت کے حصول کے لئے نہیں،بلکہ نوجوان اور جوان نسل کے بچے بچیوں کے نفسیاتی و جسمانی مسائل حل کرنے کے لئے ایک ذمہ دارشہری کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔

اسی حوالے سے گزشتہ دِنوں سہ روزہ جشنِ اقبال کے حوالے سے الحمراء آرٹس کونسل میں منعقدہ تقریبات میں ”فیکون:مائنڈ کیئر“ نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی،اوکاڑہ یونیورسٹی اور یو ایم ٹی کے شعبہ سائیکالوجی کے طلبہ و طالبات کے  علاوہ ان کے اساتذہ کرام نے بھی شرکت کی۔ یہ ایک بار بھرپور تعلیمی  و تربیتی سرگرمی تھی۔ ڈاکٹر نور الزمان رفیق (چیف ایگزیکٹو آفیسر، فنکس فاؤنڈیشن) ڈاکٹر راؤ محمد اسلم،موٹیویشنل سپیکر، محترمہ عقیلہ عنبرین، پرنسپل سائیکالوجسٹ PIMH، عائشہ جبار، ہیڈ آف سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ، یونیورسٹی آف اوکاڑہ، شمائلہ ارم، سپورٹس سائنٹسٹ، جی سی یو لاہور اور حماد اطاف خان، بانی انسانیت فاؤنڈیشن بطور ماہرین شریک ہوئے۔ ”فیکون: مائنڈ کیئر“ کی بانی و چیف ایگزیکٹو آفیسر شمیلہ ارم ماسٹر  آف دی سریمونی شریک ہوئیں۔

مذاکرے کا موضوع بڑا دلچسپ تھا: ”بالغ نوجوانوں کے نفسیاتی و جسمانی مسائل“:دنیا کی آبادی8.2 ارب نفوس پر مشتمل ہے پاکستان کے بیورو آف سٹیٹیٹک کے مطابق پاکستان کی آبادی25 کروڑ31لاکھ16ہزار 275 ہو چکی ہے۔ 34.1 فیصد لوگ شہروں میں، جبکہ 65.9 فیصد دیہاتوں میں رہتے ہیں۔مجموعی آبادی کا 65فیصد30سال سے کم عمر نفوس پر مشتمل ہے۔عالمی بنک کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان65فیصد جوانوں میں 43 فیصد کسی نہ کسی نشے کی لت میں مبتلا ہیں یہ بہت بڑی تعداد ہے جو ظاہرکرتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم خطرناک حدود میں پہنچے ہوئے ہیں کسی بھی ملک کی آبادی میں یوتھ کی اس قدر بلند شرح ایک بہت بڑا انسانی سرمایہ ہوتا ہے اس حوالے سے پاکستان عالمی سطح پر پہلے نمبر پر ہے،65فیصد یوتھ پاپولیشن، ایک بہت بڑا سرمایہ اور اثاثہ ہے لیکن ہم ابھی تک نوجوانوں کو کسی ترقی کرتی ہوئی معیشت کا کارآمد حصہ بنانے میں قطعاً ناکام نظر آ رہا ہے کسی اعلیٰ نصب العین کی عدم موجودگی، کمزور معیشت میں روز گار کے موقع نہ ہونا، قدرِ زر میں گراوٹ، مہنگائی اور ایسے ہی دیگر مسائل کے باعث ہمارے  نوجوان غیر مستند نیٹ ورکس کا حصہ بن رہے ہیں،کیونکہ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی معاملات سیاست و معیشت عدم توازن اور تفاوت کا شکار ہو چکے ہیں۔مذاکرے میں ماہرین نے سوشل  میڈیا پر خاص طور سے بات کی اور اسے نوجوانوں کے بہت سے مسائل کا ذمہ دار قرار دیا۔یہ بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے،لیکن عملی طور پر اسے نوجوانوں کے مسائل کی جڑ قرار دینا درست نہیں ہے۔اصل چیز سوشل میڈیا کا استعمال ہے عمران خان نے اسی میڈیا کے استعمال سے نوجوانوں میں اپنے بیانیے کی روح پھونکی ہے اور اسی کے ذریعے نوجوانوں کو ایک راہ دکھائی ہے تو اس میں اصل کردار بیانیے کا ہے جسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا گیا ہے۔سوشل میڈیا تو باقی سب کے لئے بھی دستیاب تھا اور ہے، ن لیگ، پیپلزپارٹی،جماعت اسلامی و دیگر سیاسی  جماعتوں کے لئے بھی یہ سہولت دستیاب تھی اور ہے، لیکن وہ اس کا استعمال اس مہارت سے نہیں کر سکے جس طرح عمران خان نے کیا ہے اور وہ اپنا بیانبہ پھیلا بھی چکے ہیں، ہمارے نوجوان، ہمارا قومی اثاثہ اگر آج اندھیروں میں بھٹک رہا ہے تو اس میں ان کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا کہ والدین،اساتذہ، علماء اور بزرگوں کا ہے ہم اپنی ان65فیصد یوتھ کو نہ تو بہتر مسلمان بنا سکے اور نہ ہی اچھا شہری، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری یوتھ اندھیروں میں بھٹک رہی ہے،43 فیصد نے نشے میں پناہ لے لی ہے باقی کئی نوجوان کسی بھی طریقے سے بیرون ممالک جا کر  اپنا حال بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ان میں سے کئی سمندرکی بے رحم موجوں کا شکار ہو کر لقمہئ اجل بن جاتے ہیں۔ سال 2024ء کے دوران سات لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے ملک چھوڑا، ہجرت کی اور اپنے روشن مستقبل کے لئے مملکت ِ پاکستان کو خیر باد کہا۔اللہ نے ہمیں اعلیٰ نسانی وسائل، نوجوانوں کی شکل میں عطاء کئے ہیں لیکن ہم انہیں تعمیرو ترقی کی راہ پر لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے،بہت سے ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، بات یہاں تک رہتی تو چلو قابلِ قبول تھا،کیونکہ باہر جانے والے زرِمبادلہ یہاں بھجواتے ہیں،جو ہمارے ملکی معیشت کے لئے لائف لائن کا کام کرتا ہے،لیکن یہاں تو43فیصد نوجوان نشئی بن چکے ہیں،بہت سے نفسیاتی اور جسمانی عوارض کا شکار ہو چکے ہیں یہ صورتحال خطرناک اور فوری توجہ طلب ہے،لیکن ہمارے ہاں شمیلہ ارم جیسی نوجوان، باہمت اور باتدبیر خاتون بھی ہیں جو ایسے ہی جوانوں اور نوجوانوں (لڑکے، لڑکیوں) کو حقیقی زندگی کی طرف لوٹانے کے لئے دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ یہ خود بھی جوان ہیں توانا ہیں، ذہنی اور جسمانی توانائی سے بھرپور، نوجوانوں کو راہِ راست پر لانے کے مشن پر کمربستہ ہیں، وہ کلینک میں بیٹھ کر بھی نفسیاتی مسائل کے حل کی کاوش کرتی  ہیں،الجھنوں میں گھرے نوجوانوں کے ساتھ مصروف رہتی ہیں۔انہیں ڈرگز کے چنگل سے نکلنے کی مشقیں بھی کرواتی  ہیں، جدید طرزِ علاج کے ساتھ ساتھ انہیں صحت مند زندگی گزارنے کی ترغیب بھی دیتی ہیں۔ شعبہ نفسیات کی تعلیم سے وابستہ نوجوانوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتی ہیں انہیں دورِ حاضر کے جدید طریق علاج سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں نے نبرد آزما ہونے اور انہیں صحت مند بنانے کی تربیت بھی دیتی ہیں۔مذکورہ مذاکرے میں پاکستان کے مایہ ناز ماہرین کی شرکت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے شعبہ نفسیات کے طلبہ، طالبات اور اساتذہ کی جوق در جوق شرکت شمیلہ ارم کی کامیاب حکمت عملی کا ثبوت ہی نہیں،بلکہ یہ ایک صحت مند پاکستانی معاشرے کے قیام و ارتقاء کی نوید بھی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ نوجوانوں کی ایسی کاوشوں کو سپورٹ کیا جائے۔ ”فیکون: مائنڈ کیئر“  امید کی کرن  ہے اور شمیلہ ارم اس کا منبع ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -