خطے کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد، وقت کی ضرورت
سرزمین پاکستان شدت پسندی ، لاقانونیت ، غربت، جہالت، بے انصافی اور بیرونی عناصر کی مداخلت کی وجہ سے سلطنت بے آئین بنتی جا رہی ہے۔ ہمارے ہزاروں شہری شدت پسندی کی نذر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ہزاروںلوگ زخمی حالت میں زیر علاج ہیں۔ یہ شدت پسند لوگ کون ہیں ؟ وہ اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف ایسے کام کیوں کرتے ہیں، کروڑوں روپوں کی جائیدادوں کو بموں سے کیوں اڑا دیا گیا ہے؟ سکول اور دیگر درس گاہیں گرادی جاتی ہیں، ایسی کارروائیاں کئی سال سے جاری ہیں۔ ہمارے تمام چھوٹے بڑے شہر تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہماری ترقی بھی بڑی حد تک رکی ہوئی ہے۔ ہمارے محبوب شہر کراچی، کوئٹہ، پشاور وغیرہ ہر قسم کی غیر قانونی کارروائیوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی ۔ قانون نافذ کرنے والے شدت پسندوں سے اپنی زندگیاں بچانے کے لئے چھپے بیٹھے ہیں۔ جرائم پیشہ لوگ بے دھڑک جرائم کا ارتکاب کر کے کراچی کی گلیوں میں نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ مَیں یہ بات تسلیم کرنے کے لئے ہر گز تیار نہیں کہ اگر ہمارے ادارے پوری طرح سے اپنے فرائض منصبی کو سر انجام دے رہے ہوں،اس کے باوجود اس طرح کی کارروائیاں دن رات جاری ہیں۔ تعداد میں یہ تمام جرائم پیشہ لوگ بہت ہی تھوڑے ہیں۔ ہمارا کراچی شہر اس وقت 2 کروڑ سے بھی زیادہ آبادی والا شہر بن چکا ہے۔ لاکھوں غیر پاکستانی کراچی شہر میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے زیادہ تر جرائم کرنے والے لوگ کراچی شہر میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ ایسے شر پسند لوگ سینکڑوں کی تعداد میں ہوں گے، مگر انہوں نے سارے کراچی شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ہم خیال لوگ اکٹھے زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جرائم پیشہ لوگ بھی ہم خیال ہوتے ہیں۔ جرائم کا ارتکاب کرنا ہی ان کا مشترکہ مفاد والا پیشہ ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے کے نہ صرف ساتھی ہوتے ہیں، بلکہ نزدیک ترین رشتہ دار بھی ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی غمی اور خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ امن پسند لوگ ان کے دشمن ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ان کی ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں۔”بھتہ خوری “کی بات ہر شہری کی زبان پر ہے۔ بھتہ خوری کو سب جانتے ہیں، بھتہ خور وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کا تعلق واسطہ معاشرے کے طاقت ور ترین طبقات سے ہوتا ہے۔ اگر کبھی ایسے لوگ جرائم کرتے پکڑے جائیں تو ان کے ساتھی جرائم پیشہ لوگ ہی عدالتوں میں ان کے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں نہ صرف حکمران، بلکہ بڑے زمیندار اور سیاستدان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک بار ہمارے سب سے بڑے حکمران نے کہا تھا کہ جیل میں مَیں نے بہت سے ”یار“ بنائے ہیں۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ”یار“ کا لفظ انہوں نے کھل کر استعمال کیا تھا۔ جیل میں رہائش پذیر لوگ جرائم پیشہ ہی ہوں گے۔میرا ایمان ہے کہ حکومت چاہے تو لاقانونیت کے اس مسئلے کو برسوں میں نہیں، بلکہ دنوں میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ جنرل نصیر اللہ بابر نے قانونی کارروائی کرتے ہوئے ایک قلیل مدت میں کراچی میں امن بحال کر دیا تھا۔ اب بھی اسی طرح سے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر درست ہے کہ کراچی کے امن کو تباہ کرنے کے لئے بیرونی ہاتھ صاف نظر آتے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل ہمارے روز اول کے دشمن ہیں، ان میں امریکہ بھی شامل ہو گیا ہے۔
ہم عربوں اور فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں، اس کے جواب میں اسرائیل ہمارے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہتا ہے۔ اسی طرح بھارت ہمارا دشمن ہے، اس نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ تاریخ نے اس بات کی گواہی دے رکھی ہے کہ بھارت ہمیشہ اس تاک میں رہتا ہے کہ وہ کس طرح ہمیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے۔ کیا ہم بھول چکے ہیں کہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) پر کس نے افواج سے خوفناک حملہ کیا تھا اور اس طرح ہمارے وطن کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا؟ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے بھی مشرقی پاکستان کے بھائیوں کے ساتھ بھائیوں والا سلوک نہیں کیا تھا۔ مجھے تو بنگالی بھائیوں سے کوئی گلہ اور شکوہ نہیں ہے۔ ہم سب پاکستانی بنگالیوں کی علیحدگی کے ذمہ دار ہیں۔ ہم قطعی طور پر بھول گئے تھے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دنیا کا دوسرا بڑا ملک اور ہمارا دشمن بھارت موجود ہے۔ اسی طرح ہم دونوں کے درمیان سمندروں کی دیوار بھی حائل تھی۔ بنگلہ دیش کے مسئلے کو دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمیں شروع ہی سے بنگالی بھائیوں کے ساتھ کنفیڈریشن کا نظام قائم کرنا چاہئے تھا۔ یاد رکھیں کہ کنفیڈریشن ہمیشہ آزاد اور خود مختار ملکوں کے درمیان ہوا کرتی ہے۔ وہ کسی وقت بھی ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ اور امریکہ کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔میرے نزدیک 23 مارچ 1940ءکی قرارداد پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ملکوں کے اتحاد کا ایک شاندار ذریعہ تھی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے کبھی جغرافیائی صورت حال کو سامنے نہیں رکھا۔ آج بھی ہمیں بنگلہ دیش کے ساتھ برابری کی سطح پر مذکورہ بالا قرارداد کی روشنی میں بات چیت کا اہتمام کرنا ہوگا۔ ایسا کیا جانا یقینی طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے مفاد میں ہوگا۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے بنگلہ دیشی بھائی دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ مَیں اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں سے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ وہ بھارتی چال بازیوں سے ہو شیار رہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ انہوں نے مغربی بنگال کو مذہب کی بنیاد پر اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔ مغربی بنگال محض ہندو مذہب کی بنیاد پر بھارت کا ایک صوبہ ہے۔میرا خیال ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک کنفیڈریشن کی شکل میں اکٹھے رہ سکتے ہیں، بہر حال بنگلہ دیش ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ مَیں بنگلہ دیش کا ایک عظیم الشان مستقبل دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ وہ وقت دور نہیں جب بنگلہ دیش مشرق میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرے گا۔ وہ سچے اور پختہ مسلمان ہیں۔ مسلمان ہونے کی بنا پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے 50 کروڑ سے زائد لوگوں کے دل ایک ہی وقت میں ایک ہی طرح دھڑکتے ہیں۔ مسلم لیگ انہوں نے بنائی تھی، پاکستان بنانے میں بھی ان کا بڑا حصہ ہے۔ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا رہنما مانتے تھے۔پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو معاشی اور تجارتی میدانوں میں تعاون کرنا ہوگا۔ دونوں ملک ایک دوسرے کی کھل کر مدد کریں۔ ماضی کو بھول کر ہمیں آنے والے زمانے کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ اس خطے کے تمام چھوٹے ملکوں اور قوموں کا واحد دشمن بھارت ہے۔ بھارت برصغیر کے کسی اور ملک کے وجود کو برداشت نہیں کرے گا۔ وہ تو چین، امریکہ، روس جیسے ملکوں کی برابری کا دعویدار بنا بیٹھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے طاقت کے استعمال سے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھارت نے حیدر آباد دکن، جونا گڑھ، منگرول اور منادر پر طاقت کے زور پر قبضہ کیا تھا۔ ہمارے حکمران ہمیشہ اس تاریخی حقیقت کو اپنے سامنے رکھیں اور بھارت سے دوستی کے نعرے نہ لگائیں، مسئلہ کشمیر موجود ہے، اس جھگڑے کو ہمیں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے اصول کے تحت ہی حل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ مسئلہ کشمیر پر سودے بازی کرنا غداری کے برابر ہوگا۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پوری ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس حصے کو بھارتی غاصبوں کے قبضے سے آزاد کرانا اسلامیان پاکستان کا مقدس ترین فریضہ ہے۔ کشمیریوں کا ”جینا مرنا“ پاکستانی قوم کے ساتھ ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب بھارت نامراد ہو کر سرزمین کشمیر کو خالی کر دے گا۔ امریکہ جیسی دنیا کی واحد سپر پاور افغانستان کو خالی کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ بھارت ”امریکہ“ نہیں ہو سکتا، بہتر ہوگا کہ بھارت موجودہ دور کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو خالی کر دے، آخر کار بھارت کو اس کڑوی گولی کو نگلنا ہی پڑے گا۔آج کا دور آزادی کا دور ہے، ہر قوم آزاد فضاﺅں میں زندہ رہنے کی خواہش رکھتی ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود کشمیریوں نے بھارتی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا ۔ ہزاروں لاکھوں کشمیری مرد، عورتیں اور بچے بھارتی جارحیت کا شکار بن چکے ہیں۔ کشمیری مقبول بٹ شہید اور افضل گورو شہید کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ مَیں خود بچپن میں اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ بھارتی افواج کے تباہ کن حملوں کی وجہ سے پاکستان میں آ گیا تھا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بھارتی اور ڈوگرہ افواج نے مسلمانوں کا قتل عام اور ان کی بستیوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔ بھارت دنیا کو یہ تو بتائے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے کس اصول کے تحت ریاست جموں و کشمیر پر قابض ہوا تھا؟ کشمیر ایک مسلمان آبادی کا علاقہ ہے۔ کشمیری دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ یہ نوشتہ دیوار ہے، آخر کار کشمیری آزاد ہوں گے اور وہ مملکت خدا داد پاکستان کے ساتھ شامل ہوں گے۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت ان کو اس راستے پر چلنے سے نہیں روک سکے گی۔ ٭