مجھے اپنا ایمرسن کالج واپس چاہیے
پنجاب کی بزدار حکومت اِن دِنوں نہایت دیدہ دلیری سے تعلیمی نظام پر حملہ آور ہوئی ہے۔کالجوں کو یونیورسٹیوں کا لبادہ پہنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کا کریڈٹ لیا جا رہا ہے۔
اِس ضمن میں تازہ ترین حملہ ملتان کے مشہور و معروف اور تاریخی ادارے گورنمنٹ ایمرسن کالج پر کیا گیا ہے۔ میرے پسندیدہ اور محبوب وزیراعلیٰ عثمان بزدار صاحب بھی میری طرح اسی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔اس ادارے کا احسان انہوں نے یوں اتارنے کی کوشش کی ہے کہ ایمرسن کالج کو بیک جنبش ِ قلم یونیورسٹی بنانے کا حکم صادر کر دیا ہے۔یونیورسٹی بنانا ایک مستحسن قدم ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے ادارے جتنے بھی ہوں، کم ہیں۔لیکن یہ ہر گز درست نہیں کہ آپ کسی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر تھوک میں پکوڑے تلنے کی کوشش کریں۔ یہاں مجھے پچھلے دورِ حکومت کا ایک نہایت دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔
لاہور میں چوبرجی سے مزنگ جانے والی پتلی سی سڑک بہاولپور ہاؤس روڈ پر دو رویہ ٹریفک چلتی تھی،یہاں آئے روز حادثے ہُوا کرتے تھے۔ ایک دن اخبار میں خبر آئی کہ اس سڑک کو دو رویہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ہم اہل ِ لاہور خوش ہو گئے کہ چلو اب اِس تنگ سڑک سے گزرنا آسان ہو جائے گا۔چند روز کے بعد میرا اس سڑک سے گزر ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سڑک کے عین درمیان میں ایک فٹ چوڑا ڈیوائیڈر بنا دیا گیا ہے۔ جگہ بھی وہی رہی، سڑک بھی وہی تھی، ٹریفک بھی وہی تھی، بس دو چار لاکھ روپے خرچ کر کے اس ڈیڑھ کلو میٹر لمبی سڑک کو نہایت ہوشیاری سے دو رویہ کر دیا گیا تھا۔ لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ شاید سڑک کے دونوں طرف سے کچھ نئی زمین حاصل کی جائے گی اور اس سڑک کو کشادہ کیا جائے گا،لیکن یہاں بھی تھوک میں پکوڑے تلنے کی بہترین مثال قائم کر دی گئی۔
کچھ یہی حال گورنمنٹ ایمرسن کالج کا ہُوا ہے۔اگر بزدار حکومت ملتان میں کوئی یونیورسٹی قائم کرنا ہی چاہتی تھی تو اس کے لیے نئی جگہ مختص کرتی۔نئی عمارت کھڑی کرتی، نئے اساتذہ بھرتی کرتی۔نیا بجٹ رکھتی،لیکن پہلے سے موجود ایک شاندار روایات کے حامل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر یہ حکومت خود کو بھی دھوکا دے رہی ہے اور عوام کو بھی۔ آج پنجاب بھر کے اساتذہ اور طلبہ بزدار حکومت کے اس فیصلے پر شدید نکتہ چینی کر رہی ہے، کیونکہ اس سے سب سے زیادہ اثر جنوبی پنجاب کے ان غریب اور متوسط گھرانوں پر پڑے گا،جن کے بچے نہایت کم فیس ادا کر کے ایک بہترین تعلیمی ادارے کے بہترین اساتذہ سے فیض یاب ہوتے ہیں۔یونیورسٹی بننے کے بعد اس ادارے میں غریب اور متوسط گھرانوں کے بچوں کے لیے داخلہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا، جس طرح چند برس پہلے ایف سی کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے ساتھ ہوا ہے۔آج یہ ادارے غریبوں کے لیے ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں۔تعلیم کے لیے میرٹ، صرف تعلیم ہونا چاہیے، لیکن حکومت صرف پیسے کو میرٹ بنانا چاہتی ہے۔گورنمنٹ ایمرسن کالج کو ایمرسن کالج بنانے والے محنتی اور لائق اساتذہ کو رفتہ رفتہ اس ادارے سے فارغ کر دیا جائے گا اور چہیتے اور من پسند پی ایچ ڈی اساتذہ کو یہاں لایا جائے گا، پھر جی سی یو لاہور کی طرح ایمرسن کالج بھی ایک فیکٹری بن جائے گی اور عام آدمی اس کے قریب سے بھی نہیں گزر سکے گا۔
ایمرسن کالج کو یونیورسٹی بنانے کے فیصلے پر مجھے کیوں اعتراض ہے؟طلبہ اور اساتذہ کیوں احتجاج کر رہے ہیں؟ اگرہمارے پسندیدہ اور محبوب وزیراعلیٰ عثمان بزدار صاحب پوچھنا چاہیں تو عرض ہے کہ ملتان میں جس مقام پر ایک کالج کو یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس سے تقریباً پانچ کلو میٹر دور پہلے سے ایک بہت بڑی یونیورسٹی نہایت احسن طریقے سے کام کر رہی ہے۔ یہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ہے، جسے عرفِ عام میں بی۔ زیڈ۔یو کہا جاتا ہے۔ عثمان بزدار صاحب نے اعلیٰ تعلیم اسی یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔ وہ جانتے ہوں گے کہ یہ یونیورسٹی کتنے بڑے رقبے پر محیط ہے۔ بی۔ زیڈ۔یو میں آج بھی اتنی گنجائش موجود ہے کہ اس میں نئی عمارتیں کھڑی کر کے نئے شعبے قائم کیے جا سکتے ہیں۔اگر آپ جنوبی پنجاب پر احسان کرنا ہی چاہتے ہیں تو بی۔ زیڈ۔ یو میں توسیع کریں۔ اسے بجٹ دیں۔ نئی پوسٹیں دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ملتان کے گرد و نواح میں کوئی نئی جگہ تلاش کریں۔ یہ جگہ مظفر آباد، شیر شاہ اور مظفر گڑھ کی طرف بھی ہو سکتی ہے۔ خانیوال روڈ پر قادر پور رانواں بھی نئی یونیورسٹی کے لئے بہترین جگہ ہو سکتی ہے۔ گورنمنٹ ایمرسن کالج جس مقام پر واقع ہے وہ تو پہلے ہی بہت گنجان ہے۔ایک اور یونیورسٹی بننے کے بعد تو یہ جگہ اہل ِ ملتان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کرے گی۔
مَیں وزیراعلیٰ صاحب سے عرض کروں گا کہ اِس وقت آپ پیا من کو بھائی سہاگن ہیں۔آپ اپنے پسندیدہ اور محبوب وزیراعظم عمران خان صاحب کی خدمت میں عرض کیجیے کہ مَیں اہلِ ملتان کو ایک نئی یونیورسٹی دیا چاہتا ہوں تو ممکن ہی نہیں کہ وہ آپ کی خواہش کا احترام نہ کریں۔اگر آپ کسی نئے مقام پر ایک نئی یونیورسٹی بنانے میں قائم ہو جاتے ہیں تو تاریخ آپ کو ساری عمر یاد رکھے گی۔اگر آپ اپنے کیے ہوئے نامناسب اور غلط فیصلے پر اڑے رہے تو تاریخ آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رسوائی کا ایک داغ دے جائے گی۔ جنوبی پنجاب کے لوگ پہلے ہی اہل ِ لاہور کے شاکی رہتے ہیں۔ آپ کا تعلق تو جنوبی پنجاب سے ہے۔آپ بھی جنوبی پنجاب کے غریب اور متوسط گھرانوں کے طلبہ و طالبات پر یہ ظلم ڈھانا چاہتے ہیں؟