متحد ہو جائیں، ملک کو بحرانوں سے نکالیں!

  متحد ہو جائیں، ملک کو بحرانوں سے نکالیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عام انتخابات کے باقاعدہ نتائج ابھی جاری نہیں ہوئے تھے کہ ان انتخابات کو متنازعہ بنانے کے لئے سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا جبکہ پولنگ بڑے پرامن ماحول میں ہوئی ، توجہ طلب بات یہ ہے کہ پولنگ کے دوران ملک بھر میں کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے انتخابات پر اثر انداز ہونے کا کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ الزامات اس وقت تک الزامات ہی رہتے ہیں جب تک حقائق منظر عام پر نہ آئیں ، ثبوت پیش نہ کئے جائیں ، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر انتخابات میں واقعی دھاندلی ہوئی ہے تو اس کا پراپیگنڈہ سوشل میڈیا پر کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن کو مبینہ دھاندلی کے ثبوت پیش کئے جائیں۔ اگر وہ نہیں مانتا تو پھر بذریعہ عدالت متعلقہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے موقف کو تسلیم کروائیں تاکہ ملک جو پہلے ہی سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے ، وہ مزید انتشار کا شکار نہ ہو۔ ایسے میں پاکستان مسلم لیگ( ن) کو چاہئے کہ وہ کسی بھی صورت وفاق میں حکومت نہ بنائے ،اسے پی ڈی ایم کی حکومت کے تجربے کو مد ِنظر رکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل بنانا چاہیے کیونکہ ایسے حالات میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے کوئی غلط فیصلہ کر لیا تومستقبل میں اسے عوام کی عدالت میں جوابدہ ہونا ہو گا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما بھی وفاق میں حکومت بنانے کے حق میں نہیں ہیں، انہوں نے اپنی قیادت کو یہ تجویز دی ہے کہ موجودہ سیاسی صورتِ حال کے پیش ِ نظر ن لیگ کو وفاقی حکومت نہیں بنانی چاہئے۔مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف کا کہنا ہے کہ اگر مرکز میں حکومت بنانی ہے تو کسی بھی اتحادی جماعت کی غیر اصولی بات نہیں ماننی چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کے مختلف حلقوں اور صحافیوں کے درمیان یہ بحث پہلے سے ہو رہی ہے کہ وفاق میں ن لیگ کو حزبِ اختلاف میں بیٹھ جانا چاہئے۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی نواز شریف کو مل کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کی دعوت دے چکے ہیں، لیکن مسلم لیگ(ن) کے قائد کا یہ موقف بھی درست ہے کہ ملک اس وقت بدترین معاشی بحران کا شکار ہے،اِس لئے ریاست کو بچانے کے لئے وہ مرکز میں حکومت بنانے پر رضامند ہوئے؛ تاہم اُنہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ پہلے بھی ریاست کو بچانے کے لئے اپنی سیاست قربان کر چکے ہیں، اب کسی اتحادی جماعت کا غیر اصولی مطالبہ تسلیم نہیں کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ن لیگ پنجاب میں آزاد اراکین کے ساتھ مل کر آسانی سے حکومت بنا سکتی ہے، ہماری تمام تر توجہ اسی طرف مرکوز ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی کے مزید دو اور ارکان نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد آزاد ممبروں کو ملا کر ن لیگ کے اراکین کی تعداد پنجاب اسمبلی میں 156 ہو گئی ہے اور وہ پنجاب میں بآسانی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے اور کامیابی حاصل کرنے والے قومی اسمبلی کے رشید اکبر نوانی اور پنجاب اسمبلی کے احمد نواز نوانی، عامر عنایت شاہانی، رانا عبدالمنان، اکبر حیات ہراج ، اصغر حیات ہراج،احسن رضا اور کرنل(ر) غضنفر قریشی نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی چیف آرگنائزر و وزیراعلیٰ پنجاب کی نامزد امیدوار مریم نواز شریف سے ملاقات کر کے ن لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔

 پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ ن لیگ کا حق ہے کیونکہ ان کے پاس اکثریت ہے۔ پیپلز پارٹی کی پوری کوشش ہو گی کہ وزیراعظم اپنی مدت پوری کرے۔کسی کو وزیراعظم کا امیدوار بنانا مسلم لیگ(ن) کا اندرونی مسئلہ ہے۔ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں بیٹھ کر ن لیگ کو سپورٹ کرے گی لیکن اگر کسی نے18ویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ کی تو وہ ووٹ نہیں دیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جو پہلے دعوے کر رہی تھی کہ اس کے زیادہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور وہ حکومت بنانے کا حق رکھتی ہے، پہلے تو اس نے کسی سے بھی بات نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا لیکن پھر جب اسے اِس حقیقت کا ادراک ہوا کہ اسمبلیوں میں بیٹھنے کے لئے اسے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا چولا پہننا پڑے گا تو اس نے بھی اِدھر ادھر ہاتھ پاﺅں مارنے شروع کر دیئے لیکن ابھی بھی وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر اپنا ”حق“ نہیں جما سکتی اور اب پی ٹی آئی نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھے گی۔ تحریکِ انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ عمران خان کی ہدایت پر انہوں نے مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی کافی گرج چمک رہے ہیں۔ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پر تحریک ِعدم اعتماد لانے کا الزام دھرا اور اگلے ہی دن کہہ دیا کہ فیض حمید کا نام ان کے منہ سے غلطی سے نکل گیا تھا۔ بہرحال انہوں نے بھی ملک گیر احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے ۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی بھی انتخابات کے نتائج کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا نعرہ بلند کر چکی ہے۔ سیاسی جماعتیں احتجاج کی کال دے رہی ہیں۔ بلوچستان میں بھی قوم پرست جماعتیں احتجاج میں مصروف ہیں۔ سندھ میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے زیر اہتمام جام شورو میں ایک بڑا احتجاج ہوا جس میں سندھ کی کئی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں ماسوائے پیپلزپارٹی نے شرکت کی۔شومیِ قسمت گزشتہ دنوں کمشنر راولپنڈی نے پریس کانفرنس میں استعفیٰ دیتے ہوئے ایک نیا پینڈورا بکس کھول دیا۔ان کا دعویٰ ہے کہ راولپنڈی کی تمام نشستوں پر دباﺅ میں آ کر نتائج تبدیل کئے گئے؛ تاہم الیکشن کمیشن کے ترجمان نے ان کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہ ریٹرننگ آفیسر تھے اور نہ ہی ان کا انتخابات سے براہِ راست کوئی تعلق ہے۔ روز کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے آ جاتی ہے۔ الزامات اور بہتان تراشیوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ اِن تمام معاملات کی فوری طور پر اعلیٰ سطحی تحقیقات کرائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے اور قوم بھی سُکھ کا سانس لے۔

 ملک میں انتخابات تو ہو گئے اور حکومت سازی کا مرحلہ بھی طے ہو چکا ہے۔ اس کے مطابق وزیراعظم مسلم لیگ(ن) سے ہو گالیکن صدر سمیت چند دیگر آئینی عہدے بھی پیپلز پارٹی کے ہوں گے؛تاہم پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس اِس ماہ کی آخری تاریخ کو بلائے جانے کا امکان ہے۔نئے وزیراعظم کا انتخاب دو یا تین مارچ کو متوقع ہے۔ اِس لحاظ سے سیاسی جماعتوں کے پاس حکومت سازی کے لئے صرف ایک ہفتہ ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ جو بھی حکومت آئے گی اسے بہت سی مشکلات کا سامنا ہو گا، اِسی لئے شائد کوئی بھی یہ بیڑہ اُٹھانے کو تیار نہیں ہورہا۔اس وقت ملک میں کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے، توانائی کا بحران، پٹرول اور گیس کی ہوش ربا قیمتیں، گردشی قرض، بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی اور ان پر بڑھتے سود کے علاوہ بیروزگاری اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ اِس وقت دہشت گردی کا عفریت بھی منہ کھولے کھڑا ہے۔ مالی بحران کے سبب ہمیں ایک بار پھر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا دروازہ کھٹکھٹانا ہے اور اِس کے لئے ایک مستحکم پائیدار اور بااعتماد حکومت کا قیام ضروری ہے۔ حیدر آباد میں جی ڈی اے کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے الائنس کے سربراہ پیر پگاڑہ کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت 10 ماہ نہیں چل سکتی اور اُنہیں خدشہ ہے کہ حکومت کی ناکامی کے بعد ایمرجنسی یا مارشل لاءلگ سکتا ہے۔ سیاسی قیادت کو پیر صاحب کی اِس بات پر کان دھرنے چاہئیں۔

 سیاسی قائدین کو معاملات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئے۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اِسے ضائع نہ کریں بلکہ سنجیدگی سے حکومت اور جمہوریت سازی کے لئے کام کریں۔ عوام نہ صرف ریلیف کے منتظر ہیں بلکہ بہتر حالات کے بھی متمنی ہیں جس کے لئے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اربابِ اہلِ اختیار کو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانی ہوں گی۔ ریاست کو مستحکم کرنے کے لئے اہل ِ سیاست کو اکٹھے ہونا پڑے گا، تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔لازم ہے کہ جو بھی گلے شکوے یا شکائتیں ہیں، ان کا قانونی اور آئینی طریقے سے علاج کیا جائے، مرض کو رفع کرنے کا انتظام کیا جائے۔پراپیگنڈہ اور جھوٹ کے ذریعے معاملات کو اُلجھانے سے کسی کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا ۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے سیاستدان حالات کی سنگینی کا ادراک کریں، ملک اور قوم کے حالات پر رحم کھائیں، آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے مل بیٹھ کر ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لئے متحد ہو کر کام کریں تاکہ عوام پرسکون زندگی گزار سکیں۔

     ٭٭٭

final

مزید :

کارٹون -