قیدی خواتین سمیت عورتوں کے حقوق کا تحفظ مریم نواز کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے !
مریم نواز ملکی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہوں گی۔ ان سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان سمیت عالم اسلام کی پہلی وزیر اعظم تھیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ منتخب ہونا مریم نواز کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر اور نائب صدر مریم نواز کو سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کر دیا،وہ حلف اٹھانے کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہوں گی۔مریم نواز نے آٹھ فروری کے انتخابات میں پہلی بار حصہ لیا اور لاہور کے پی پی 159 سے ایم پی اے جبکہ این اے 119 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔
50 سالہ مریم نواز 28 اکتوبر 1973ءکو نواز شریف اور کلثوم نواز کے ہاں لاہور میں پیدا ہوئیں۔ان کے دو بھائی حسن نواز اور حسین نواز جب کہ ایک بہن اسما نواز ہیں، انہوں نے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کر رکھا ہے ۔1992ءمیں مریم نواز کی شادی کیپٹن صفدر اعوان سے ہوئی۔ ان کے تین بچے ہیں جن میں ایک بیٹا جنید صفدر اور دو بیٹیاں ہیں۔ مریم نواز کی ایک بیٹی معروف صنعت کار میاں منیر کی بہو ہیں۔ان کا ایک نواسہ اور نواسی بھی ہیں۔2013ءمیں انہیں ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا نگران بنایا گیا جہاں انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارٹی کو منظم کرنے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا تھا اور سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کا بھرپور مقابلہ کیا۔
2013ءکے انتخابات کے بعد جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہیں وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کا انچارج مقرر کیا گیا لیکن ان کی تقرری کو چیلنج کر دیا گیا جس کے بعد انہوں نے وہ عہدہ چھوڑ دیا تاہم وزیراعظم ہا_¶س میں رہتے ہوئے انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی جماعت کو متحرک رکھا اور تحریک انصاف کے پروپیگنڈے کا جواب دینے کی بھرپور کوشش کی۔ ایک ایسے وقت میں جب پارٹی مشکلات کا شکار تھی، نواز شریف جیل میں تھے اور کئی سیاسی رہنما نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونے سے کترا رہے تھے ، مریم نواز نے میدانِ سیاست میں اپنے والد کا ہاتھ تھاما اور بہادری کے ساتھ کھڑی رہیں۔ مختصر عرصے کے دوران انہوں نے پارٹی کے اندر اتنا مقام بنا لیا کہ نواز شریف کے بعد انہیں بہترین لیڈر سمجھا جانے لگا۔پارٹی میں مریم نواز کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں اور اثر و رسوخ کے باعث پہلے نواز شریف کے سب سے قریبی ساتھی چوہدری نثار علی خان پارٹی سے الگ ہوئے اور بارہا اس بات کا اظہار کیا کہ وہ نواز شریف کے بچوں کے تحت سیاست نہیں کر سکتے ۔
2022ءمیں جب مریم نواز کو پارٹی کا سینئر نائب صدر بنایا گیا تو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی پارٹی سے نالاں رہنے لگے اور رفتہ رفتہ مسلم لیگ (ن) سے کنارہ کشی اختیار کرتے چلے گئے ۔ گزشتہ کچھ برسوں سے یہ کہا جا رہا تھا کہ نواز شریف مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین بنانا چاہتے ہیں اور اگر مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی تو اگلی وزیراعظم مریم نواز ہوں گی۔ نواز شریف کے اپنے انتخابات لڑنے کے بعد مریم نواز کے وزیراعظم بننے کے حوالے سے چہ میگوئیاں کم ہوتی گئیں کیونکہ پارٹی کا بیانیہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کا تھا۔ تاہم کچھ عرصہ قبل یہ بات سامنے آئی کہ شریف خاندان نے اپنے طور پر یہ طے کیا ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے جبکہ مریم نواز کو پہلی سیاسی ذمہ داری بطور وزیراعلیٰ پنجاب دی جائے گی۔
مریم نواز ایک بہادر اور باصلاحیت خاتون ہیں اور خواتین بالخصوص جیلوں میں قید خواتین کے مسائل سے بھی بخوبی واقف ہیں، میں نے بھی بطور صحافی پنجاب کی بہت سی جیلوں کے دورے کئے ہیں، وہاں بے گناہ خواتین بھی قید ہیں، میں ان کے مسائل سے آگاہ ہوں۔یہ قیدی خواتین بڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب انہیں قیدی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔اس کے ساتھ ساتھ انہیں غریب ، نادار اور مستحق خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔گھریلو خواتین کے لئے مہنگائی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے ، دوسرا بڑا مسئلہ خواتین کی طلاقوں کا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ملازمت پیشہ خواتین اور صحافی خواتین کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ان کے سد باب کے لئے بھی مریم نواز کو ترجیہی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ خواتین آج ہر شعبہ زندگی میں اپنی بھر پور صلاحیتوں کا اظہار کر رہی ہیں، ان کے حقوق کا تحفظ مریم نواز کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے ۔ خواتین کو معاشرے میں باعزت مقام ملے گا تو وہ زیادہ بہتر طریقے سے ملک و قوم کی خدمت کر سکےں گی جس کے ثمرات سے پورا ملک مستفید ہو گا، اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز کو جو چیلنجز درپیش ہیں وہ بہترین انداز میں ان سے کیسے عہدہ براہ ہوں گی ، یہی ان صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوگا۔