فیض احمد فیض کی رومانوی شاعری کی ابتدا گورنمنٹ کالج لاہور سے ہوئی!
جدید دور کے باکمال شاعر فیض احمد فیض 13فروری 1911ءکو ضلع سیالکوٹ کی سابقہ تحصیل نارووال کے ایک قصبہ کا لا قادر میں خان بہادر چودھری سلطان محمد خان کے گھر کی رونق بنے۔ فیض کی والدہ سلطان فاطمہ ایک انتہائی ذہین اور پڑھی لکھی خاتون تھیں جو نہ صرف عبادت گزار تھیں بلکہ تہجد گذار بھی تھیں۔ ننھا منا فیض جب پانچ برس کا ہوا تو اسے قرآنِ پاک حفظ کرانے کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا۔ اس کی ذہانت کا یہ کمال تھا کہ اس نے بڑی سرعت سے سپارے حفظ کرنا شروع کردیئے اور قرا_¿ت کی بھی تربیت حاصل کی۔ کہتے ہیں کہ انجمن اسلامیہ کے سالانہ اجلاس میں جس کے مہمانِ خصوصی شاعر مشرق حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ تھے اجلاس کے آغاز میں ہی کم عمری کے باوجود ننھے فیض کو قرا_¿ت کے لئے بلایا گیا۔ فیض اتنا چھوٹا تھا کہ اسے اٹھا کر میز پر کھڑا کیا گیا۔ ننھے فیض نے اس قدر خوش الحانی سے تلاوت کی کہ مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے اسے اپنے پاس بلا کر شاباش دی اور ا س کے سرپردست ِشفقت رکھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ِذکر ہے کہ آنکھوں کی تکلیف کے باعث فیض کو قرآنِ پاک حفظ کرنے کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔
فیض نے اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی فیض کے پسندیدہ استاد تھے۔ فیض نے قرآن و حدیث کی تعلیم انہیں سے حاصل کی۔ اس سکول میں فیض کے دوسرے استاد مولوی میر حسن تھے۔ علامہ محمد اقبالؒ بھی ان کے شاگرد رہ چکے تھے۔ اب فیض نے بھی ان سے فیض حاصل کیا اور عربی کی صرف و نحو پڑھ کرانہی سے مستفید ہوئے۔ فیض کو اسکاچ مشن سکول میں پڑھائی سے زیادہ کھیلوں میں دلچسپی تھی۔ گو کہ سکول کے اساتذہ طلبا ءسے انتہائی سخت رویہ رکھتے تھے کیونکہ اس زمانے میں اساتذہ سخت مزاج ہوتے تھے اور طلباءکی خوب پٹائی بھی کردیتے تھے مگر فیض کے ساتھ ان کا رویہ مختلف تھا، وہ فیض پر مہربان اور شفیق استاد کی طرح تھے۔ یہ ماحول بھی ان کی تربیت کا باعث بنا۔ فیض بچپن سے ہی اپنے والد محترم کے ساتھ صبح کی نماز باجماعت ادا کرتے تھے اور بعد ازاں مولانا ابراہیم میر سے درس لیتے تھے۔ والد گرامی کا قدم قدم پر ساتھ ان کو اوجِ کمال تک پہنچانے میں بڑا سود مند ثابت ہوا۔ عموماً رات کو فیض اپنے والد کو اخبار پڑھ کر سناتے اور انگریزی اردو اخبار ات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ان کی معلومات اور علمی استعداد میں بے حد اضافہ ہوچکا تھا۔وہ سیالکوٹ میں آلو مہار شریف میں صاحبزادہ فیض الحسن کے پاس اکثر آتے جاتے تھے۔ فیض نے وہاں سے بھی بہت اثر (صوفیانہ قسم کا) لیا۔ فیض کے والد گرامی رئیسِ شہر تھے اور ڈسٹرکٹ بورڈ سیالکوٹ کے وائس چیئرمین بھی تھے۔ باہر سے اعلیٰ حکام ان سے ملنے آتے تو ایسے مواقع پر وہ اپنے بیٹوں طفیل احمد اور عنایت احمد کی بجائے فیض احمد کو ترجیح دیتے تھے اور اسے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ کیونکہ فیض اب اس عمر کو پہنچ چکے تھے کہ وہ انگریزی زبان اچھی طرح بول سکتے تھے۔ یوں فیض آہستہ آہستہ زندگی کی منازل کا زینہ طے کرتے گئے۔ فیض جب آٹھویں جماعت میں پہنچے تو ان کا مطالعہ کا شوق روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کا رحجان ناول اور شاعری کی طرف تھا۔ کتابیں پڑھنے کا شوق اس قدر بڑھا کہ وہ ”پڑھا کو“ مشہور ہوگئے۔ پندرہ برس کی عمر میں وہ ایک ایسے ماحول میں داخل ہوگئے تھے جو انہیں گھر کی دنیا سے باہر کی دنیا میں لے آیا۔ فیض اب دسویں جماعت میں آچکے تھے۔ ایک روز ہیڈ ماسٹر کو خیال آیا کہ لڑکوں کی شاعری کا مقابلہ کرانا چاہیے۔ انہوں نے اپنے خیال کو عملی شکل دیتے ہوئے ایک مصرع طر ح دیکر سب کو غزل کہنے کی دعوت دی۔ مقابلے کے جج شمس العلماءمولوی میر حسن تھے۔ فیض نے بھی غزل لکھی، فیض کی طبیعت قدرتاً موزوں تھی۔ فیض کی غزل کو اوّل قرار دیا گیا۔ مولوی میر حسن نے خوش ہو کر فیض کو ایک تمغہ اور ایک روپیہ انعام دیا۔ یہ دونوں چیزیں فیض کی زندگی کا سرمایہ تھیں۔ انہوں نے دونوں چیزوں (انعامات) کو ہمیشہ سنبھال کر رکھا اور یوں فیض کا نام پورے سکول میں مشہور ہوگیا۔
ڈاکٹر ایوب مرزا نے اپنی کتاب فیض نامہ میں لکھا ہے کہ ”فیض کے آبائی گھر سے متصل ایک پرانی حویلی تھی، وہاں باقاعدہ مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے۔ منشی راج نرائن دہلوی سیالکوٹ شہر میں مقیم تھے،یہ مشاعرے انہی کے مرہونِ منت تھے۔ انہی کے دم سے شہر میں شعراءکی بساط قائم اور آباد تھی۔ شہر میں ایک دوسرے بزرگ منشی سراج الدین بھی رہتے تھے۔ وہ کشمیری میر منشی تھے اور علامہ اقبالؒ کے احباب میں سے تھے۔ ان کی ریزیڈنسی کشمیر سے سیالکوٹ منتقل ہوئی تھی، تو وہ بھی آ جاتے تھے۔ ان کی آمد سے مشاعروں کا بازار گرم ہوجاتا،وہ مشاعروں کی روحِ رواں تھے۔ منشی سراج الدین ہی ان مشاعروں کی صدارت فرمایا کرتے تھے۔ مشاعروں میں مصرح طرح پر غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ ہر برس پانچ چھ ماہ تک سیالکوٹ شہر میں شاعری کا چرچا رہتا تھا۔ بیشتر نوجوان اس کی لپیٹ میں تھے۔ ان میں خاموش طبع فیض بھی تھا۔ فیض نے بھی ان مشاعروں میں جانا شروع کیا۔ کافی عرصہ تک اسے کچھ سنانے کی ہمت نہ ہوئی۔ بقولِ فیض، منشی سراج الدین بڑے فقرے باز آدمی تھے۔ شعر سنانے والے نے ایک شعر پڑھا تو منشی صاحب نے اسی مضمون پر اساتذہ کے دس اشعار فوراً سنا دئیے۔ اکثر نو مشق نوجوان کو شعر سنانے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ فیض بھی انہیں میں تھا۔ بہت دنوں کے داخلی قلبی جنگ اور تگ و دود کے بعد فیض نے ہمت باندھی اور ان کے مشاعرے میں ایک غزل پڑھ دی۔ منشی صاحب سے رکیک کلمات سننے کیلئے فیض ذہنی طور پر بالکل تیار تھا پر ایسا نہ ہوا، الٹے منشی صاحب نے داد دی۔ منشی سراج الدین نے فیض کو مشورہ دیا تھا کہ تم بہت تلاش سے شعر کہتے ہو مگر یہ کام چھوڑ دو انہی کے کہنے پر فیض نے شعر کہنا ترک کردیا۔
فیض نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور سیالکوٹ کے مرے کالج میں فرسٹ ائیر میں داخلہ لیا۔ وہاں پر پروفیسر یوسف سلیم چشتی اردو پڑھاتے تھے۔ انہوں نے کالج میں مشاعرے کی طرح ڈالی اور فیض سے مصرع طرح پر شعر کہنے کو کہا تعمیل کرتے ہوئے فیض نے چند اشعار سنائے، فیض کو بیحد داد ملی۔ پروفیسر سلیم چشتی نے فیض کو منشی سراج الدین کے بالکل برعکس مشورہ دیا۔ فوراً اس طرف توجہ دو۔ شائد تم کسی دن شاعر ہوجاو_¿۔ فیض جب سترہ برس کے ہوئے تو ان پر عشق و محبت کا بھوت سوار ہوچکا تھا۔ انہوں نے خوبصورت اشعار کہنا شروع کردئیے۔ انہی حالات میں فیض نے مرے کالج سے ایف اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ 1929ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور میں تھرڈ ائیر میں داخل ہوئے۔ داخلے کیلئے شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے فیض کی سفارش کی جن کی بدولت انہیں داخلہ مل گیا۔ فیض کی رومانوی شاعری کی ابتدا گورنمنٹ کالج لاہور سے ہوئی۔ا س زمانے میں فیض کوکالج کے اساتذہ اور ان کی محفلیں بہت راس آئیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک مشاعرہ پطرس بخاری کی صدارت میں ہوا۔ جس میں فیض کو بھی اپنا کلام پڑھنے کا موقع میسر آیا۔ اس مشاعرے میں فیض نے بہت داد حاصل کی۔ اس مشاعرے کے اختتام پر چراغ حسن حسرت، صوفی غلام مصطفی تبسم اور عبد المجید سالک جیسے عظیم اہل ِعلم و دانش نے فیض کے کلام کو بہت سراہا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ فیض کو شاعری کے علاوہ راہ میں کوئی مقام جچا ہی نہیں۔
1930ءمیں جب فیض فورتھ ائیر میں تھے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں فیض کی طالب علمی کے دوران کالج مشاعرہ میں پھر سے مقابلہ ہوا۔ موضوع ”اقبال“ تھا۔ فیض نے نظم لکھی اور اوّل انعام حاصل کیا۔ دوسری گول میز کانفرنس کے بعد جب علامہ اقبالؒ واپس لوٹے تو گورنمنٹ کالج کی جانب سے علامہ اقبالؒ کو استقبالیہ دیا گیا۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کے کہنے پر فیض نے نظم پڑھی۔ جسے حضرت علامہ اقبالؒ نے بہت پسند فرمایا اور داددی۔ 1933ءمیں انگریزی میں ایم اے پاس کرنے کے بعد 1934ءمیں یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا۔ تعلیمی منازل طے کرنے کے بعد آپ امرتسر تشریف لئے گئے اور وہاں ایم اے او کالج میں 1934-40ءبحیثیت لیکچرار تعلیمی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ یہاں ان کی صحبت زیادہ تر صاحب زادہ محمود پرنسپل ایم اے او کالج سجاد ظہیر ملک، راج انند، ڈاکٹر اشرف، زیڈ اے احمد اور ڈاکٹر تاثیر مرحوم جیسے ترقی پسند حضرا ت سے رہی اور انہیں کی محافل کے اثرات فیض کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کرنے لگے اور یہی اثرات بعد میں ترقی پسند خیالات کا موجب بنے۔ انہیں حضرات نے اپنی ترقی پسندانہ سرگرمیوں کو اور تیز کرنے کے لئے بعد میں ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھ کر علمی مشاغل تیز تر کردئیے۔ 1940ءمیں آپ لاہور تشریف لے آئے اور ہیلی کالج آف کامرس میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران انہیں لندن میں بی بی سی کی سروس جائن کرنے کا آفر بھیجا گیا مگر فیض صاحب نے اپنے ملک ہی میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس آفر کو قبول نہیں کیا اور ہیلی کالج میں انگریزی پڑھانے کو ہی ترجیح دی۔ 20اکتوبر 1941ءکو شیخ محمد عبد اللہ نے ایلس کیتھرین جارج اور فیض کا نکاح پڑھایا۔ فیض کی والدہ نے ایلس کا اسلامی نام کلثوم رکھا۔ ایلس ساس کی بہت عزت کرتی تھی۔ ایلس نے اپنے محبت بھرے کردار سے ثابت کردیا کہ وہ ایک اچھی بہوہے۔ فیض کی پہلی بیٹی سلیمہ 1943ءمیں دلی میں پید اہوئی۔ اس کی کردار سازی میں اس کی دادی کا بہت عمل دخل تھا۔ سلیمہ بعد میں نیشنل کالج آف آرٹس کی پرنسپل بھی رہیں۔ منیرہ نے (دوسری بیٹی) 1945ءمیں شملہ میں جنم لیا۔ منیرہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کی سینئر پروڈیوسر کی حیثیت سے شہرتِ دوام حاصل کی۔
فیض کے متعلق کتاب ”لاہور میں دفن خرینے“ صفحہ 258 کے مطابق فیض احمد فیض نے 1942ءمیں فوج میں شمولیت اختیار کی اور بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر پبلک ریلشینز اور بعد میں ڈپٹی ڈائریکٹر انٹر سروسز مرال میں فوجی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ یہ سلسلہ 1947ءتک جاری رہا۔ 1947ءمیں پاکستان ٹائمز کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ 1948ءمیں پاکستان لیبر فیڈریشن کے صدر مقرر ہوئے اور 1959ءمیں جنیوا کی آئی ایل او کانفرنس میں بحیثیت نمائند ہ پاکستان تشریف لے گئے۔ 9مارچ 1951ءکو راولپنڈی سازش کیس میں دھر لیے گئے۔ چار سال جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری میں گزارنے کے بعد رہا کر دئیے گئے۔ میگزین رابطہ دسمبر1998ءکے صفحہ 51 پر مضمون نگار نے فیض صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ فیض کی شاعری حد درجہ خوبصورتی اور بے انتہا توانائی کا نہایت حسین امتزاج ہے ۔ان کے نظریات خواہ کچھ رہے ہوں لیکن یہ بات بہر حال طے ہے کہ ان کا درد مند دل زیر دستوں اور کمزوروں کیلئے دھڑکتا تھا اس لئے ظلم، جبرو استبداد کے خلاف جدوجہد والے ہر فرد اور گروہ کو فیض کے اشعار میں اپنے احساسات جھلکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
فیض کی تقریباً پندرہ شعری اور نثری تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ”نقش فریادی“ 1941ءمیں دوسرا مجموعہ ”دست ِصبا“ 1952ءمیں تیسرا”زندان نامہ“ 1956ءمیں شائع ہوا۔ 1965ءمیں ”دست تہِ سنگ“ 1971ءمیں ”وادی _¿سینا“، 1978ءمیں ”شامِ شہریاراں“، 1981ءمیں ”میرے دل میرے مسافر“ اور 1982ءمیں کلامِ فیض شائع ہوا۔ فیض کی کلیات ”سارے سخن ہمارے“ کے نام سے لندن سے شائع ہوئی۔ یہی کلیات پاکستان میں ”نسخہ_¿ وفا“ کے نام سے ستیاب ہے۔
نثر میں میزان 1962ء”صلیبیں میرے دریچے میں“ جیل سے لکھے گئے (اہلیہ) ایلس کے نام فیض کے انگریزی خطوط کا اردو ترجمہ ہے۔ ”متاعِ لو ح و قلم“ 1973ءمیں ”ہماری قومی ثقافت“ 1976ءمیں ”مہ و سال آشنائی“ 1980ءمیں اور ”سفرنامہ کیوبا“ 1974 ءمیں شائع ہوچکے ہیں۔ فیض کے تین کام ادھورے رہ گئے۔وہ اردو شاعری پر ایک انتخاب ترتیب دے رہے تھے۔ پاکستانی کلچر پر ایک اردو انگریزی کتاب کے علاوہ علامہ اقبالؒ کی شاعری پر ایک تنقیدی کتاب لکھ رہے تھے۔
فیض صرف شاعر ہی نہیں تھے، وہ اعلیٰ درجے کے نثر نگار، انگریزی کے کامیاب صحافی اور ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ 1938-39 ءمیں وہ اردو کے مشہور ادبی رسالے”ادبِ لطیف“ کے ایڈیٹر رہے۔ انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز اور اردو کے اخبار امروز اور لیل و نہار کے مدیر اعلیٰ رہے۔ فیض عرصے تک افروایشن رائٹرز فیڈریشن کے ترجمان ”لوٹس“ کے بھی ایڈیٹر رہے۔ 1929ءمیں فیض نے لاہور ریڈیو کے لئے ڈرامے ”پرائیویٹ سیکرٹری“، ”سلیٹ کی چھتری“ اور ”تماشا مرے آگے“، لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ فیض نے دو پاکستانی فلموں، بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ فلم ”جاگو ہوا سویرا“ اور ”دور ہے سکھ کا گاو_¿ں“ (جو پیش نہ ہوسکی) کے گانے اور مکالمے بھی لکھے تھے۔ 1962ءمیں فیض کو دنیا کا مشہور ”لینن امن ایوارڈ“ ملا۔
یہ عظیم شاعر اور نثر نگار 20نومبر 1984ءجو حرکت ِ قلب بند ہوجانے کے سبب اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملا۔ آپ کی آخری آرام گاہ قبرستان جی بلاک ماڈل ٹاو_¿ن میں ہے۔ آپ کی قبر قبر ستان کے مشرقی کونے کی دیوار کے ساتھ ہے اور قبر پر سیاہ پتھر لگایا گیا ہے۔ قبر کا ڈیزائن بھی عمومی قبروں سے مختلف ہے،جو اس منفرد شاعر کو مرنے کے بعد بھی انفرادیت بخشتا ہے۔آج بھی فیض کی شاعری کی خوشبو ہمارے دل و دماغ کو معطر کئے ہوئے ہے۔
٭٭٭