پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان ایک محقق

اللہ کرے خیر میرے جوش جنوں کی
منزل ہے بہت دور نکل آئے ہیں گھر سے
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صفات عطا کی ہیں جن کے طفیل انسان اشرف المخلوقات اور دنیا میں عقل و فہم کے حوالے سے باوقار بھی ہوا اسی وقار کو اپنے ہمعصروں کے لئے تقویت اور مثال بنانے کے لئے اس کی جدوجہد نہ صرف اس کے اپنے لئے بلکہ اردگرد کے لئے بھی سودمند ہوتی ہے اور وہ اپنے انسان ہونے کا اعزاز برقرار رکھتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیق خان بھی مسلسل جدوجہد اور جستجو میں سرگرم عمل رہے ہیں اور اسی جذبہ کے تحت کامیابی و کامرانی کے مراحل طے کرتے رہے ہیں۔
بلاشبہ جذبہ ہی انسان کو ہمیشہ بے چین اور متحرک رکھتا ہے۔ علم ہو یا ادب،تعمیر ہو یا تخلیق،ایجاد ہو یا اختراع غرض کوئی میدان کوئی شعبہ ء زندگی ہو خوب سے خوب تر کی تلاش نے پروفیسر رفیق صاحب کوجانفشانی اور عرق ریزی پر آمادہ کرکے بڑے بڑے کارنامے انجام دلوائے ہیں انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق اپنے پروفیشن اور فنونِ لطیفہ سے دلچسپی اور مہارت کی وجہ سے نئی نئی راہیں تلاش کیں اور اپنی حسبِ منشاء اپنے مزاج کے مطابق جوچاہا کرتے چلے گئے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ ایک اچھے انسان،بہترین دوست، بہترین معلم، شاعر اور ادیب ہیں اس کی تصدیق کے لئے یہ شعر ملاحظہ ہو۔
بامِ فلک ہے چاند ہے تاروں کا انتظار
آئے زمیں کا چاند تو ہو انجمن تمام
پروفیسرڈاکٹر رفیق خان یکم فروری 1939ء میں شاہینوں کے شہر سرگو دھا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1961ء میں شعبہء کیمیاپنجاب یونیورسٹی لاہور سے M.Scکیمسٹری کی ڈگری حاصل کی اور اس اعتبار سے وہ میرے سپر سینئر ہیں کیونکہ میرا Parentانسٹی ٹیوٹ بھی یہی ہے ایک اور Similarityمیری اور ان کی یہ ہے کہ انہوں نے بھی سپیشلائزیشن کے لئے بائیوکیمسٹری کو چنا اور اسی میں Ph.Dکی۔ ڈاکٹر صاحب مختلف گورنمنٹ کالجز میں معلم رہے اور پھر 1967ء کو گورنمنٹ کالج چلے آئے وہیں سے وہ 1973ء میں سٹریتھکلائیڈ گلاسکو یونیورسٹی سے Ph.D کی ڈگری لے کر لوٹے۔1978ء میں انہوں نے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا اور واپس آکر اپنی زندگی کے 26سال گورنمنٹ کالج میں انتہائی تندہی سے علم کی آبیاری کرتے رہے انہوں نے ناصرف کیمسٹری کے میدان میں اب تک 50سال خدمت کی بلکہ وہ 15سالوں سے مینجمنٹ سائنس میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ خود فرماتے ہیں:
میں زمیں کا ماہِ تمام تھا تھی جگہ جگہ میری روشنی
میرے عشق کی اِک جَست نے مجھے آشنا سے ملا دیا
پروفیسر ڈاکٹر رفیق خان کے ساتھ مجھے ملاقات کا شرف گورنمنٹ کالج لاہور میں حاصل ہوا جب میں M.Sc کیمسٹری میں داخلے کے لئے ٹیسٹ دینے گئی یہ سلسلہ ایسا چلا کہ ان سے باقاعدہ شرفِ قلمذ تو حاصل نہ کر سکی مگر ان سے ملاقات اور سبجیکٹ کے بارے میں ان سے بات چیت ہوتی رہی۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور مسکراہٹ کی دعاؤں کا سلسلہ ہمیشہ سے قائم ہے وہ جہاں کہیں بھی ملے انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنی شاگرد مانا۔ انہوں نے استاد ہونے کا حق ہمیشہ ادا کیا ہے وہ ایک نہایت شفیق استاد ہیں جو اپنے شاگردوں سے محبت اور دوستی کا رشتہ استوار رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج میں مجلسِ صوفی تبسم کے حوالے سے بھی میں ان کی خدمات کی مقروض رہوں گی جو شخص علم حاصل کرتا ہے بڑا نیکی کا کام کرتا ہے مگر جو علم سکھاتا ہے وہ خیرات کرتا ہے اور جو علم کو صحیح طریقے سے دوسروں تک منتقل کرتا ہے وہ خدا کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتا ہے۔
ماہرِ تعلیم ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اپنے شاگردوں میں ہمیشہ خود کو روشن رکھنے اور روشنی پھیلانے کے جذبے کو بیدار کیا، اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ڈاکٹررفیق خان اصل میں تحقیق اور تجسس کا نام ہے اور ان کے کارہائے نمایاں ہم سب کی رہنمائی کے لئے ہمہ وقت موجود ہیں بلاشبہ وہ ہمارے لئے سرمایہ ء افتخار ہیں جہاں گردی کا شوق انہیں امریکہ، برطانیہ، میکسیکو، جاپان، ہانگ کانگ، جرمنی لے کر گیا اور پھر جو نقوش انہوں نے اپنے سفرنامے ”کھول آنکھ زمیں دیکھ“میں محفوظ کئے وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیق خان کی شاعری سچے جذبوں اور مثبت اقدار کی طرف داری کی آئینہ دار ہے وہ اس عہد کے عوامی احساس سے کبھی منہ نہیں موڑتے ان کی نظم خواب اور تعبیر میرے موقف کی بھرپور تائید کی۔ 2014ء میں Award of Excellance in researchکے بھی حقدار ٹھہرے ہیں بلاشبہ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے قابلِ تحسین ہیں۔ ان کے 100سے زائد تحقیقی مقالات بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ وہ 17کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ سائنس میں اپنی بے انتہا خدمات کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہترین شاعر اور ادیب ہیں جن سے ان کی شخصیت کی Versetalityکا پتا چلتا ہے وہ اردو اور انگریزی میں یکساں سہولت کے ساتھ لکھتے ہیں۔ ان کی انگریزی زبان میں خودنوشت ان کا بڑا کارنامہ ہے وہ بہترین مترجم بھی ہیں انہوں نے ”بالِ جبریل“ کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو ان کا بہترین کارنامہ قرار دیا جا سکتاہے۔
شاعر کے پاس کوئی طے شدہ نسخہ اور نہ کوئی مقررہ لائحہ عمل ہوتا ہے بس ایک طوفان اٹھتا ہے جو لفظوں کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے اور جب یہ طوفان مناسب موضوع الفاظ پا لیتا ہے تو اس کی شاعری میں اٹھتے طوفانوں کو دیکھا جا سکتا ہے سمجھا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر رفیق کے کلام میں غم ِ جاناں کا کرب بھی ہے اور غمِ دوراں کا اضطراب بھی،عشق کی نیازمندیاں بھی ہیں اور فکر کی گہرائی بھی۔
کبھی آرزو کبھی جستجو کبھی تیرگی، کبھی روشنی
کبھی جی گئے کبھی مر گئے یونہی زندگی کو نبھا گئے
اور بحیثیت سائنسدان تجربات و مشاہدات کی عکاسی بھی ہے، جدید اقدار کا حساس بھی اور حوادثِ زمانہ کی اذیت ناکی بھی۔ یہی وہ شعری بنیادیں ہیں جس کی بدولت ان کا کلام دل کو چھونے کی اہلیت رکھتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بے شمار انسانوں کے لطیف جذبات و احساسات کی غمازی کر رہے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ہم سب ڈاکٹر صاحب کی کامیاب کوششوں سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس فیض کو فیضِ عام کرنے کی تگ و دو میں اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالیں گے۔
سینچا تھا جسے میں نے کبھی خونِ جگر سے
نکلا ہے وہی چاند ستاروں کے نگر سے