آصف زرداری کاآپریشن فیئرپلے

پنجاب اسمبلی کے حالیہ انتخابات کے بعد جو نمبر گیم سامنے آئی اس نے ایوان میں بہت دلچسپ صورتحال پیداکردی اس وقت جب ہم یہ کالم لکھ رہے ہیں حمزہ شہباز دلچسپ مقابلے کے بعد دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوچکے ہیں اورمعاملہ سپریم کورٹ تک بھی پہنچ چکا ہے لیکن ہمارا موضوع آج چھانگا مانگا کی سیاست ہے چھانگامانگا کی یہ سیاست وزیراعلیٰ کے انتخاب سے قبل زیربحث آئی تھی اوراس پر سب سے زیادہ شور پی ٹی آئی کی یوتھ نے مچایاتھا، چھانگا مانگا یوں تو لاہور کے قریب واقع ایک جنگل کانام ہے جوپہلے پکنک اورسیروتفریح کے حوالے سے جانا جاتاتھالیکن اب اس کی پہچان ہی تبدیل ہوگئی ہے۔اس جنگل میں ایک پارک اور ایک ریسٹ ہاؤس بھی ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف مقامات سے لوگ سیروتفریح کی غرض سے اس جنگل میں واقع پارک اورریسٹ ہاؤس کا رخ کرتے تھے اوراب بھی کرتے ہیں پھر پاکستان کی سیاست میں وہ لمحہ آیا جب آج کی حلیف جماعتیں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں اور ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرتی تھیں،1988ء کے انتخابات ضیاء آمریت کے فوراً بعد منعقد ہوئے تھے اوران میں پاکستان پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی اور بے نظیر بھٹو ان انتخابات کے نتیجے میں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔دوسری جانب پنجاب میں نوازشریف اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدوار کی حیثیت سے وزیراعلیٰ بن گئے پھرمرکز اور پنجاب کے درمیان جو محاذآرائی شروع ہوئی وہ اس نہج تک پہنچ گئی کہ بے نظیربھٹو کے لیے پنجاب کادورہ کرنابھی مشکل ہوگیا،پروٹوکول کے تحت وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نوازشریف اس بات کے پابند تھے کہ وہ پنجاب آمد پر محترمہ بے نظیربھٹو کااستقبال کریں لیکن انہوں نے کبھی بھی یہ زحمت نہ کی۔
مرکز کے نمائندے کی حیثیت سے گورنر پنجاب یہ فرائض انجام دیتے تھے۔اس دوران بے نظیربھٹو کی حکومت گرانے کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں اورحکومت کی تشکیل کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسلامی جمہوری اتحاد کے 86 ارکان نے 23اکتوبر 1989ء کو بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتمادپیش کردی،اپوزیشن کے جن مرکزی رہنماؤں نے بے نظیر کے خلاف مہم میں نوازشریف کا ساتھ دیا ان میں چوہدری شجاعت حسین،زاہد سرفراز، ملک نعیم اورچوہدری عبدالغفور سرفہرست تھے۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر عمران فاروق اورڈپٹی پارلیمانی لیڈر امین الحق نے بھی تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کی حمایت کااعلان کردیا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر معراج خالد نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی جس کے تین چارروز بعد ووٹنگ ہونا تھی بحث شروع ہوئی تو غلام مصطفی جتوئی، مولانا فضل الرحمن، ڈاکٹرعمران فاروق، سیدہ عابدہ حسین نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں دھواں دھار تقریریں کیں۔ اپنی پارٹی کی جانب سے صرف وزیراعظم بینظیر بھٹو ہی فلور پرآئیں اور انہوں نے تحریک کے حوالے سے یادگار تقریر کی۔بعدازاں تحریک عدم اعتماد پر گنتی ہوئی تو 237کے ایوان میں سے صرف 107ارکان نے تحریک کے حق میں ووٹ دیئے اوریوں بے نظیر کی حکومت 12ووٹوں کی برتری سے بچ گئی۔یہ وہ مرحلہ تھا جب بے نظیر بھٹو پر بھی ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگے اور ان کے مخالفین نے الزام عائد کیا کہ وہ اپنے حامی اراکین کو خصوصی طیارے کے ذریعے سوات لے گئی تھیں اور وہاں انہیں سرینا ہوٹل میں رکھاگیاتھاتاکہ وہ مخالفین کے ہاتھ نہ آ سکیں لیکن چھانگا مانگا سیاست تو صرف نوازشریف سے منسوب ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے نواز شریف 1985ء میں اپنے آزاد ارکان کو چھانگامانگا کے ریسٹ ہاؤس میں لے آئے تھے اورانہیں لاہوراس روز لے جایاگیا جب وزیراعلیٰ کاانتخاب ہونا تھا اوریوں نواز شریف دور میں چھانگا مانگا سیاست اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا استعارہ بن گئی۔ہارس ٹریڈنگ کی بدترین مثال 1993ء کے سیاسی بحران میں اس وقت دیکھنے میں آئی جب اپریل 1993ء میں صدرغلام اسحاق خان نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کو برطرف کیا جس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کی حکومت بھی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کر دی گئی اور میاں منظور وٹو برسراقتدار آ گئے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ جب پاکستان میں وزیراعلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی لیکن جب مئی 1993ء میں نوازشریف حکومت بحال ہوگئی تو منظور وٹو نے پنجاب میں مزاحمت شروع کردی۔جب ان کی توڑی ہوئی پنجاب اسمبلی اورکابینہ بھی لاہوررہائی کورٹ کی جانب سے بحال کی گئی تو منظوروٹو نے وزارت اعلی بچانے کے لیے اراکین کی خریدو فروخت شروع کردی، وزراء،مشیر اور معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج پنجاب کابینہ میں شامل ہوگئی،اس موقع پر گورنر راج کے نفاذ کے لیے صدراسحاق اورگورنر چوہدری الطاف کے درمیان صلاح مشورے بھی ہوتے رہے۔تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے سیکرٹری اسمبلی کے اغواء کا واقعہ بھی انہی دنوں پیش آیا پھرسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے نوٹس ہوئے۔ بالآخر پنجاب پر وفاق کا کنٹرول میاں اظہر کو ایڈمنسٹریٹر بنا کر بحال کیاگیا کیونکہ اس سے پہلے ہائیکورٹ نے جب پنجاب اسمبلی بحال کی تو گورنر الطاف نے چارمنٹ بعدہی وہ دوبارہ توڑ دی تھی، یہ وہ دور تھا جب پنجاب میں خونریزی کاخدشہ بھی پیدا ہوگیاتھا اور اس تمام عرصے میں چھانگامانگا منظور وٹو کے استعمال میں رہا۔یہ ساری کہانی سنانے کامقصد یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اس مرتبہ اسی قسم کی صورت حال کاخدشہ ضرور تھا لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ایوان میں جو مارکٹائی 16اپریل کو دیکھنے میں آئی تھی اورجس کے نتیجے میں پرویز الٰہی نے اپنے ٹوٹے ہوئے بازو کو پایوڈین سے جوڑا تھا۔اس کے تناظر میں چھانگامانگا کی گفتگو غیر ضروری طورپر شروع کردی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں اور خودذمہ دار عہدیداروں نے جس طرح افواہیں پھیلائیں،اراکین کی خریدوفروخت اور کروڑوں بلکہ اربوں روپے کی ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عائد کیے ان کے ذہن میں شاید 1990ء کے عشرے والا ماحول ہی موجودتھا۔ لطف یہ ہے کہ اس مرتبہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، کسی امیدوار نے وفاداری تبدیل نہیں کی اور ماضی کی مثالیں ذہن میں رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے حامی اراکین کی گمشدگی کی جو کہانیاں سنا رہے تھے وہ بھی غلط ثابت ہوئیں۔سابق صدر آصف علی زرداری کی بہت سے پالیسیوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن انہوں نے جس مہارت کے ساتھ اس الیکشن میں اپوزیشن کوچت کیا وہ حیران کن بھی ہے اورقابل داد بھی ، آصف زرداری نے یہ ثابت کردیا کہ سیاسی قوتیں اگر نیک نیتی اورارادے کی پختگی کے ساتھ میدان میں اتریں تو غیرجمہوری قوتوں کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔”آپریشن فیئر پلے“ جمہوریت کے خاتمے کے لئے ہی نہیں جمہوریت کے استحکام کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭