بجلی کے ریکارڈ توڑ بل اور مہنگائی کے مارے عوام

  بجلی کے ریکارڈ توڑ بل اور مہنگائی کے مارے عوام
  بجلی کے ریکارڈ توڑ بل اور مہنگائی کے مارے عوام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 بڑی دل دہلا دینے والی خبریں سامنے آ رہی ہیں، جن کے بارے جان کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور خون خشک۔ ایسی لوٹ مار اور ایسی بے حسی اس سے پہلے دیکھنے‘ سننے اور پڑھنے میں نہیں آئی تھی۔ بجلی کے بل اتنے زیادہ ہیں کہ لوگ اپنے اثاثے بیچ کر یہ بل ادا کرنے پر مجبور ہیں، کیونکہ ان کے پاس بجلی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے اور بل نہ ادا کرنے کی صورت میں کنکشن کٹ جانے کا خطرہ مسلسل سر پر لٹکتی ہوئی برہنہ تلوار کی طرح قائم رہتا ہے۔ یہ خطرہ زیادہ تر ان لوگوں کے لئے ہوتا ہے جو باقاعدگی سے اپنا بل ادا کرتے ہیں اور اگر کبھی کسی مہینے کسی وجہ سے‘ کسی مجبوری کے باعث وہ بل ادا نہ کر سکیں تو اس سے اگلے مہینے ڈس کنکشن کا نوٹس آ جاتا ہے اور نوٹس ہی نہیں آتا،بلکہ عملہ بھی بجلی کا کنکشن کاٹنے کے لئے آ موجود ہوتا ہے۔ بڑی تکلیف دہ بات ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ خطرہ ان لوگوں اور ان محکموں کے لئے نہیں ہے جو بجلی چوری  اور بل ادا نہیں کرتے۔ وہ چونکہ طاقتور ہیں اس لئے ان کو کبھی ڈس کنکشن کا نوٹس نہیں آئے گا۔ واٹس ایپ پر ایسی کئی ویڈیوز مل جائیں گی جن میں لوگ بجلی کا بل ہاتھوں میں تھامے حکمرانوں کو کوس رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ انہیں اپنا بجلی کا بل ادا کرنے کے لئے گھر کی کون سی چیز فروخت کرنا پڑی۔ یہی نہیں اب تو بجلی کے بلوں پر قتل بھی ہونے لگے ہیں۔ تازہ خبر یہ آئی ہے کہ گوجرانوالہ میں بجلی کے بل کی تقسیم کے تنازع پر بڑے بھائی نے تیز دھار آلے سے وار کر کے چھوٹے بھائی کی جان لے لی۔ تفصیل کے مطابق پرنس روڈ کے رہائشی غلام مرتضی بٹ کا اپنے چھوٹے بھائی عمر سے بجلی کا بل 30 ہزار روپے آنے پر کئی روز سے جھگڑا چل رہا تھا۔ گزشتہ روز بھی دونوں بھائیوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تو بڑے بھائی نے طیش میں آکر تیز دھار آلے سے وار کر کے چھوٹے بھائی کو قتل کر دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حالات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ بجلی کے بل لوگوں کے قتل کا باعث بننے لگے ہیں، لیکن ارباب بست و کشاد کا معاملہ زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد جیسا ہو چکا ہے۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ بجلی کے بل بہت زیادہ ہیں، لیکن کوئی بھی اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان بلوں میں کمی لانے کی نہ کوشش کرتا ہے نہ وعدہ۔

ایک طرف یہ کسمپرسی ہے اور دوسری طرف لوٹ مار کا وہ عالم ہے جیسے خوفِ خدا ہی دلوں سے مٹ گیا ہو۔ سابق نگران وفاقی وزیر اور  پیٹرن انچیف اپٹما گوہر اعجاز کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مہنگے ترین آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگیاں 1.95 ٹریلین روپے (1950 ارب) ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی وجہ سے حکومت بعض پاور پلانٹس سے بجلی 750 روپے فی  یونٹ خرید رہی ہے، حکومت کول پاور پلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ، جبکہ ونڈ اور سولر کی 50 روپے فی یونٹ سے اوپر قیمت ادا کر رہی ہے۔ حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے ادائیگی کر رہی ہے اور دوسرے پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے ادا کر رہی ہے جبکہ تیسرے پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کر رہی ہے۔ صرف ان تین پلانٹس کے لئے 370 ارب روپے بنتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سال بھر سے یہ پلانٹس 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر چل رہے ہیں، یہ سب معاہدوں میں کپیسٹی پیمنٹ کی اصطلاح کی وجہ سے ہے، اسی کی وجہ سے بجلی پیدا کیے بغیر آئی پی پیز کو بڑی صلاحیت کی ادائیگی ہوتی ہے۔ گوہر اعجاز نے کہا کہ صرف سستی ترین بجلی فراہم کرنے والوں سے بجلی خریدی جائے تو ہی یہ توانائی کچھ سستی پڑ سکتی ہے۔ مذکورہ پلانٹس  52 فیصد حکومت کی ملکیت ہیں، اور 28 فیصد نجی سیکٹر کی ملکیت ہیں، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو80 فیصد پلانٹس پاکستانیوں کی ملکیت ہیں، لیکن کرپشن پر مبنی ٹھیکوں، بد انتظامی اور نا اہلی کی وجہ سے ہمیں بجلی 60 روپے فی یونٹ بیچی جا رہی ہے۔

ایک طرف بجلی پیدا کرنے والی پرائیویٹ کمپنی کی یہ لوٹ مار جاری ہے تو دوسری طرف حکومت کے جانب سے بجلی کے بل میں اتنے ٹیکس شامل کر دیے گئے ہیں کہ ان آئی پی پیز سے خریدی گئی مہنگی بجلی عوام کو دگنا مہنگی پڑتی ہے، یعنی اگر ان کمپنیوں سے بجلی 50 روپے فی یونٹ حاصل کی جا رہی ہے تو حکومت کے ٹیکس شامل کر کے یہ 90 روپے یا 95  روپے فی یونٹ تک بھی چلی جاتی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب تک اس کھلی لوٹ مار کا سد باب نہیں کیا جاتا اس وقت تک توانائی کے شعبے میں کسی قسم کا کوئی استحکام پیدا ہونا ناممکن سی بات ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے  متعلقہ شعبوں کو برآمدات بڑھانے کا ہدف دیا۔ بڑی اچھی بات ہے۔ برآمدات میں اضافہ ہو گا تو ہی زر مبادلہ کے ذخائر میں خاطرخواہ اضافہ ہو سکے گا اور معیشت کو کچھ استحکام مل سکے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی مہنگی بجلی اور گیس کے ہوتے ہوئے برآمدات میں اضافہ کیسے ممکن ہے؟ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ توانائی کے تینوں ذرائع یعنی بجلی، گیس اور پٹرولیم کے نرخوں میں ہر اضافہ کسی بھی چیز کی پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کا نتیجہ مقامی سطح پر ان اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے،یعنی مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی پروڈکٹ بین الاقوامی مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی، کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کی صنعتیں سبسڈائزڈ ہیں اور ان کو برآمدات بڑھانے کے لئے حکومت کی طرف سے ہر طرح کی سہولیات میسر آتی ہیں۔ یہ سہولتیں یہاں کے صنعت کاروں کو حاصل نہیں ہے ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ توانائی کے شعبے میں لوٹ مار کا سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور ان میں مہنگائی کا مزید بوجھ اٹھانے کی سکت باقی نہیں رہی۔ اقتصادی شعبے میں حکومت کو درپیش مسائل سے نظریں نہیں ہٹائی جا سکتیں، لیکن ظاہر ہے یہ مسائل عوام کے پیدا کردہ نہیں ہیں کہ ہر جگہ پر انہی کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔

مزید :

رائے -کالم -