میرے بچپن کی عید

میرے بچپن کی عید
میرے بچپن کی عید

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آپ سے بات تو کرنا تھی‘ عید کی ۔ عید کی خوشیوں کی ‘ فیسٹیوٹی کی اور بچپن کی عید سے منسلک کچھ یادوں کی‘ لیکن اس ملک کا امن تباہ کرنے والوں نے میری اس عید کو بھی لہو رنگ کر دیا ہے۔ کوئٹہ اور پارا چنار میں خود کش حملوں کے نتیجے میں میرے وطن کے درجنوں لوگ تہہ خاک جا بسے۔ خود تو چلے گئے‘ ہمارے لئے دکھ چھوڑ گئے۔ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا کرب۔ لیکن کس کس کا دکھ کریں کہ اس عفریت کو پیدا کرنے والے بھی ہم خود ہیں اور اب نشانہ بھی خود ہی بن رہے ہیں۔ پھر بھی آپ سے کچھ باتیں شیئر کرنا چاہوں گا۔ شاید یہی اذیت مین کمی کا باعث بن جائے۔
یہ حقیقت مسلم ہے کہ عید دراصل بچوں کی ہوتی ہے اور عید منانے کا مزا بھی بچپن میں ہی آتا تھا جب ’فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا‘ والا معاملہ ہوتا تھا۔عمر بڑھنے کے ساتھ عید کی خوشیاں ماند پڑنے لگتی ہیں اور ذمہ داریوں کا بوجھ یا احساس اس مزے کو کرکرا کر دیتا ہے‘ جو بچپن کا ہی خاصا تھا۔ بچپن کی عید کا مزا ہی کچھ اور تھا۔عید کا چاند دیکھنے کے لئے چھت پر باقاعدہ منڈلی سج جاتی تھی ۔ تب ہم چاند اپنی آنکھوں سے دیکھا کرتے تھے۔ رویت ہلال کمیٹی اور پوپلزئیوں کا معاملہ تو اب شروع ہوا ہے۔
ہماری چاند رات اکثر جاگتے ہوئے گزرتی تھی۔میں اور چھوٹا بھائی تو گلی میں دوستوں کے ساتھ ہلا گلا کرتے‘ جبکہ بہنیں اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہاتھوں پر مہندی لگواتیں اور انہیں لگاتیں۔ سہیلیوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں پر مہندی لگانے کا عمل ساری رات جاری رہتا۔ بچپن میں ہم اپنے کلاس فیلوز کو تحفے بھی دئیے کرتے تھے‘ جو ظاہر ہے کوئی چھوٹی موٹی چیز ہوتی‘ کیونکہ یہ کام ہم نے اپنی پاکٹ منی سے ہی کرنا ہوتا تھا‘ آمدنی کا کوئی اور ذریعہ جو نہیں تھا۔ عید سے ایک دو پہلے پورے گھر کی اچھی طرح صفائی کی جاتی تھی ۔ ابا جان کچھ اضافی پھل یا مٹھائیاں بھی لے کر آتے تھے۔ عید ‘ خصوصی طور پر عید الفطر کے موقع پر ماضی میں ایک روایت بڑی پکی اور میرے خیال میں بڑی اچھی بھی تھی۔ یہ کہ عید کے موقع پر گھروں میں صبح صبح جو کچھ بھی پکا ہوتا‘ دن سویاں ‘ میٹھے چاول یا حلوہ ‘ وہ اڑوس پڑوس کے گھروں میں ضرور بھیجا جاتا۔ اس سے سماجی تعلق کو فروغ تو ملتا ہی‘ میری نظر میں یہ عمل برکت کا باعث بھی بنتا۔ اور اگر اس کے جواب میں کسی گھر سے کچھ واپس نہیں آتا تھا تو کوئی بھی برا نہ مناتا۔ میرے خیال میں کھانے پینے کی چیزوں کے اس تبادلے کے پس منظر میں یہ کواہش یا خوبی کار فرما ہوتی کہ اگر کسی وجہ سے کسی گھر میں چولہا نہیں جل سکا تو اس کے مکین فاقہ نہ کریں۔ اور یہ حدیث ہے کہ جس بستی میں کوئی بھوکا سو رہا تو اللہ اس کی حفاظت سے بے نیاز ہے۔ اب تو یہ روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ شہروں میں کہیں کہیں مشاہدے میں آتی ہے‘ لیکن دیہات میں ابھی تک اس پر عمل ہو رہا ہے۔
نماز عید پڑھ کر واپس آتے تو گھروں کے اندر بچوں میں عیدی تقسیم ہوتی‘ اور یہی عید کے سب سے حسین لمحات ہوتے تھے۔ یہ پیسے ہم اپنی مرضی سے خرچ کر سکتے تھے‘ لیکن الا بلا چیزیں کھانے کی ہمیں ممانعت تھی۔ پھر بھی عیدی وصول کرنے کے بعد سب سے پہلے محلے میں لگی چنوں کی ریڑھی پر جاتے اور جی بھر کے چنے کھاتے۔ امین حلوائی کی دکان سے اپنی پسند کی مٹھائی خرید کر کھانا ‘ 10 روپے میں برگر کھانا اور پانچ روپے کی پیپسی پینا بھی ہمارا عیدی ملنے کے بعد پہلا کام ہوتا تھا۔ چنانچہ عیدی ملنے کے بعد باہر کا پہلا پھیرا لگا کر آتے تو پیٹ اچھا خاصا بھرا ہوتا تھا۔ایک روپیہ دے کر اونٹ کی سواری کرنا‘ 2 روپے میں محلے میں لگے آسمانی جھولے پر جھولا لینا اور گلی میں آنے والے بندر کا مفت میں تماشا دیکھنا بھی ہم نہیں بھولتے تھے۔ ہم پیسے خرچ کرتے اور پھر بار بار گنتے کہ باقی کتنے بچے ہیں۔ ہماری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی کہ باقی بچنے والے پیسے گلی محلوں سے زیادہ ہوں تاکہ ان پر رعب گانٹھا جا سکے کہ مجھے ان کی نسبت زیادہ عیدی ملی ہے۔ یہ بات ہم اپنے برگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ان کا زمانہ سستا تھا‘ اور سو پچاس روپے میں پورے گھر کی مہینے بھر کی ضروریات پوری ہو جاتی تھی۔ اب یہی بات میں اپنے بچوں سے کہتا ہوں کی ہمارا زمانہ سستا تھا۔ چند ہزار میں مہینے بھر کا گزارا ہو جاتا تھا۔اس وقت ہمیں پچاس روپے عیدی ملتی تھی اور سارا دن چیزیں کھانے کے باوجود کچھ پیسے بچ رہتے تھے‘ جو ہم دوسرے خرچ کرتے تھے۔ اب آپ کسی بچے کو سو روپے عیدی دیں تو وہ آپ کی طرف حیرت سے دیکھے گا کہ یہ کہاں سے آ گیا اتنا غریب۔ ہماری پھوپھو کا گھر اسی محلے میں تھا‘ چنانچہ مجھے یاد ہے عید پر پی ٹی وی پے کوئی نہ کوئی فلم دکھائی جاتی تھی۔ یہ عید کا ایک خاص پروگرام ہوتا تھا اور ہم اس کے لئے خصوصی طور پر وقت نکالا کرتے تھے۔ پھر جب کچھ بڑے ہوئے تو والد صاحب سے چھپ کر سینما پر بھی فلمیں دیکھتے رہے‘ لیکن جو مزا بچپن میں پی ٹی وی والی فلموں نے دیا‘ بعد میں کبھی نہیں ملا۔
سچ پوچھئے تو اب بھی دل چاہتا ہے کہ ویسی ہی بے فکری ہو‘ ویسے ہی آزادی سے گھومنے کی آزادی ہو اور ویسی ہی رونقیں لوٹ آئیں۔ لیکن گردش ایام کو آج تک کوئی واپس نہیں موڑ سکا۔ ہمیں تو بس آگے بڑھنا اور اگلی منزلوں کا سفر کرنا ہے۔ ۔ آج عید کی خوشی تو ہے لیکن دل دکھ سے بھرا ہوا ہے کہ وہ جو دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نشانہ بن گئے‘ ان کا آخر کیا قصور تھا کہ زندگی جیسی نعمت ان سے چھین لی گئی؟

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -