رمضان کا چاند اور گراں فروشی

ارض وطن میں رمضان المبارک کے چاند کی انٹری اس بار ایسی دھواں دھار ہوئی کہ پاکستانی ایریا میں ڈیوٹی کرنے والے شیاطین بھی اپنی یوں اچانک گرفتاری پر سراپا احتجاج ہوئے ہوں گے کہ بھلا یہ بھی کیا طریقہ ہے کہ سنبھلنے اور ذہنی طور پر تیار ہونے کا موقع دئیے بغیر ہی دھر لیا گیا۔رمضان اور عید کا چاند ہمارے ہاں عرصہ دراز سے معمہ بنا ہوا ہے اور جدید سائنسی ترقی میں زمین کی تہوں اور آسمان سے پرے جھانکنے کی صلاحیت رکھنے والی دنیا میں ہم لوگ ابھی تک چاند کی پیدائش کا وقت معلوم کرنے کے قابل نہیں ہو سکے جو بلا شبہ ایک سوالیہ نشان ہے اور عہد جدید کی برق رفتار ترقی کے زمانے میں نئی نسل کو اس سے آگاہ کرنے کی کوئی واضح توضیح پیش کر کے مطمئن کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔قاسم مسجد کی الگ روئت ہلال ہے جو حکومتی فیصلوں پر سالوں سے اثر انداز ہوتی چلی جا رہی ہے اور بہت کم ہی ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں حکومتی اعلانات کے برخلاف فیصلہ نہ کیا ہو۔ سوشل میڈیا پر اس بار باقاعدہ لے دے ہوئی اور مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کو شدید تنقید کاسامنا کرنا پڑا۔ لاہور میں بھی ایک تنظیم کی طرف سے اس اعلان کو قبول نہیں کیا گیا اورفرض روزے کو نفلی روزے کا نام دے دیا گیا اور اسی طرح کی صورت حال کم و بیش ہر طبقے میں پائی گئی جس کا مطلب ہے کہ اب عید کے چاند کے حوالے سے بھی اختلاف کے لیے ابھی سے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے جو بہرحال ایک المیہ ہے جس کے حل کے لیے کوئی موثر اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہیں کیا جا رہا۔اس معاملے میں حکومتی رٹ کئی سالوں سے قائم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ دوسری طرف یہ کہنا کہ رمضان آتے ہی مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے بھی مناسب نہیں کیونکہ وہ تو اس مہینے سے پہلے ہی آسمانوں سے باتیں کر رہی تھی۔اس لیے اب ہمیں یہ زاویہ بھی سامنے رکھنا ہو گا کہ یہ اب کون سے آسمان پر پہنچی ہوئی ہے۔اگر رمضان سے قبل پہلے آسمان پر تھی تو اب اس کا سفر تیزی سے اگلے آسمانوں تک جا پہنچا ہے اوراب تو بس دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ یہ ساتویں آسمان کو پار نہ جائے۔ رمضان کو اللہ نے عبادت، بندگی اور تقوی کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے لیکن ہم نے اسے بہر طور کمائی کا مہینہ سمجھ لیا ہے اور روزہ داروں کی خوب کھال کھینچنے میں صرف کرتے ہیں جن کے جسم پر پہلے ہی کھال کے سوا کچھ بچا ہی نہیں۔ اسے غمگساری کا مہینہ کہا گیا ہے دوسروں کی مشکلات کو محسوس کرنے کا مہینہ کہا گیا ہے لیکن نہ جانے کیوں بحیثیت مسلمان ہم ان تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہیں جو یہ مبارک مہینہ ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ دنیا بھر میں مذہبی تہواروں پر چیزیں سستی کی جاتی ہیں اور لوگوں کو آسانی فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن بطور مسلمان ہم اپنے ہر مذہبی تہوار کو ہی گراں فروشی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ دین میں ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی کے احکامات پڑھیں اوردوسری طرف اپنے اردگرد دیکھیں تو یہ گمان گزرنے لگتا ہے کہ ہم مسلمان کہلانے کے قابل بھی ہیں یا نہیں؟ حضور ؐ نے فرمایا کہ ایماندار تاجر قیامت کے دن انعام یافتگان بندوں کے ساتھ ہو گا۔یعنی وہ اپنی تجارت بھی کرے، حلال کمائی بھی حاصل کرے، لوگوں کو نفع پہنچانے اور آسانی کا معاملہ بھی کرے اور اتنے بڑے انعام کا بھی حقدار ہو جو بلاشبہ تجارت کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بہت قابل توجہ ہے لیکن دوسری طرف دیکھیں تو یہ نفسا نفسی اور ناجائز منافع خوری محض انفرادی نہیں بلکہ اس کے اثرات اوپر سے نیچے تک آتے ہیں اور یوں ہمیں ہر کوئی اس میں کہیں نہ کہیں منسلک دکھائی دیتا ہے۔ حرم کی حاضری کی بات کریں تو عام دنوں میں ملنے والی جہاز کی ٹکٹ کا کرایہ دو گنا ہو جاتا ہے، وہا ں پہنچیں تو ہوٹلز کے کرائے دوگنا نہیں بلکہ کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔یعنی جہاز کا اتنا ہی فاصلہ اور کرایہ دو گنا اور وہاں پہنچ کر وہی کمرہ لیکن اس کا کرایہ چار گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ گاڑیوں، ٹیکسیوں اور دکانوں میں ہر طرف گراں فروشی کا دور دورہ دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ ان دنوں میں زائرین کے زیادہ آنے کی وجہ سے تو کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے، اس سے آگے چلیں تو حج کے دنوں میں یہ کرائے جہازوں کی ٹکٹ سمیت، رہائش کے انتظامات، ویزہ اور دیگر سہولیات دس گنا یا شاید اس سے بھی تجاوز کر جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں اس سال حج کے انتظامات اور اس سے جڑی ہوئی تمام اشیاء بیٹھے بٹھائے کئی گنا تک بڑھا دی گئی ہیں۔ بطور مسلمان ہماری ابتری اور زبوں حالی کے دراصل ہم خود ذمہ دار ہیں۔ہم نے دین کا راستہ اور اس کی تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ نہ تو ہم اللہ کے احکامات کی بجا آوری کررہے ہیں،نہ اپنے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہیں اور نہ ہی بطور مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ہمارے مذہبی تہوار ہمارے لیے کمائی کا ذریعہ ہیں اور ہم اسے سیزن کا نام دیتے ہیں جو دراصل ہماری کج فہمی،دین سے دوری، حقیقت سے انحراف، موت سے بیخبری اور آخرت سے بے نیازی کی آئینہ دار ہے جو کم از کم ایک صاحب ایمان کا وتیرہ نہیں ہوسکتا۔ شاید اسی لیے جناب حفیظ تائبؒ نے اپنی ایک نعت میں کیا زندہ شعر کہا ہے جو ہمارے ہر عہد کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے، ہم سے ناکردہ کار امتی یانبیؐ