وہ خطرناک چیونٹی جو انسان کی جان لے سکتی ہے، آسٹریلیا میں 23 افراد کو ہسپتال پہنچادیا

کینبرا (ڈیلی پاکستان آن لائن) آسٹریلیا میں ریڈ فائر چیونٹیوں کے کاٹنے کے واقعات میں حالیہ ہفتوں کے دوران نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے نتیجے میں مارچ کے آغاز سے اب تک 23 افراد کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑا ہے۔ قومی نشریاتی ادارے اے بی سی کے مطابق ان واقعات میں زخمی ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ریڈ فائر چیونٹی جسے سائنسی طور پر Solenopsis invicta کہا جاتا ہے، جنوبی امریکہ سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیلنے والی انواع میں سے ایک ہے۔ اس کی زہریلی ڈنک جلد پر چھالے اور شدید الرجک ردعمل پیدا کر سکتی ہے اور بعض اوقات یہ انسانی جان کے لیے بھی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔
سی این این کے مطابق آسٹریلیا کی شمال مشرقی ریاست کوئنزلینڈ میں رہائشی کئی سالوں سے ان چیونٹیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں لیکن حالیہ ہفتوں میں انسانوں اور مویشیوں پر ان کے حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق مارچ کے آغاز میں آنے والے ایک سست رفتار استوائی طوفان کی وجہ سے شدید بارشوں کے بعد یہ چیونٹیاں زمین سے باہر نکل آئیں اور پانی میں بہنے سے بچنے کے لیے گروپ بنا کر نئی جگہوں کی طرف بڑھنے لگیں۔
یکم مارچ سے اب تک نیشنل فائر اینٹ ایریڈیکیشن پروگرام کو 60 سے زائد ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں چیونٹی کے کاٹنے کے باعث متاثرہ افراد کو طبی امداد کی ضرورت پڑی، جب کہ 23 افراد کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔
اے بی سی کی رپورٹ کے مطابق کوئنزلینڈ کی ایک رہائشی خاتون نے اپنی پالتو کتے کی لاش فائر چیونٹیوں کے ایک بڑے بل کے اوپر پڑی ہوئی پائی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ چیونٹیاں نہ صرف انسانوں بلکہ پالتو جانوروں کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہیں۔
گزشتہ ایک صدی کے دوران ریڈ فائر چیونٹیاں امریکہ، میکسیکو، کیریبین، چین اور آسٹریلیا کے مختلف حصوں میں پھیل چکی ہیں، جب کہ گزشتہ سال انہیں یورپ میں بھی پہلی بار دیکھا گیا تھا۔ آسٹریلیا میں پہلی بار 2001 میں فائر چیونٹیوں کی موجودگی رپورٹ کی گئی تھی۔ آسٹریلیا کے Invasive Species Council (ISC) کے ماڈلنگ کے مطابق، اگر کوئنزلینڈ میں ان کے پھیلاؤ کو نہ روکا گیا تو یہ پورے ملک میں پھیل سکتی ہیں۔