میں چاہتا تھا ابا جی کی ڈھال بن جاؤں، بھانجے کی شادی میں شمولیت پر جوابی چھٹی میں ساغر کا یہ مصرع لکھا ”بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی“

 میں چاہتا تھا ابا جی کی ڈھال بن جاؤں، بھانجے کی شادی میں شمولیت پر جوابی ...
 میں چاہتا تھا ابا جی کی ڈھال بن جاؤں، بھانجے کی شادی میں شمولیت پر جوابی چھٹی میں ساغر کا یہ مصرع لکھا ”بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:119
  ایک روز جب ابا جی اپنی ایک بہن سے ملنے گئے میں بھی ساتھ تھا تو وہاں میرے پھو پھا کے جاننے والی کوئی فیملی بھی آ ئی ہو ئی تھی۔ میری پھو پھی نے اپنے سگے بھائی کا تعارف کچھ یوں کرایا؛”یہ ہمارا رشتہ دار ہے۔“ابا جی کے دل کو بھی یہ بات لگی پھر وہ تب ہی اپنی بہنوں کو ملے جب اللہ نے ان کی مالی حالت بہتر کر دی تھی۔ میرے پڑھائی میں اچھا ہونے کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ میں چاہتا تھا پڑھ کر بڑا افسر بنوں اور ابا جی کی ڈھال بن جاؤں۔مجھے یاد ہے ابا جی کے ایک بھانجے کی شادی میں شمولیت کی چھٹی ملی تو انہوں نے جواباً لکھی چٹھی میں ساغر کا یہ مصرع بھی لکھا؛
 ”بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی“۔
 اور پھر انہوں نے اس شادی میں شرکت نہیں کی۔میرے کزن شہزاد یوسف کو آج بھی اپنے ماموں کے اس شادی میں شرکت نہ کرنے کا قلق ہے۔ ان جیسی بہت سی اور زیادیتوں کے باوجود میرے والد نے کبھی بھی کسی بہن، رشتہ دارسے کسی بات کا نہ کوئی شکوہ اور نہ ہی گلہ۔ جب خون کے رشتے دوبارہ سے ملنے لگے تو بھی کسی کو ماضی یاد نہ کرایا۔ سب سے خلوص اور محبت سے ملتے تھے۔بڑے باپ کا بڑا بیٹا۔ میری والدہ بھی اپنے سسرالی رشتہ داروں کی خوب خاطر مدارت کرتی تھیں اور پھر ان کے سب سے اچھے تعلقات ہو گئے۔ نا جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں یہ رشتے، تعلقات، دوستیاں زندگی میں ہی ہیں۔ مر گئے تو پھر کسی نے کیا واپس آ کر دیکھنا ہے کون کیا کر رہا ہے۔ ہم اگر یہ بات سمجھ جائیں تو ہمارے بہت سے مسائل مسائل نہ رہیں۔ ان کے برعکس ابا جی کے بھانجے بھانجیاں سبھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ ہمیشہ ان سے ملنے آتے اور ان کی عزت و تکریم سے پیش آتے تھے۔ میں نے ایسے ماموں بھانجے نہیں دیکھے۔ میرا واحد چچا اور میرے والد کی دوستی اور آپس کا پیار بھی مثالی تھا۔
تم پر فخر ہے؛
 جیسے پہلے ذکر ہو چکا ہے مجھے شماریات کامضمون بہت آتا تھا اور میں اپنے اساتذہ نجمی صاحب اور حافظ طارق صاحب کا چہیتا شاگرد تھا۔ میں فورتھ ائیر میں پہنچا تو فرسٹ ائیر کی دوبار کلاس پڑھائی کہ نجمی صاحب کسی کام میں مصروف تھے۔ یہ میرے لئے اعزاز کی بات تھی اور میرے استاد محترم کا مجھ پر اعتماد بھی۔ گریجویشن کرنے کے بعد بھی میں ان دونوں مہربان اساتذہ سے ملنے آتا رہا۔ ایک روز میں اور سلمان(صلو) انہیں ملنے آئے اور ملنے کے بعد لوکس سنٹر کی میں بوٹے کے سینڈوچ کا انتظار کرنے لگے۔ ہمارے قریب والی میز پر چند صاحبان بیٹھے نجمی صاحب کے لئے توہین آمیز گفتگو کر رہے تھے۔ مجھ سے برداشت نہ ہو تو میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور کہا؛”جناب! نجمی صاحب میرے استاد ہیں۔ ان کے لئے ایسی گفتگو قابل برداشت نہیں۔ اس طرح کی ہرزہ سرائی کا مطلب کیا ہے؟“ سلمان میرے پیچھے کھڑا گفتگو سن رہا تھا۔ وہ ساڑھے چھ فٹ کا جوان تھا۔وہ لوگ شاید ڈر بھی گئے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -