50 سال تک سزائے موت کا انتظار کرنے والا قیدی رہا، تاریخ کا سب سے بڑا ہرجانہ ملے گا

ٹوکیو (ڈیلی پاکستان آن لائن) جاپان کے 89 سالہ ایواو ہاکاماتا نے تقریباً 50 سال سزائے موت کے قیدی کے طور پر گزارے۔ انہیں 2.17 ارب ین (تقریباً 1.45 ملین ڈالر) بطور معاوضہ دیے جائیں گے، جو ان کے وکلاء کے مطابق ملک کی تاریخ میں کسی مجرمانہ مقدمے میں دیا جانے والا سب سے بڑا ہرجانہ ہے۔
بی بی سی کے مطابق ہاکاماتا کو 1968 میں اپنے مالک، اس کی بیوی اور دو بچوں کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا، تاہم گزشتہ سال ایک نظرثانی مقدمے میں انہیں بری کر دیا گیا۔ ان کے وکلاء نے زیادہ سے زیادہ معاوضے کا مطالبہ کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ 47 سال کی قید نے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر شدید اثرات ڈالے۔ جج کُنی کوشی نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے تسلیم کیا کہ ہاکاماتا کو "انتہائی شدید" جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ رقم جاپانی حکومت ادا کرے گی، اور مقامی میڈیا کے مطابق یہ ملک کی تاریخ میں کسی مجرمانہ کیس میں ادا کیا جانے والا سب سے بڑا معاوضہ ہوگا۔
سنہ 2014 میں جیل سے رہائی کے بعد سے وہ اپنی 91 سالہ بہن ہیدیکو کی دیکھ بھال میں تھے، جنہوں نے کئی دہائیوں تک اپنے بھائی کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ ہاکاماتا 1966 میں ایک میسو (سویا پیسٹ) پروسیسنگ فیکٹری میں ملازم تھے، جب ان کے مالک، ان کی بیوی اور دو بچوں کی لاشیں ان کے گھر میں آگ لگنے کے بعد برآمد ہوئیں۔ چاروں کو چاقو کے وار کر کے قتل کیا گیا تھا۔ حکام نے ہاکاماتا پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اس خاندان کو قتل کیا، ان کے گھر کو آگ لگا دی اور دو لاکھ ین کی رقم چوری کی۔
ہاکاماتا نے ابتدا میں ان الزامات سے انکار کیا، لیکن بعد میں انہوں نے ایک ایسا اعترافی بیان دیا جسے انہوں نے بعد میں "زبردستی لیا گیا" قرار دیا۔ ان کے مطابق، انہیں مسلسل 12 گھنٹے تک مار پیٹ اور سخت تفتیش کا نشانہ بنایا گیا تھا۔انہیں 1968 میں سزائے موت سنائی گئی تھی