فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر561

Nov 25, 2018 | 02:23 PM

علی سفیان آفاقی

یہ1952ء کا واقعہ ہے۔ جو لوگ آج امریکی حکومت کی انسانیت کش پالیسی پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں وہ اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ اس معاشرے میں مخالف نظریات رکھنے و الوں اور اس کا اظہار کرنے والوں کے لیے کبھی جگہ نہیں تھی۔ ایک امریکی جج نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے چارلی چپلن کی عدم موجودگی میں اسے سزا وار قرار دیا اور امریکا میں چارلی چپلن کے دوبارہ داخلے پر پابندی عائد کر دی ۔ اس کی امیگریشن منسوخ کر دی گئی۔ عدالت نے حکم جاری کیا کہا گر چارلی چپلن دوبارہ امریکا کی سر زمین پر قدم رکھے تو اسے بطور مجرم عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت نے امریکی قانون کی ایک شق کے تحت چارلی چپلن کو ناپسندیدہ اور غیر ملکی قرار دے دیا۔ اس کے خلاف فرد جرم میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ اخلاقی طور پر بیمار اور کیمونسٹ ہے۔ دوسرے لفظوں میں چارلی چپلن کو اس ملک میں داخل ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا جسے چالیس سال تک وہ اپنا گھر سمجھتا رہا تھا۔ جی ہاں یہ اسی امریکا کی نصف صدی قبل کی تصویر ہے جو اپنے آپ کو اظہار تقریر و تحریر کا داعی، حقوق انسانی کا علم بردار اور آزادی کا سب سے بڑا حمایتی کہتا ہے لیکن امریکی حکومت خود امریکی عواما ور دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں سے چارلی چپلن کی محبت، عقیدت اور عظمت کو نہ چھین سکی۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر560 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جب چارلی چپلن اپنے وطن واپس پہنچا تو قوم نے اس کا والہانہ استقبال کیا لیکن امریکی حکومت کی ناراضگی کے خوف سے عوامی دباؤ اور خواہش کے باوجود اسے ’’سر‘‘ کا خطاب نہیں دیا گیا۔ وہ اپنے پرانے اور نئے دوستوں ، پرستاروں اور ہم عصر فنکاروں اور ہنر مندوں سے ملا۔ اپنا پرانا ایک کمرے کا فلیٹ دیکھنے کے لیے بھی گیا مگر اس کا دل بجھ چکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ انگلستان اپنے فرزند کا کھلی بانہوں سے استقبال کرے گا۔ اسے اعزاز و احترام سے لاد دیا جائے گا مگر یہاں بھی سیاسی مصلحتیں کار فرما تھیں۔ 
ان تلخ تجربات کے نتیجے میں چارلی چپلن کا دل فوت ہوگیا۔ جس ملک کی شہرت پر اس کو ناز تھا اور جسے چالیس سال تک امریکا میں رہ کر بھی اس نے ترک نہیں کیاتھا جس کی یادوں کو اس نے سرمایہ حیات سمجھ کر سنبھال کر رکھا تھا اس کا وطن بھی اس کی قدر نہ کر سکا۔ اس کا دل ایسا اچاٹ ہوا کہ وہ انگلستان کو خیرباد کہہ کر سوئزرلینڈ میں رہائش پذیر ہوگیا اور مرتے دم تک وہیں رہا۔ جنیوا سے اسی میل کے فاصلے پر ایک خوب صورت قصبے ویوے میں اس نے اپنی مستقل رہائش گاہ بنا لی۔ جھیل کے کنارے یہ علاقہ جنت کا منظر پیش کرتا تھا مگر چارلی کو اب کسی اور جنت کی تلاش نہیں تھی۔ اس نے دنیا کا ہر رنگ دیکھ لیا تھا اور دنیا کی بے رنگی اور نیرنگی نے اسے گھائل کر دیا تھا۔
چارلی چپلن جو ایک پیدائشی فن کار اور تخلیق کار تھا ایسا بد دل ہوا کہ پھر فلمسازی کی طرف بھی اس نے توجہ نہیں دی۔ ساری دنیا منتظر تھی کہ چارلی چپلن نئی فلم کب بنائے گا مگر چارلی کا دل اچاٹ ہو اکتھا۔ فلم کبھی اس کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ اب وہ فلم کا نام بھی اپنی زبان پر نہیں لاتا تھا۔ فلمیں دیکھنا اس نے ترک کر دیا تھا۔ دولت اور عزت کی اب بھی کمی نہیں تھی۔ وہ انتہائی آسائش کی زندگی بسر کر رہا تھا لیکن دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے بیزار تھا۔ کے ایل سہگل کا ایک گیت اس پر صادق آتا تھا
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
چارلی چپلن کے بچوں ے عیش و عشرت کے ماحول میں آنکھ کھولی تھ۔ انہوں نے غربت ، دکھ اور بے بسی کو دور سے بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس پر چارلی رشک بھی کرتا تھا اور ان سے جلتا بھی تھا۔
کرسمس کے موقع پر چارلی چپلن کا ولا بہت اہتمام سے سجایا جاتا تھا۔ کرسمس ٹری اتنا بڑا کہ دور ہی سے جگمگاتا نظر آتا تھا۔ کرسمس کے موقع پر سارا خاندان اس ولا میں اکٹھا ہو کر خوشیاں مناتا تھا مگر چارلی کیلیے کرسمس میں بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اس کے بچوں کا بیان ہے کہ کرسمس کے دنوں میں وہ خاموش سب سے الگ تھلگ ایک کمرے میں بیٹھ کر بڑبڑاتا رہتا تھا۔ ایک بار اس نے کہا’’تم لوگ یہ سربہ فلک کرسمس ٹری دیکھتے ہو مگر جب میں بچہ تھا تو کرسمس کے موقع پر ہمارے گھر میں صرف ایک موم بتی جلائی جاتی تھی تم لوگ کتنے خوش نصیب ہو۔‘‘
کرسمس پر اس کے بچے، پوتے، نواسے نواسیاں سب اکٹھے ہوتے تھے۔ قریبی گاؤں سے ایک پادری موسیو ان موس ہر سال سانتا کلاز کے روپ میں آکر بچوں کا دل بہلاتے تھے۔ وہ سالہا سال سے یہ کردار ادا کررہے تھے اور بچوں میں قیمتی تحائف تقسیم کرتے تھے۔ ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ چارلی کے تمام بچوں نے اس کے بیڈ روم میں جنم لیا تھا۔ چارلی چپلن کمرے کے باہر موجود ہوتا تھا مگر بیڈ روم کا دروازہ چوپٹ کھلا رہتا تھا۔ چارلی چپلن کہتا تھا کہ دنیا میں آنے والے بچے کے رونے کی آواز سننا چاہتا ہوں۔ اس کے خیال میں انسان کا آغاز اور انجام رونے ہی پر ہوتا ہے۔ دنیا میں پہلی بار آکر وہ روتا ہے اور دنیا سے اس کے رخصت ہونے پر دوسرے روتے ہیں۔
چارلی چپلن کو کرسمس سے پیار تھا مگر وہ اس کے برعکس اس موقع پر ہمیشہ بیزاری کا اظہار کیا کرتا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کا انتقال بھی 1977ء میں کرسمس کے روز ہی ہوا تھا وہ اپنے بستر پر لیٹا کرسمس کے جگمگاتے ہوئے درخت کو دیکھ رہا تھا۔ کسی کو معلوم نہ ہوا کہ کس وقت خاموشی سے وہ دنیا سے چلا گیا۔ جب بچے ، نواسے ، نواسیاں، پوتے، پوتیاں ’’میری کرسمس‘‘ کہنے کے لیے اس کے بستر کے پاس گئے تو وہ مر چکا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ پر سکون نیند میں ہے۔
چارلی چپلن کی موت ساری دنیا کے لیے ایک اہم خبر تھی۔ جس نے جنگل کی آگ کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کو اپنی لپیٹمیں لے لیا۔ ہر آنکھ نم اور ہر دل غم زدہ تھا۔ امریکا میں ایک پینٹر چارلی چپلن کا معتقد اور پرستار تھا۔ اس نے کچھ دیر آنسو بہائے اور پھر گلاب کے پھول خرید کر چارلی چپلن کے پرانے مکان پر گیا جہاں وہ کبھی رہتا تھا ایک پھول اس نے باہر کے دروازے پر رکھ دیا اور دوسرا مکان کے صحن میں۔ اس کے بعد وہ بھاگا بھاگا چڑھ کر اسٹوڈیو پہنچا۔ کرسمس کی تعطیلات کی وجہ سے گیٹ بند تھا۔ وہ اوپر سے چرھ کر اسٹوڈیو کے اندر گیا اور اسٹوڈیو میں نصب امریکی پرچم کون یچے کھینچ کر نصف بلندی پر کر دیا جیساکہ قومی ہیروز او سربراہان مملکت کے مرنے پر کیا جاتا ہے۔ یہ جھنڈا نصف بلندی پر اس وقت تک لہراتا رہا جب تک کہ تعطیلات ختم ہونے کے بعد اسٹودیو کا عملہ واپس نہ لوٹا۔ امریکا نے چارلی چپلن کی قدر نہیں کی تھی مگر اس کے ایک امریکی پرستار نے اسے بھرپور انداز میں خراج عقیدت پیش کر دیا تھا اس معمولی مصور کا نام مارک اسٹاک تھا۔
اس کا کہنا تھا کہ جس اسٹوڈیو نے چارلی چپلن کی فلموں سے دنیا بھر میں نام اور بے تحاشا دولت کمائی ہے اس پر چارلی چپلن کا بھی حق تھا۔ اسٹاک اسٹوڈیو کا جھنڈا سرنگوں کرنے کے بعد اپنی کار میں سوار ہوا اور ایک تازہ پھول لے کر چارلی چپلن کی ماں کی قبر پر گیا مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں پہلے ہی ایک تازہ گلاب رکھا ہوا مسکرا رہا تھا یہ گلاب کس نے رکھا تھا؟ یہ معما آج تک حل نہیں ہوا۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر562 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں