فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر562

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر562
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر562

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکا سے دور سمندر پار سوئزرلینڈ کے ایک قصبے میں چارلی چپلن کی تدفین کی جا رہی تھی۔ اس قصبے میں اس نے اپنی باقی ماندہ زندگی خاموشی سے گزار دی تھی۔ 27 دسمبر 1977کی صبح کو گیارہ بجے قصبے کے اینگلی کن چرچ میں مذہبی وصیت کے مطابق ایک پر فضا مقام کا نز میں دفن کر دیا گیا۔ اس موقع پر اس کی وصیت کے مطابق صرف خاندان کے افراد ہی موجود تھے۔ البتہ برطانوی سفیر ایلن کیر بھی حکومت کی طرف سے نمائندگی کرنے کے لیے آگئے تھے۔ چارلی چپلن کی تمام زندگی حیرت انگیز ڈرامائی واقعات سے بھری ہوئی ہے لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی وہ ڈرامہ کرنے سے باز نہ آیا۔
تدفین کے دو ماہ بعد اچانک یہ انکشاف ہو اکہ چارلی چپلن کی لاش تابوت سمیت قبر سے غائب ہے۔ قبرستان کے ناظم نے فوراً پولیس کو اطلاع دی۔ جب قبر کھودی گئی تو تابوت موجود تھا مگر میت غائب تھی۔ دنیا بھر کا پریس اور ٹی وی میڈیا قبرستان پہنچ گیا اور لمحے لمحے کی خبریں نشر ہونے لگیں۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ حرکت کس کی ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ چارلی چپلن ایک یہودی تھا مگر اسے عیسائیوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا شاید یہ بات اس کے یہودی پرستاروں کو پسند نہ آئی ہو۔
پولیس نے سرگرمی سے تفتیش شروع کر دی۔چند روز بعد چارلی کی بیوی اونا کو ایک گمنام ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ 60لاکھ سوئس فرانک ادا کرکے میت واپس لی جا سکتی ہے۔ 

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر561 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کسی میت کے اغواء برائے تاوان کی غالباً یہ پہلی اور انوکھی واردات تھی۔ چارلی چپلن جیسے ڈراما ساز شخص کی زندگی کا یہ بعد از مرگ ڈراما بھی دنیا بھر میں گفتگو کو موضوع بن گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ حرکت ایک چوبیس سالہ بے روزگار نوجوان نے اپنے دوست کی مدد سے کی تھی۔ انہوں نے تابوت سے میت نکال کر کچھ فاصلے پر ایک سبزہ زارمیں دفن کر دی تھی تاکہ تاوان وصول کرنے کے بعد اس جگہ کی نشاندہی کر دی جائے۔ انہوں نے اتنی مہربانی کی تھی کہ لاش کو ایک دوسرے تابوت میں رکھ کر دفن کیا تھا۔ یہ نئی جگہ ویوے سے بیس میل دور تھی اور انتہائی خوبصورت اور پر فضا تھی۔ اغوا کنندگان کا خیال تھا کہ چارلی چپلن جیسے فن کار کی آخری آرام گاہ کے طور پر یہ زیادہ بہتر اور خوب صورت مقام تھا۔
دریافت کے بعد چارلی چپلن کا تابوت دوبارہ اس کی قبر میں رکھ دیا گیا۔ جس کسان کی زمین پر اغوا کرنے کے بعد یہ تابوت دفن کیا گیا تھا اس نے خالی قبر کو محفوظ کرکے وہاں ایک کتبہ اور لکڑی کی ایک صلیب لگا دی ہے۔ اس مصنوعی قبر کے سرہانے ایک عصا بھی گاڑ دیا گیا ہے۔ چارلی چپلن کی فلموں میں اس کا مخصوص لباس، ہیٹا ور اس کی چھڑی لازم و ملزوم بن چکی تھی۔
چارلی چپلن نے خاموش فلموں کا دور ختم ہونے کے بعد فلم سازی ترک کر دی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ خاموش فلموں میں جس اختصار اور جامعیت سے انتہائی دلچسپ انداز میں کسی موضوع کو پیش کیا جا سکتا ہے بولتی فلموں میں اتنی ذہانت اور صلاحیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا کہنا تھا کہ فلموں میں مکالموں کی وجہ سے ان میں غیر ضروری طوالت اور بے مقصدیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جو منظر دو صفحات کے مکالموں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے ایک خاموش فلموں میں چند تاثرات اور حرکات و سکنات کے ذریعے اسے زیادہ خوب صورتی سے فلم بینوں کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال آپ چارلی چپلن کی رائے سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن چارلی چپلن کے خیال میں بولتی فلموں کی ترویج کے بعد فلموں کا حسن ختم ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے متکلم فلمیں بنانے سے اجتناب کیا۔ یوں بھی وہ امریکی حکومت کے طرز عمل کی وجہ سے بددل اور دل شکستہ ہو چکا تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ امریکی حکومت کے معتصبانہ رویے نے دنیا کو ایک عظیم اور ذہن تخلیقی فلم ساز سے محروم کر دیا۔
امریکا کو خیرباد کہنے کے بعد چارلی چپلن کے بے انتہا شوق اور مشن کو پورا کرنے کے لیے ساری دنیا پذیرائی کو تیار تھی۔ وہ کسی بھی ملک میں فلمیں بنا سکتا تھا مگر اس نے قطعی خاموشی اور قطع تعلق کا رویہ اختیار کر لیا۔
کافی عرصے بعد شاید خود اپنے شوق اور لگن کے ہاتھوں مجبور ہو کر یا پھر دوستوں کے مشورے پر اس نے ایک متکلم رنگین فلم بنائی جس کا نام ’’اے کنگ ان نیویارک‘‘ تھا جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے یہ ایک طنزیہ فلم تھی جس میں بادشاہت اور امریکی نظام کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ ساری دنیا چارلی چپلن کی نئی فلم کی منتظر اور مشتاق تھی۔
اس فلم کی نمائش کے بعد فلم بین اور چارلی چپلن کے شیدائی سنیما گھروں پر ٹوٹ پڑے لیکن دنیا اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ چارلی چپلن کی یہ فلم اس کے پرستاروں کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی۔ اس کی مختلف وجوہات تھیں۔
پہلی وجہ تو یہ تھی کہ چارلی چپلن عرصہ دراز سے فلمی دنیا اور فلم سازی سے دور رہا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ تیز رفتار زمانے میں اس اثناء میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں جن سے چارلی چپلن واقف نہ تھا۔ وہ اپنے زمانے میں جس قسم کی خاموش فلمیں بناتا رہا تھا وہ اب قصہ پارینہ بن چکا تھا۔ فلم کی تکنیک بدل چکی تھی ا ور اس کے ساتھ ہی فلم بینوں کی ضرورتیں، خواہشیں اور تقاضے بھی تبدیل ہو چکے تھے۔ تکنیکی لحاظ سے یہ ایک بے عیب فلم تھی اور اس میں چارلی چپلن کے پرانے انداز کی جھلک نظر آتی تھی مگر یہ فلم نہ تو نقادوں کے معیار پر پوری اتر سکی اور نہ ہی فلم بینوں کی توقعات پر پوری اتری پھر بھی بہت سے لوگوں نے فرض جان کر اس فلم کو دیکھا اور گم شدہ چارلی چپلن کو اس کی فلم میں تلاش کرنے کی کوشش کی مگر انہیں اپنا محبوب فلم ساز اور اداکار نظر نہ آیا۔ اس تجربے کے بعد چارلی چپلن کا دل فلم سازی کی طرف سے بالکل اچاٹ ہوگیا۔ یہ فلم اس کی آخری فلم ثابت ہوئی لیکن سچ تو یہ ہے کہ دنیا کافی عرصے قبل ہی چارلی چپلن کو کھو بیٹھی تھی اور یہ کارنامہ دنیا میں جمہوریت اور آزادی فکر و اظہار کے سب سے بڑے دعوے دار ملک امریکا نے سر انجام دیا تھا۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر563 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں