فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر563
جو بھی ذیہ روح دنیا میں آتا ہے اسے ایک روز واپس جانا ہوتا ہے۔ یہ قدرت کا اٹل قانون ہے جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ کیسے کیسے لوگ دنیا میں آئے، مختلف میدانوں میں اپنے جوہر دکھائے ، دنیا سے خراج تحسین حاصل کیا اور رخصت ہوگئے۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج تم کل ہماری باری ہے
لیکن اب ایسا دور آگیا ہے کہ جو بھی رخصت ہوتا ہے اس کی جگہ لینے والا کوئی نظر نہیں آتا اس لیے اب موت سے ڈر لگنے لگا ہے۔ یہ اپنے ساتھ ایسے ایسے لعل و گہر لے جاتی ہے جن کی مثال کوئی اور نہیں اور پھر ان کی جگہ لینے والا کوئی اور شخص دنیا میں نہیں آتا۔ اہل علم و فن پہلے ہی بہت کم ہیں۔ اب مزید کم ہوتے جا رہے ہیں۔ شاید ایک وقت آئے گا جب ایسے لوگ عنقا ہو جائیں گے۔ صرف ان کا ذکر باقی رہ جائے گا۔ اسی لیے شاعر نے کہا ہے
کوئی روکے کہیں دست اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر562 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پچھلے دنوں عظیم عالم، فاضل، محقق اور علمی روایات کے امین ڈاکٹر حمید اللہ بھی امریکی ریازست فلوریڈا میں انتقال کر گئے۔ یوں تو عمر کا بیشتر حصہ انہوں نے پیرس میں گزرا لیکن سفر آخرت کے لیے آخر اسٹیشن فلوریڈ کاتب ازل نے لکھ دیا تھا۔ یہ ڈاکٹر حمید اللہ کون تھے، کیا کرتے تھے، کن خوبیوں کے حامل تھے کیا انہوں نے کوئی کارنامہ بھی سر انجام دیا؟ بہت کم لوگ اس بارے میں جانتے ہیں۔ خود غرض، مفاد پرست، لالچی سیاست دانوں، گلوکاروں، فنکاروں، کھلاڑیوں کے بارے یں سب کو علم ہے مگر جب ڈاکٹر حمید اللہ کی وفات کی خبر آئی تو اول تو بہت سے لوگوں نے اسے اہمیت ہی نہیں دی اور اگر خبر پڑھ کر تبصرہ بھی کیا تو صرف اتنا کہاکہ یہ کون صاحب تھے۔ کیا کوئی بڑے ڈاکٹر تھے؟
ڈاکٹر حمید اللہ اپنا تعارف آپ تھے۔ مطلب یہ کہ ان سے متعارف ہونے کے لیے ان کی ذاتی مصروفیات، تصنیفات اور کارہائے نمایاں سے واقف ہونا ضوری ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کا تذکرہ آئے دن اخبارات کی زینت بنتا ہے۔ وہ انسانوں کے جس گروہ سے تعلق رکھتے تھے وہاں تک عام لوگوں کی نظروں کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ صرف وہی لوگ انہیں جان سکتے ہیں جنہیں علم کی طلب اور جستجو رہتی ہے اور ایسے اب کتنے لوگ باقی رہ گئے ہیں؟
ڈاکٹر حمید اللہ انتہائی صاحب علم و فضل اور عطیم محقق تھے۔ علم ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ مطالعہ ان کا مشغلہ اور مقصد زندگی تھا۔ وہ محض علم کی خاطر جیئے اور اس کی کھوج میں بہت دور نکل گئے۔ اتنی دور جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔ طویل علالت کے بعد انہوں نے امریکی ریاست فلوریڈا میں ۹۶ سال کی عمر میں وفات پائی۔
مارا دیار غیر میں مجھ کو وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی لاج
ان کی ے کسی یہ تھی کہ اہل وطن نے ان کی قدر نہ کی۔ وہ قدرو منزلت کے طلب گار بھی نہیں تھے دولت اور شہرت کے متلاشی بھی نہیں تھے۔ صرف اتنا چاہتے تھے کہ اپنے وطن میں رہ کر دین اور علم کی روشنی دوسروں تک پہنچائیں۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے جو کچھ حاصل کریں۔ ایک مدرس کی طرح اسے عام کر دیں لیکن ان کی یہ معصوم خواہش پوری نہ ہو سکی۔
ڈاکٹر حمید اللہ ۱۹ فروری ۱۹۰۸(۱۶ محرم الحرام ۱۳۳۲) میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلق ایک تعلیم یافتہ، روشن خیال متوسط گھرانے سے تھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر اابد سے ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں امتیاز کے ساتھ حاصل کیں۔ کچھ عرصہ جامعہ عثمانیہ میں ہی پڑھاتے رہے۔
تقسیم ملک سے کچھ پہلے اپنی تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے۔ وہاں انہوں نے بون یونیورسٹی سے بین الاوقامی قانون پر ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں اس میں ترمیم و اضافے کے بعد انہوں نے پہلی کتاب CONDUCT OF MUSLIM STATEتحریر کی۔ ڈاکٹر حمید اللہ جرمنی سے فرانس چلے گئے کیونکہ وہاں کی علمی فضا انہیں زیادہ سازگار محسوس ہوئی۔ فرانس کی سوربون یونیورسٹی میں انہون نے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے جن موضوعات پر ڈاکٹریٹ کی، ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا ذہنی رجحان کس طرف تھا۔ وہ اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کے متمانی تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے نو زبانوں پر دسترس حاصل کی تاکہ زیادہ سے زیادہ زبانوں میں موجود اسلام کے بارے میں لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کر سکیں۔ انہوں نے جرمنی، فرانسیسی، ترکی، فارسی، عربی ، انگریزی اور دیگر زبانوں پر دسترس حاصل کی تاکہ ان زبانوں میں دین و مذہب، تاریخ و ثقافت اور علوم و فنون کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا گہرا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد اسلام کی حقانیت و صداقت ثابت کر سکیں۔ دنیا کو مدلل، منطقی اور مختلف حوالوں سے سمجھا سکیں کہ انسانوں کے لیے اسلام ہی فلاح و نجات کا واحد راستہ ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ کئی اعتبار سے ایک انوکھے اور منفرد انسان تھے۔ مثال کے طور پر یہی دیکھئے کہ طویل عرصہ یورپ خصوصاً فرانس میں گزارنے کے باوجود انہوں نے فرانس یا کسی اور یورپی ملک کی شہریت حاصل نہیں کی۔ اس کا سبب بھی وہ عجیب ہی بیان کرتے تھے۔ وہ تقسیم ملک سے قبل جرمنی گئے تھے جب ریاست حیدر آباد ایک خود مختار سلطنت کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کی علیحدہ فوج، ریلوے، پولیس، محکمہ ڈاک اور یہاں تک کہ پاسپورٹ بھی الگ تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ دولت آصفیہ کے پاسپورٹ پر یورپ گئے تھے۔ جب ملک تقسیم ہو کر بھارت اور پاکستان کے دو ملکوں میں بٹ گیا تو بقول ان کے ان کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کریں۔ ساری زندگی فرانس میں گزار دی مگر انہوں نے اس ملک کی شہریت بھی حاصل نہیں کی۔
دنیا کے کئی ممالک انہیں اپنا پاسپورٹ جاری کرنا اعزاز سمجھتے مگر انہوں نے کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کیا۔ دیکھا جائے تو انہوں نے ساری عمر پناہ گزین کی حیثیت سے گزار دی اور وہ اس طرح کہ جب فرانس کا ویزا ختم ہو جاتا تھا تو وہ کسی دوسرے ملک کا سفر کرتے اور پھر فرانس واپس چلے جاتے۔ وہ کسی بھی ملک کے شہری نہیں تھے۔ عمر کے لگ بھگ ۷۰ سال انہوں نے شہریت کے بغیر گزار دیئے۔ پاکستان سے انہیں دلی وابستگی تھی۔ یہاں تشریف بھی لائے۔ کچھ عرصہ قیام کیا اور پھر واپس فرانس چلے گئے۔ اس طرح کسی ملک کی شہریت اختیار کیے بغیر آخر کار وہ ایک ایسی دنیا میں چلے گئے جہاں جانے کے لیے کسی پاسپورٹ اور ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کی علمی پیاس کا یہ عالم تھا کہ انگریزی، عربی، فارسی ، اردو اور فرانسیسی زبانوں میں بلا تکان لکھتے تھے۔ ان کے علاوہ جرمنی، اطالوعی، ترکی اور روسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ پیرس کے معروف تحقیقی مرکز سے تمام عمر وابستہ رہے اور ریٹائر ہونے کے بعد اسی کی پنشن پر گزارا کرتے تھے۔ تصنیفات، لیکچر وغیرہ سے بہت بڑی آمدنی تھی جسے وہ فلاحی اور علمی کاموں کے لیے دے دیا کرتے تھے۔ انہوں نے پیرس کے اس ادارے کے علاوہ عالم اسلام کی ممتاز درسگاہوں میں بھی درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیئے خصوصاً جامعہ استنبول سے کافی عرصے تک وابستہ رہے۔ وہ ہر سال چند ماہ وہاں ضرور گزارتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں بھی ۱۲ خطبات دیئے جو بعد میں کتابی صورت یں شائع ہوئے۔ ان کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی تصنیفات مختلف زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ جن سے انہیں معقول آمدنی ہوتی تھی مگر اپنے پاس کچھ نہ رکھا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر564 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں