فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر564
ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنی ساری زندگی مشرق اور مغرب کے علوم کو کھنگالنے میں صرف کی۔ انہیں دنیا کے مختلف فلسفوں پر عبور حاصل تھا لیکن ان کا اصل ماخذ قرآن و سنت اور معتبر اسلامی علوم تھے۔ اہل مغرب کے محققین نے جو تحقیقات کی ہیں ڈاکٹر حمید اللہ نے ایک لحاظ سے ان کا حق ادا کر دیا۔ تدوین حدیث کے سلسلے میں انہوں نے نمایاں کام کیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ حدیث کی کتابت رسول اکرم ﷺ کی زندگی ہی میں شروع ہو چکی تھی اور یہ سلسلہ خلفائے راشدین کے دور میں بھی جاری رہا۔ انہیں اس سلسلے میں ’’صحیفہ ہمام‘‘ کی نادر و نایاب تصنیف سے بہت مدد ملی۔ یہ مسودہ انہیں جرمنی کی ایک لائبریری سے دستیاب ہوا تھا۔ انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اس اولین مسودے میں جو احادیث موجود ہیں وہ بعد میں لکھی جانے والی احادیث سے مختلف نہیں ہیں۔ انہوں نے حدیث کی صحت کو منوانے کے سلسلے میں گراں بہا خدمات سر انجام دی ہیں۔
فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور دو جلدوں میں سیرت النبی ﷺ کی فرانسیسی زبان میں تصنیف بھی نا قابل فراموش کارنامے ہیں پھر اس سیرت کا انہوں نے بذات خود انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر563 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگرچہ سقوط حیدر آباد کے بعد ڈاکٹر حمید اللہ نے پریس میں سکونت اختیار کی تھی لیکن پاکستان کو وہ اپنا دوسرا وطن سمجھتے اور مانتے تھے۔ ان کی خواہش بلکہ آرزو تھی کہ پاکستان کی نظریاتی اور علمی تحقیق کی اسلامی رویات کو آگے بڑھایا جائے۔ وہ پاکستان کو اسلام کا گہوراہ دیکھناچا ہتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے مملکت خداداد کو اپنا ٹھکانا بنانے کا قصد کیا اور پیرس سے پاکستان چلے گئے حالانکہ وہاں وہ نہ صرف علمی اور تحقیقی کاموں میں مصروف تھے بلکہ گراں قدر مشاہرہ بھی پا رہے تھے۔ علامہ محمد اسد (الیوپولڈ) کی طرح وہ بھی بیرونی ملکوں کے عیش و آرام اور آسائشوں کو ترک کرکے پاکستان آئیے تھے مگر علامہ اسد ہی کی طرح مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔
پاکستان میں انہیں ادارہ تعلیمات اسلامی کے بورڈ کا رکن مقرر کیا گیا تھا۔ مفتی محمد سعید، علامہ سید سلیمان ندوی، علامہ اسد اور مفتی محمد شفیق بھی اس بورڈ کے ارکان تھے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ یہ ادارہ محض نمائشی مقاصد کی غرض سے قائم کیا گیا ہے تو مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ علامہ اسد (لیوپولڈ) بھی اپنے خوابوں کی تعبیر کو نقابل حصول سمجھ کر واپس تشریف لے گئے تھے۔ افسوس کہ پاکستان دو مایہ ناز علمی شخصیات سے محروم ہوگیا لیکن اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ ان دونوں حضرات نے باہر بیٹھ کر اسلام کی جو نا قابل فراموش خدمات ادا کیں اس کا عشر عشیر بھی وہ پاکستان میں رہ کر نہ کر سکے تھے۔
جس زمانے میں جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے زیر اہتمام خطبات مدارس کی طرز پر اسلامی دینی موضوعات پر خطبات کا سلسلہ شروع کیا گیا تو جامعہ کے اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر عبدالقیوم قریشی نے پریس میں ڈاکٹر حمید اللہ سے رابطہ قائم کیا اور درخواست کی کہ وہ بھی جامعہ اسلامیہ میں توسیعی لیکچر دینے کی زحمت گوارا کریں تاکہ نئی نسل کو اسلام کے عالم گیر پیغام اور سیرت طیبہ ﷺ سے آگاہی حاصل ہو سکے۔ ڈاکٹر صاحب نے دعوت نامہ منظور کر لیا اور لیکچرز کے لیے پاکستان تشریف لائے اور ’’عہد نبوی‘‘ اور ’’نظام تشریح و عدلیہ‘‘ کے موضوع پر خطبہ دیا۔ سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو کسی نے سوال کیا کہ نماز میں رفع یدین جائز ہے یا نہیں؟
ڈاکٹر حمید اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا’’اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب سے اتنی محبت تھی کہ وہ ان کے ہر عمل اور ہر حرکت کو قیامت تک باقی رکھنا چاہتے تھے۔ اگر نبی اکرم ﷺ کی صرف ایک سنت پر سب مسلمان عمل کریں تو رسول اللہ ﷺ کی دوسری سنت اور دوسری حرکت غائب ہو جائے گی۔ لہذا اپنے حبیب کی ہر حرکت اور عمل کو محفوظ رکھنے کی خاطر مختلف آئمہ اور ممالک کے ذریعے انہیں محفوظ رکھنے کا بندوبست کر دیا۔ کبھی نہ سمجھنا کہ رفع یدین رسول اکرم ﷺ کے احکام کے خلاف ہے۔ وہ بھی اللہ کے رسول ﷺ کا ایک عمل ہے اور یہ بھی ان ہی کا عمل ہے۔ رسول کریم ﷺ نے کبھی اس طرح فرمایا اور کبھی دوسری طرح۔ لہٰذا دونوں سنت نبوی ﷺ ہیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم حضرت امام ابو حنیفہ کی طرح قانون سازی میں حکومت کی اجارہ داری کے حق میں نہیں تھے۔ وہ اسے مسلمانوں کو نجی مسئلہ خیال کرتے تھے تاکہ عدلیہ کی طرح قانون سازی بھی حکومتی اثر و رسوخ سے آزاد رہے۔ اس طرح مسلمان علماء اور ماہرین قانون، آزادی کے ساتھ قانون سازی اور اس کی ترقی میں مشغول رہ سکتے تھے۔ اسے وہ اسلام کا حکم نہیں بلکہ اسلامی روایات قرار دیتے ہی۔ اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ حکومت کی اجارہ داری سے حکمرانوں کی سیاسی ضرورتوں کی تکمیل ہوگی اور عام آدمی کا مفاد متاثر ہوگا۔ عدلیہ کی آزادی بھی آزاد قانون سازی کا تقاضا کرتی ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ کی تحقیق اور مطالعہ بہت گہرا تھا۔ ’’خطبات بہاول پور‘‘ میں انہوں نے یہ انکشاف فرمایا کہ ڈارون کا عالم گیر نظریہ ارتقا دراصل ’’اخوان الصفا‘‘ اور ابن مسکویہ کی کتاب ’’الغوز الاصغر‘‘ کا چربہ ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ غالبا ڈارون نے یہ کتابیں کیمبرج میں پرھی ہوں گی کیونکہ اس زمانے میں کیمبرج کے عربی نصاب میں یہ کتابیں شامل تھیں۔ ڈارون کے چند خطوط اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ عربی زبان اور ادب کا مطالعہ بہت ذوق و شوق سے کرتا رہا ہے۔
پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں سیرت چیئر کی سربراہی پیش کی گئی مگر انہوں نے یورپ میں اپنی علمی اور تبلیغی مصروفیات کا عذر پیش کرکے گریز کیا۔ دراصل انہیں علم تھا کہ یہاں حکومتیں محض نمائشی مقاصد کے لیے ایسے کام کرتی ہیں جو کہ سراسر بے مقصد ہوتے ہیں۔ افسوس کہ پاکستان ایسے یگانہ روزگار کی صلاحیتوں اور خدمات سے فیض حاصل نہ کر سکا۔
ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی کا اصل میدان ہمارے دینی ورثے کا روایتی پہلو تھا۔ انہوں نے ہماری علمی تاریخ کا روایت اور سند کے حوالے سے جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ اٹھارہویں صدی کا امریکی آئین دنیا کا پہلا آئین نہیں ہے بلکہ دنیا کا پہلا تاریخی اور تحریری دستور ’’میثاق مدینہ‘‘ ہے۔ انہوں نے یہ بھی تحقیق فرمائی کہ تدوین حدیث کا آغاز صحاح ستہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس سے پہلے بھی احادیث لکھی جاتی تھیں۔ اس کی شہادت ’’صحفیہ ہمام‘‘ ہے۔ ان کتابوں اور اس نظریے سے علمی دنیا پہلی بار ڈاکٹر صاحب کے توسط سے متعارف ہوئی۔ دنیا میں اس نایاب کتاب کے صرف دو قلمی نسخے دریافت ہو سکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان دونوں کو پیش نظر رکھ کر ایک مستند مجموعہ ترتیب دیا۔ انہوں نے عہد نبوت کی دستاویزات کو بھی جمع کیااور انہیں مرتب کرکے شائع کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے ’’خطبات بہاول پور‘‘ میں ایسے کئی معاملات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جہاد کے بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ کا تاثر یہ ہے کہ جہاد دفاع کے لیے ہی کیا جا سکتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے جو جنگیں لڑیں وہ سب دفاعی تھیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ عجزو ا نکسار، شائستگی، سادگی اور درویشی کی ایک زندہ مثال تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تحریروں اور خطبات کی وجہ سے تیس ہزار فرانسیسی ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ کچھ لوگ ایسے لوگوں کی تعداد پچاس ہزرا بتاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ پر اسلام لانے والوں میں موریسن بوکائی جیسا دانش ور بھی شامل تھا جس نے اسلام لانے کے بعد ’’بائبل، قرآن اور سائنس‘‘ کے عنوان سے ایک یادگار کتاب لکھی جس میں یہ ثابت کیا گیا ے کہ قرآن کا کوئی بھی نظریہ سائنس سے متصادم نہیں ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ پیرس کے ایک مکان کی تیسری منزل پر گزارا جہاں لفٹ تک نہ تھی۔ وہ شب و روز تحقیقی اور تحریری کاموں میں مصروف رہتے تھے اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتے تھے۔
ایک ملاقاتی نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ’’پیرس میں کوئی زحمت تو نہیں ہوتی؟‘‘
فرمایا’’بس اتنی کہ تیس برس سے گوشت نہیں کھایا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب حلال و حرام کے امتیاز کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا ایک اور پہلو بھی حیرت انگیز ہے۔ انہیں اپنی کتابوں سے بہت زیادہ آمدنی حاصل ہوتی تھی لیکن اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے تھے۔ ان کا گزارہ پریس کی سوربن یونیورسٹی کی پنشن پر تھا۔ انہوں نے فرانسیسی زبان میں قرآن کا پہلا ترجمہ شائع کرایا تھا۔ فرانسیسی زبان میں سیرت النبی ﷺ بھی دو جلدوں میں مرتب کرکے شائع کرائی۔ علامہ اقبال کے خطبات اور بال جبرائیل کے فرانسیسی تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں ان کے علاوہ اور بھی تصنیفات فرانسیسی زبان میں موجود ہیں جن سے انہیں بہت زیادہ آمدنی حاصل ہوتی تھی لیکن فقر، بے نیازی اور درویشی کا یہ عالم تھا کہ کچھ بھی اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔ امام بخاریؒ کی طرح انہوں نے بھی کبھی شادی نہیں کی۔ تحقیق ، تصنیف و تالیف ہی میں ساری زندگی بسر کر دی۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر565 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں