فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر565
۸۰ کی دہائی میں ڈاکٹر حمید اللہ کودس لاکھ روپے کا قومی ایوارڈ ملا تھا۔ انہوں نے یہ ساری رقم ادارہ تحقیقات اسلامی کی لائبریری کو دے دی جو کہ اب ڈاکٹر حمید اللہ کی لائبریری کہلاتی ہے۔ ان کے ایک عزیز دوست کا بیان ہے کہ ۱۹۸۲ء میں وہ لاہور تشریف لائے۔ ایک پبلشر نے رائلٹی کی معقول رقم پیش کی۔ ڈاکٹر صاحب نے ڈاک خانے جا کر جیب سے ایک لمبی فہرست نکالی اور بے شمار فارم پر کرکے ساری رقم مختلف مستحق لوگوں کو ارسال کر دی اور خود ہاتھ جھاڑ کر اٹھ آئے۔ ان کی کتابیں، انگریزی، اردو، عربی، فرانسیسی، جرمنی، روسی، ترکی، ہسپانوی، اطالوی اور نہ جانے کتنی دیگر زبانوں میں شائع ہوتی رہتی تھیں اور ہر جگہ سے خطیر رقم موصول ہوا کرتی تھی لیکن وہ اپنے پاس کچھ بھی نہیں رکھتے تھے۔ اپنی گزراوقات کے لیے سوربن یونیورسٹی سے پنشن کا ایک حصہ رکھ کر باقی پنشن بھی تقسیم کر دیا کرتے تھے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر564 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک بار بنک سے پنشن کی رقم نکلوانے کیلئے بنک گئے تو معلوم ہوا کہ کسی فریبی نے گھر سے چوری ہو جانے والی چیک بک کے ذریعے بنک میں جمع شدہ ساری رقم نکوالی ہے۔ ایک لفظ منہ سے نکالے بغیر صبر و شکر کے ساتھ واپس لوٹ آئے قرض مانگنے یا کسی کا احسان لینے کے عادی نہ تھے۔ پیسہ پاس نہ تھا۔ کئی دن اسی طرح گزر گئے اور کسی کو خبر تک نہ ہونے دی۔ اپنے معمولات میں مصروف رہے۔ کئی دن گزر گئے ۔ یہاں تک کہ ایک دن بھوک سے بے دم ہو کر بے ہوش ہوگئے۔ اسپتال لے جایا گیا۔ ان کی اصلیت معلوم ہوئی تو ان کی ایک بھتیجی کا پتا ملا جو فلوریڈا میں مقیم تھیں۔ انہیں نازک حالت میں فلوریڈا پہنچا دیا گیا لیکن جانبر نہ ہوسکے۔ مشرق کا آفتاب، مغرب کے ایک دور دراز شہر میں غروب ہوگیا۔
ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی انوکھا ہے کہ اس قدر شہرت اور ناموری کے باوجود ساری زندگی گمنامی اور گوشہ نشینی میں بسر کی۔ تنہائی میں خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہے۔
پاکستان میں ان کی وفات کی خبر اخبارات میں بہت مختصر شائع ہوئی اور بس اس کے بعد کسی حاکم ، کسی عالم ، کسی سیاست دان، کسی دانش ور کو ان کی خدمات یاد دلانے یہاں تک کہ تعزیتی بیان جاری کرنے کی بھی توفیق نہ ہوئی۔ کسی قوم کے زوال کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا۔ کیا زندہ قومیں ایسی ہوتی ہیں؟
ڈاکٹر حمید اللہ جیسے عالم بے بدل، درویش صفت انسان اب کہاں سے آئیں گے؟ جو قوم اس شخصیت کو پہچان کر اس کی قدر تک نہ کر سکی وہ ایسا کوئی دوسرا کیسے پیدا کر سکتی ہے؟ مگر نا امیدی گناہ ہے امید پر دنیا قائم ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے۔ ’’موت العالم، موت العالم‘‘ یعنی ایک عالم کی موت ساری دنیا کی موت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ آج کی دنیا میں ایک افسانوی اور فرضی کردار معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی تخلیقات اور کارنامے ان کی حقیقت کی یاد دہانی کرانے کے لیے کافی ہیں۔
ان کی زندگی کے بعض پہلو انوکھے اور قابل ذکر ہیں۔ان کی سادگی، انکسار، مروت اور اصول پرستی کی آج کے زمانے میں مثال نہیں مل سکتی۔ آپ کو یہ معلوم کرکے حیرت ہوگی کہ ڈاکٹر صاحب نے عمر کا بیشتر حصہ فرانس اور یورپ کے مختلف ملکوں میں بسر کیا اور ویزے کے سلسلے میں مختلف ملکوں میں جاتے رہے لیکن انگلستان کی سر زمین پرانہوں نے کبھی قدم بھی نہیں رکھا حالانکہ وہ فرانس سے قریب ترین ملک ہے۔ اس کا سبب ایک بار انہوں نے یہ بیان کیا کہ انگریزوں نے میرے آزاد ملک ریاست حیدر آباد دکن کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ میں اس ملک کی سر زمین پر قدم رکھنا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔
جب پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی دستور سازی میں مصروف تھی تو ڈاکٹر حمید اللہ بھی اس سلسلے میں پاکستان آئے تھے۔ اسمبلی کی عمارت کے ایک حصے میں ہی ان کا دفتر تھا۔ وہ اسمبلی کے دفتر کرتہ پاجامہ میں ملبوس جایاکرتے تھے۔ پیروں میں لکڑی کی کھڑاؤں ہوتی تھیں۔ نہایت سادگی پسند تھے۔ بات رک رک کر دھیمے لہجے میں کرتے تھے۔ انہوں نے پریس کے جس فلیٹ میں پہلی بار قیام کیا پھر ساری عمر اسی میں رہے۔ کرائے کا یہ فلیٹ مختصر تھا ۔ باورچی خانے کے ایک مختصر گوشے کے سوا یہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ سامان میں سادہ کپڑوں کے چند جوڑے اور کھانے کے چند برتنوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ کھانے پینے کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں گوشت ترک کر دیاتھا۔ سبزی اور پنیر ان کی غذا تھی۔ بعد میں جب کسی نے بتایا کہ پنیر میں بھی جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے تو اس سے بھی پرہیز کرنے لگے ۔
وقت کی پابندی ان پر ختم تھی، زمانہ طالب علمی ہی سے وہ وقت کی پابندی کے عادی تھے۔ تعلیم کے دوران میں صرف ایک بار تاخیر سے کلاس میں پہنچے۔ اس روز ان کی والدہ کا انتقال ہوا تھا۔ تدفین کے فوراً بعد کلاس میں پہنچ گئے۔ چھٹی انہوں نے کبھی نہیں کی۔
پیرس میں انکے گرد علماء و فضلا کے علاوہ طالب علموں کا بھی مجمع لگا رہتا تھا جن میں وہ بے حد مقبول تھے۔ طلبا کے لیے وہ ہمیشہ وقت نکال لیا کرتے تھے۔ اپنے کپڑے اورکھانے کے برتن خود اپنے ہاتھ سے دھوتے تھے۔ یورپ میں زندگی گزارنے والا یک شخص جو عہد جوانی میں بون اور پریس چلا گیا ہو عمر کے لگ بھگ ۷۰ سال اس سادگی، درویشی، پارسائی کے عالم میں گزارے اور ہمہ وقت کام ہی میں مصروف رہے تاآنکہ بیماری اور بھوک کے ہاتھوں بے بس ہو کر اللہ کو پیارا نہ ہو جاء۔ جس نے معقول دولت کمائی ہو لیکن اپنی ذات پر خرچ نہ کی ہو بلکہ درسگاہوں اور لائبریریوں کی نذر کر دی ہو۔ ایسی کوئی اور مثال آپ کے سامنے ہو تو بتائیے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
اور پھر آج کے زمانے میں؟ توبہ کیجے
**
فلمی الف لیلہ کا آغاز ہماری خود نوشت داستان حیات کے طور پر ہوا تھا پھر رفتہ رفتہ ہماری زندگی کے ابتدائی اہم واقعات کے ساتھ اس میں صحافت، فلم، سیاست، مذہب اور ادب و شاعری کے نامور لوگوں کا تذکرہ بھی شروع ہوگیا۔ ہماری اپنی زندگی اور نجی معاملات کے بارے میں بات کرنا یا لکھنا ہمیں طبعاً پسند نہیں ہے اس لیے ہم نے زندگی میں شامل ہونے والے دوسرے لوگوں، واقعات اور شخصیات کا سہارا لیا تاکہ خود اپنا ذکر کم سے کم کیا جائے۔ جب صحافت اور ادب کے ساتھ ساتھ فلمی صنعت اور فلمی شخصیات کا تذکرہ زیادہ ہوگیا تو ہم نے اپنے تجربات اور مشاہدات کے علاوہ تاثرات اور شخصیات کی خاکہ کشی بھی شروع کر دی۔ یہ ایک ملی جلی عجیب و غریب بارہ مسالے کی چاٹ کا رنگ اختیار کرنے لگی تو معراج صاحب اور فراز صاحب نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ اس کو فلمی تاریخ کے لیے ایک ریفرنس بنا دیا جائے۔ علمی و ادبی اور صحافتی شخصیات کا ذکر بھی جاری رہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ یہ صحیح معنوں میں ایک فلمی الف لیلہ کی صورت اختیار کر گئی۔
ہم نے بطور خاص قیام پاکستان سے پہلے لاہور کی فلمی صنعت اور فلمی شخصیات کا بیان کیا۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان اور کراچی مین فلمی صنعت کے قیام کا تذکرہ بھی تفصیل سے ہونے لگا۔کچھ ہماری یادیں اور مشاہدات و تجربات وغیرہ تھے اور کچھ ہم نے مختلف ذرائع سے بھی ضروری معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ذاتی تاثرات کے علاوہ اپنے عہد کے معروف اور ممتاز فن کاروں، لکھنے والوں، موسیقاروں، ہنر مندوں کا ذکر بھی ضروری تھا۔ اس میں ہندوستان کی شخصیات بھی شامل تھیں کیونکہ ہم نے اپنا بچپن اور لڑکپن ہندوستان میں گزارا تھا۔ فلم دیکھنے کا شوق تھا اس لیے اس زمانے کی فلمیں اور نمایاں شخصیات ہمارے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئیں۔ اس لیے ان کا ذکر بھی واجب ہوگیا۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے پاک و ہند کی فلمی تاریخ سازی کی ہے۔ انہیں کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔
اس داستان کو ہم نہ تاریخ کہہ سکتے ہیں نہ افسانہ۔ یہ شخصیات اور موضوعات کا ملغوبہ ہے پھر اس میں زمانے کی ترتیب کا بھی کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ جو بات جو واقعہ جو شخصیت ذہن میں آئی یا کسی نے توجہ دلا دی اس کی داستان شروع کردی۔ جب ہم نے یہ خود نوشت شروع کی تھی تو اس وقت خود ہم کو بھی معلوم نہ تھا کہ رفتہ رفتہ یہ کیا صورت شکل اختیار کرلے گی۔ خدا جانے اب اس نے کیا روپ دھار لیا لیکن موضوع ایسا ہے کہ ایک داستان طولانی کے مانند جاری و ساری ہے۔ ہر ماہ ایک باب لکھ دیتے ہیں۔یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ اس الف لیلہ کو ہر ذوق اور عمر کے لوگ پسند کرتے ہیں جس کا اظہار وہ مختلف طریقوں سے کرتے رہتے ہیں اور ہم تک اپنی آرا اور مشورے بھی زبانی، ٹیلی فون، فیکس اور خطوط کے ذریعے پہنچاتے رہتے ہیں۔ کئی حضرات و خواتین اس کا مطالعہ اس قدر باریک بینی سے کرتے ہیں کہ ہماری ذرا سی غلطی اور لغزش بھی ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہتی اور وہ اس کی تصحیح یا تصدیق کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ اس داستان کا آغاز لگ بھگ آٹھ نو سال قبل ہوا تھا۔ خود ہم بھی نہیں جانتے تھے کہ یہ کمبل کی طرح ہم سے چمٹ کر رہ جائے گی۔ لوگ پوچھتے ہیں یہ کب ختم ہوگی؟ اس کاجواب خود ہم کو بھی معلوم نہیں ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ اب اس کو ختم کر دینا چاہئے۔ آخر کوئی کہاں تک لکھے اور اس قدر تسلسل اور تفصیل کے ساتھ۔ لوگ پڑھتے پڑھتے تھک جاتے ہیں تو لکھنے والے کی حالت کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک مشکل یہ ہے کہ یہ ہماری واحد مصروفیت نہیں ہے۔ دوسرے شعبوں میں بھی مصروفیات ہیں۔ اس پر باقاعدگی سے ہر ماہ قارئین کو الف لیلہ کی داستانیں سنانا بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہیں۔ تھک بھی جاتے ہیں، اکتا بھی جاتے ہیں مگر کردار اور واقعات ہیں کہ ہمارے ذہن کا دروازہ کھٹکٹھاتے رہتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ہمارا کیا قصور ہے۔ ابھی تو ہم باقی رہ گئے ہیں۔ ان کی فرمائش پر بھی دھیان دینا پڑتا ہے مگر جب سوچتے ہیں تو واقعات، افراد اور تاثرات و مشاہدات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نظر آتا ہے۔ یہ سلسلہ کب، کیسے اور کہاں ختم ہوگا؟ شاید لکھنے والا تھک کر قلم روک دے یا پھر زندگی بھر یہ سلسلہ جاری رہے۔ ایسا نہ ہو کہ نوبت یہاں تک آپہنچے!
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سو گئے داستان کہتے کہتے(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر566 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں