مشرق وسطیٰ میں خاندانی، معاشی و سیاسی نظام کی شکست و ریخت
مشرق وسطیٰ 80 کی دہائی کے آغاز سے ہی سیاسی و خاندانی خلفشار کا شکار ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں برطانوی سامراج کے ہاتھوں جنم لینے والی عرب ریاستوں کے حکمران جو موروثی بادشاہت کے ذریعے اقتدار پر قابض چلے آ رہے تھے عوام کے غضب کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ ان مسلم ریاستوں میں اٹھنے والی تبدیلی کی لہر سے سیاسی عدم استحکام، خاندان کی ٹوٹ پھوٹ اور معاشی ناہمواریاں جنم لے رہی ہیں۔ تبدیلی جسے حقوق کی جنگ یا غیر ملکی مداخلت کہا جا رہا ہے کے عمل سے کئی مسلح گروپ وجود میں آ چکے ہیں، جونہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں بلکہ لسانی، نسلی اور مسلکی مخالفین کا بے دریغ خون بہا رہے ہیں۔ مشرق وسطی کی بدلتی ہوئی اس صورتحال کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد سیاسی ہمدردیوں کی بنیاد پر علیحدگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ خصوصاً شام میں لاتعداد خاندان کے بکھرنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں میاں بیوی میں سے ایک شیعہ اور دوسرا اہلسنّت مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا تھا۔ خاندان کی اس ریختگی سے ہزاروں بچے لاوارث اور بے یارومددگار ہو چکے ہیں جو انتہائی بدسلوکی کا شکار ہیں۔ اہل فکر کا کہنا ہے کہ مغرب جس مشترکہ خاندانی نظام سے چھٹکارا پا چکا ہے چاہتا ہے کہ عرب دنیا بھی اس نظام سے دستبردار ہو جائے جو انمول معاشرتی اقدار کا امین ہے۔ یورپ خصوصاً امریکہ ہرگز اس بات کو گوارہ نہیں کرتا کہ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستیں اس کے تسلط سے باہر رہیں ۔ذیل کی سطور میں یورپی یونین اور مشرق وسطی کی سیاسی ومعاشی صورتحال کی تبدیلی کے بارے ایک مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ تھامس لی فریڈ مین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی اور یورپ ایک ایسے خلفشار اور زوال کا شکار ہیں جس کا باعث وہاں رائج سیاسی اور اقتصادی نظام ہیں۔ یہ دونوں خطے بظاہر ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظام کے تحت چلائے جا رہے ہیں مگر نتیجہ لازمی طور پر بعینہ ایک جیسا ہے۔ ان دونوں دنیاؤ ں کا مشاہدہ کرنے کے لئے ترکی بہترین مقام ہے جو ان دونوں کے درمیان ایک سرحد بن کر کھڑا ہے۔
کئی برسوں سے تجزیہ نگاروں میں یہ بحث جاری ہے کہ ترکی ’’عیسائی یورپ‘‘ اور ’’مسلمان مشرق وسطیٰ‘‘ کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر ترکی کو یورپی یونین میں شامل کر لیا جاتا تو اب تک ترکی یہ کردار ادا کر چکا ہوتا، چونکہ ابھی تک اس کو یورپی یونین کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس لئے ترکی ان دونوں دنیاؤں ’’عیسائی یورپ‘‘ اور ’’مسلمان مشرق وسطیٰ‘‘ کے درمیان ایک سرحد بنا ہوا ہے۔ ترکی دراصل ایک ایسا ’’مستحکم جزیرہ‘‘ ہے جو دو ایسی دنیاؤں کے درمیان کھڑا ہے جو جغرافیائی اور سیاسی طور پر بہت اہم ہونے کے باوجود اندرونی طور پر شکست و ریخت سے دوچار ہیں۔ سرد جنگ کے اختتام پر یورپ میں یوروزون قائم ہوا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد عرب ریاستوں کا موجود سیاسی نظام معرض وجود میں آیا۔ اب یہ دونوں عوامل تیزی سے بکھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان دونوں دنیاؤں میں اس شکست و ریخت سے ہونے والا دباؤصاف دکھائی دیتا ہے۔ اس دباوکے نتیجے میں سامنے آنے والے ردعمل کی شدت اگرچہ مختلف ہے۔ شام میں حافظ الاسد کا خانوادہ اقتدار پر قابض ہے اور اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے شامی عوام کا خون بہانے میں مصروف ہے۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ترکی کے مغرب میں یورپ کی اقتصادی یونین ہے جو اس وقت اپنے ہی بوجھ تلے دبی ہوئی دکھائی دیتی ہے، ایسے ہی کئی یورپی رہنما مشترکہ کرنسی کے چکر میں بہت آگے نکل گئے ہیں لیکن اس کرنسی کو چلانے کے لئے کسی مشترکہ حکومت یا انتظام پر رضامند نہیں ہو سکے۔ جنوب میں عرب لیگ اپنے ہی ملبے تلے دبی چلی جا رہی ہے اور اس کے رہنماؤں نے خطے کو جدید نظام تعلیم کی ہوا بھی نہیں لگنے دی۔
یورپ میں مشترکہ کرنسی کیلئے دباوء بڑھا تو پوری یورپی یونین شدید مندے کا شکار ہو گئی اور پوری دنیا نے اس کے اثرات محسوس کیے۔ شام کے حکمران بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں یکسر ناکام رہے ہیں۔ مصر کے حکمران بھی غافل دکھائی دیتے ہیں۔ لیبیا اور یمن بھی تباہی کے دہانے تک جا پہنچا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ حالت یورپی یونین سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ اگر مشرق وسطیٰ میں شکست و ریخت کا عمل جاری رہا تو کوئی نہیں جانتا کہ بکھرنے والوں کو جوڑنے کی تدبیر کیونکر ہو گی۔ باالفاظ دیگر یورپ میں وحدانی نظریہ ناکام ہو چکا ہے اور یورپ ایک مرتبہ پھر جداگانہ ریاستی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عرب دنیا میں ’’قومی منصوبہ‘‘ ناکام ہونے کے بعد بعض عرب ریاستیں پھر سے فرقوں، قبیلوں، خطوں اور برادریوں میں منقسم ہو رہی ہیں۔
یورپ میں وحدنی نظریہ اس لئے ناکام ہوا کہ یورپی ممالک اپنا مالی اور اقتصادی کنٹرول ایک مرکزی قیادت یا اتھارٹی کے سپرد کرنے سے گریزاں تھے جو کہ مشترکہ کرنسی کو چلانے کے لئے از بس ضروری تھی۔
عرب دنیا میں ریاستی قومیت پسندی اس لئے ناکام ہوئی کیونکہ نوآبادیاتی طاقتوں نے عربوں کو جن قبیلوں، فرقوں اور برادریوں میں تقسیم کیا تھا وہ درحقیقت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ آج یورپی یونین کی مرکزی قیادت کوئی نہیں ہے جو یونین کے مالی و اقتصادی امور کے لئے ذمہ دار قرار پائے۔ عرب دنیا میں قومی ریاستیں تو موجود ہیں لیکن ریاست کی بنیاد پر قومیت پر یقین رکھنے والے بہت کم ہیں۔ شام، لیبیا، یمن، عراق اور بحرین میں یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے کہ ایک قبیلہ بزور قوت دیگر قبیلوں پر حکمران ہے۔ مصر اور تیونس میں ریاست کی بنیاد پر قومیت کا تصور قدرے مضبوط ہے۔
شام، بحرین، یمن، لیبیا اور عراق میں ایسے بے شمار نوجوان ایک ایسی ریاست کے قیام کے خواہاں ہیں جہاں سب کے حقوق و فرائض یکساں ہوں اور کثیر القومی معاشرہ ہونے کے باوجود کسی کی حق تلفی نہ ہو ۔جن میں ایسی سیاسی جماعتیں قائم ہوں جو ہر طبقے اور ہر نسل کی نمائندگی کرتی ہوں۔
جس سوال نے تاریخ دانوں اور تجزیہ نگاروں کو حیرت میں ڈال رکھا ہے وہ یہ ہے کہ عرب دنیا اور یورپ میں اچانک شکست و ریخت کیونکر شروع ہو گئی؟ اس کا آسان ترین جواب ہے عالمگیریت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا فروغ ،خاص طور پر گزشتہ پانچ برسوں میں تو یہ دونوں عوامل فیصلہ کن حیثیت سے ابھرے ہیں۔ اسی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور عالمگیریت کا کمال ہے کہ آج کا عرب نوجوان اپنی معاشرتی، سیاسی اور تعلیمی پسماندگی سے نہ صرف آگاہ ہو چکا ہے بلکہ اس سے نکلنے کا بھی آرزو مند ہے۔ یورپ میں معاشرتی رابطے بہت مضبوط ہوئے تو اہل یورپ کو پتا چلا کہ ان کے ساتھ بہت سی ایسی معیشتیں بھی موجود ہیں جہاں مقابلہ کا سرے سے تصور ہی نہیں پایا جاتا بلکہ اس کے برعکس ان کی بقاء ایک دوسرے پر مکمل انحصار کی متقاضی ہے۔ یہ ایک خطرناک اتحاد ہے۔
مڈل ایسٹ میں انسانی سمگلنگ
بین الاقوامی سطح پر ہونے والی غیر قانونی تجارت کی تین اہم اقسام ہیں جن میں منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ کے بعد انسانی سمگلنگ شامل ہے جو انسانیت کے نام پر ایسا کلنک ہے جس کو حکومتیں اور معاشرے مٹانے میں بری طرح ناکام ہیں ۔ یہ اربوں ڈالرز کی تجارت ہے جس سے دنیا کے تقریباً تمام ممالک دوچار ہیں۔
دنیا میں پھیلے ہوئے انسانی سمگلرز کے نیٹ ورکس سے مڈل ایسٹ کے ممالک اس وقت دوچار ہوئے جب 60ء کی دہائی کے بعد وہاں سے تیل نکلنا شروع ہوا جس نے بے آب و گیارہ ریگستانوں میں ایک نئی زندگی کو روشناس کرایا، اونٹوں پر سفر کرنے والے روز رائز گاڑیوں کے مزے لوٹنے لگے۔ جھونپڑیوں پر مشتمل بستیوں نے خوبصورت شہروں کا روپ دھار لیا۔ جہاں ہر وقت ریت اڑتی تھی وہاں پختہ سڑکیں اور سبزہ نظر آنے لگا ۔ترقیاتی کاموں (پختہ سڑکیں، عمارتوں کی تعمیر وغیرہ) میں افرادی قوت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایشیاء اور افریقہ کے غریب ممالک سے کارکنوں کو وہاں بھیجنا شروع کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ ابتداء میں کارکنوں کی اکثریت کا تعلق مسلمان ممالک سے تھا۔ 1990ء تک افریقہ اور ایشیاء کے غیر ملکی زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ ان ممالک سے حاصل ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں بھی غیر قانونی طور پر انسانوں کے داخلے کے راستے اور طریقے تلاش کر لیے گئے۔ 2000ء تک ایشیائی اور افریقی باشندوں کی00 23,000 سے زیادہ تعداد مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہی تھی۔ 1988ء تک مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی۔ یعنی ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں پانچ عورتیں، مڈل ایسٹ کے ممالک میں غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔ 2004ء تک ورکرز کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی۔ ایک سٹڈی رپورٹ کے مطابق 2005ء میں صرف متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں غیر ملکی کارکنوں کی تعداد 42,000,00 سے تجاوز کر چکی تھی جبکہ یو اے ای کی اس وقت آبادی نو لاکھ کے قریب تھی۔ ان غیر ملکیوں میں بیس فیصد عورتیں تھیں جو بنگلہ دیش، پاکستان، انڈیا، فلپائن، تھائی لینڈ، وسطی ریاستوں ،ترکی، ایران، نیپال، برما، چین، منگولیا، ملائیشیا، انڈونیشیا، مصر، سوڈان اور دیگر ایشیائی و افریقی ممالک سے تعلق رکھتی تھیں۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 27 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں