انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 27
مڈل ایسٹ کے ممالک میں اسمگل کر کے لائے گئے افراد سے جبری مشقت اور جنسی غلامی کا کام لیا جانے لگا۔ بچوں کو بطور اونٹ سوار اور عورتوں کو جسم فروشی کا شکار ہونا پڑا ۔یہ درست ہے کہ ایسے بچوں اور عورتوں کو محرومی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو یا تو خرید کر لائے گئے ہوں یا پھر قانون تک ان کی رسائی ناممکن بنا دی گئی ہو۔ لاکھوں کی تعداد میں عورتیں، مرد اور بچے آج بھی مڈل ایسٹ کے ممالک میں گھروں، کھیتوں اور اونٹوں کے اصطبلوں میں غلامی اور استحصال کی زندگی گزار رہے ہیں۔خلیجی ممالک میں آج بھی گھروں میں کام کرنے والوں کے روزگار کے تحفظ کے قانون کی شدید کمی ہے۔ بین الاقوامی برادری عورتوں اور بچوں کی سمگلنگ کو غلامی کی ہی ایک شکل قرار دیتی ہے لیکن مڈل ایسٹ میں وہ بھی بوجہ براہ راست مداخلت سے گریز کر رہی ہے۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 26 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایشیائی ریاستوں کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو مڈل ایسٹ ریاستوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کو بیگار یا کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان کو سمگلرز فراڈ یا جبر کے استعمال سے اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور ان کو زیادہ دولت کمانے کا لالچ دے کر خلیجی ممالک میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ غیر ملکی کارکنوں سے جبری مشقت لینے کا رواج عمان، قطر، کویت، اور یو اے ای میں عام پایا جاتا ہے۔ ان سے سفری اخراجات اور رہائش و کھانے کی مد میں زائد پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ جب تک ایجنٹ یا سمگلر اپنی مطلوبہ رقم وصول نہیں کرتا ورکرزکوکام کے پورے پیسے ادا نہیں کیے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں پانچ لاکھ سے زائد افراد غیر قانونی طور پر مڈل ایسٹ کے ممالک میں منتقل ہوئے۔ ان میں پانچ ہزار بچوں کی تعداد بھی شامل ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک سے وہاں منتقل کی گئی۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اعدادوشمار کے مطابق شمالی افریقہ اور مڈل ایسٹ کے ممالک میں دو لاکھ تیس ہزار افراد جبری مشقت میں ملوث ہیں۔ انسانی سمگلنگ کا سب سے تاریک پہلو جبری مشقت اور ممنوعہ روزگارکا ہے جو آج کل زوروں پر ہے۔ لیکن گزشتہ چند عشروں سے انسانوں کی جنسی مقاصد کے لیے تجارت بھی فروغ پا رہی ہے جو جبری مشقت کی بدنما شکل ہے۔ عمومی تعریف کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنسی غلامی اور جبری جسم فروشی کی شکل میں انسانی سمگلنگ استحصال کا دوسرا نام ہے۔ مڈل ایسٹ کے حکمران جسم فروشی کے ساتھ جڑی ہوئے جنسی استحصال کو انسانی سمگلنگ کا نتیجہ قرار دینے سے گریزاں ہیں ۔وہ اس بزنس کے تانے بانے اور استحصال کے مفہوم بارے ابہام کا شکار ہیں ۔ان کاخیال ہے کہ اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر آنے والے ان کی خدمت کے لیے آتے ہیں جس کا ان کو معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ان کے پاس کام کرنے کے کئی مواقع ہوتے ہیں جن کے انتخاب میں وہ آزاد ہوتے ہیں ۔عرب معاشرے کے نوجوان گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کا جنسی استحصال کرنے میں حق بجانب خیال کیے جاتے ہیں۔ غریب ممالک کی عورتیں آسانی سے پیسے کمانے کیلئے ان ممالک کی سیکس انڈسٹری میں شامل ہوتی ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنے معاشی حالات سے تنگ ہوتی ہیں ۔ایسی عورتیں اپنے آپ کو غلامانہ حالات میں گھری ہوئی پاتی ہیں۔ سیکس انڈسٹری میں داخل ہونے والی عورت کو سمگلرز جسمانی اور نفسیاتی ہتھکنڈوں سے کنٹرول کرتے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں انسانی سمگلنگ کی ایک بڑی وجہ وہاں بڑھتی ہوئی جسم فروشی ہے ۔مڈل ایسٹ کے تقریباً تمام ممالک میں یہ ایک غیر قانونی فعل تصور کیا جاتا ہے۔ یعنی جائز شادی کے علاوہ جنسی ضرورت کو پورا کرنا نہ صرف گناہ سمجھا جاتا ہے بلکہ قانون میں اس کی سزا بھی مقرر ہے۔ شادی کے بعد جنسی عمل کو مذہبی طور پر غیر قانونی قرار دینا اس کے وجود کا جواز ہے جو بالآخر جسم فروشی کی طلب کو مزید فروغ دیتا ہے۔ انسانی سمگلنگ اور جسم فروشی پر حکومتوں کی طرف کنٹرول قانون سازی کی کمی کے سبب نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔
جبری مشقت اور جنسی استحصال ہی انسانی سمگلنگ کی صورتیں نہیں بلکہ ان میں ایک تیسری قسم بھی شامل ہے جو خوفناک اور اندوہ ناک ہے ۔مڈل ایسٹ میں کم سن بچوں کو جبری طور پر اونٹ سوار بنایا جاتا ہے ،جو شعور کی اس عمر تک بھی نہیں پہنچ پائے ہوتے کہ وہ یہ جان سکیں کہ قسمت ان کو کس ملک میں لے آئی ہے۔ اونٹ دوڑ ایک خطرناک اور پرتشدد تماشا ہے جو بچوں کو ان کی مرضی کے خلاف کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش، پاکستان، انڈیا اور سوڈان سے لائے گئے بچے تقریباً پانچ سال سے کم عمری میں اونٹوں پر بٹھا دیئے جاتے ہیں۔ غریب ممالک کے ایسے علاقے جہاں والدین اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر آمادہ ہوں یا جن علاقوں سے بچوں کو اغواء کرنا آسان ہو سمگلرز وہاں سے ان کو اٹھا کر مڈل ایسٹ پہنچاتے ہیں جہاں یہ اپنی جسمانی نشوونما کو روکنے کے پابند ہوتے ہیں تاکہ وزن بڑھنے سے اونٹ کی رفتار میں کمی واقع نہ ہو۔ سمگلرز بچوں کے والدین کو عام طور یہ کہہ کر بچے خریدتے ہیں کہ ان کا بچہ امیر شیخ کے گھر کام کرے گا اور ان کو ہر ماہ ایک معقول رقم بھیجتا رہے گا ۔والدین کو بچے کے کام کے متعلق قطعاً اندازہ نہیں ہوتا ۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ اچھے روزگار اور بہتر مستقبل کیلئے جا رہا ہے۔ عموماً بچوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان کو کون دوسرے ملک لے کر جا رہا ہے ۔ مطلوبہ ملک پہنچنے کے بعد بچوں کو ’’عزباز‘‘ (صحرا میں اونٹوں کی تربیت کے لیے بنائے گئے فارم ہاوئس ) میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں بچے اپنے قیام کے دوران متعدد بار غیر انسانی سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کو خوراک کی کمی اور بجلی کے جھٹکے برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اونٹ کی دوڑ میں بیس کلو سے زائد وزن کا اونٹ سوار بچہ غیر موزوں تصور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ان بچوں کو جان بوجھ کر کم خوراک دی جاتی ہے تاکہ ان کا وزن بڑھنے نہ پائے۔ اس سے بچوں کی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے۔ دوڑ کے دوران بچوں کو زخمی یا موت سے دوچار ہونا ایک سنگین مسئلہ ہے ۔مرنے والے بچے کو صحرا میں خاموشی سے دفن کر دیا جاتا ہے تاکہ پولیس کی تفتیش کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔اونٹوں کے اصطبل میں ان بچوں کی زندگی کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اونٹ کے احاطے کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کو الماریوں کے تختوں کو سیدھا کر کے سونا پڑتا ہے تاکہ بچھووں کے کاٹنے سے محفوظ رہا جا سکے۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کو پیسوں کی ادائیگی کی گئی ہو۔ اونٹوں کے مالکان کا خیال ہے کہ اگر ان بچوں کو پیسے دیئے جائیں تو وہ بھاگ جاتے ہیں ۔بعض ایجنٹ یا سمگلرز ان بچوں کی اجرت لے کر خود رکھ لیتے ہیں۔ اونٹوں کے اصطبلوں میں پولیس یا لیبر کے محکمے والوں کا جانا ناممکن ہے۔ یہ اصطبل صحرا میں بنائے گئے ہیں ۔بچوں کو اس وقت رہائی ملتی ہے جب ان کا وزن اور عمر بڑھ جاتے ہیں۔ سنگین طور پر زخمی ہونے والے بچوں کو بھی معمولی رقم دے کر ان کے ممالک واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
مڈل ایسٹ کے ممالک میں انسانی سمگلنگ کا ایک اہم عنصر وہاں سے یورپین یا امریکی ممالک کے لیے ہجرت کرنا بھی ہے۔ 90ء کے عشرے میں افریقہ، انڈیا، پاکستان، عراق اور چین کے متعدد باشندوں نے مڈل ایسٹ کے ممالک سے مغربی ممالک کی شہریت کے حصول کے لیے سفر کیا۔ بین الاقوامی تنظیم برائے تارکین وطن کے مطابق لیبیا اور یورپین ممالک کی طرف گھانا سے لبنان تک کی عورتیں سمگل کر کے لائی گئیں۔ اسی طرح سعودی عرب اور کویت کے لیے مغربی افریقہ اور مشرق وسطی سے عورتوں کو گھروں میں کام کرنے کے لیے غیر قانونی طریقے سے لایا گیا ۔حتیٰ کہ اتھوپیا سے ہزاروں کی تعداد میں عورتیں رضاکارانہ طور پر مڈل ایسٹ پہنچ گئیں جہاں روزگار کی صورتحال روح کو قید کرنے کے مترادف تھی۔جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ مڈل ایسٹ ایک ایسا خطہ ہے جہاں عورتوں اور بچوں کوجبری مشقت اور جنسی استحصال کے لیے سمگل کر کے لایا جاتا ہے۔ دولت مند خلیجی باشندے جہاں چاہتے ہیں وہاں آراستہ فلیٹس یا مکان گھنٹوں یا مہینوں کے لیے کرائے پر حاصل کرتے ہیں۔ان میں اتھوپیا، نائیجیریایا پاکستان کی جسم فروش عورتوں کو رکھا جاتا ہے۔ مڈل ایسٹ کے چند ممالک ہی ایسے ہوں گے جو جنسی کاروبار سے مبرا قرار دیئے جا سکتے ہوں۔ جہاں انسانی سمگلنگ زوروں پر ہے وہاں کے علاقے معاشی طور پر کمزور اور پسماندہ ہیں۔ ان کی آبادی وسائل کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ انسانی سمگلنگ ایک ایسی منڈی ہے جو طلب اور رسد کے قانون کے تحت اپنے آپ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے جہاں غربت ہو گی وہاں سے بڑھتی ہوئی جنسی تفریح کی طلب کو رسد کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔ معاشی خطرے سے دوچار عورتیں دولت مند عرب مردوں کے لیے ایک جنسی شے بنتی جا رہی ہیں ۔اگرچہ وہاں کچھ سماجی پابندیاں بھی ہیں لیکن خطے میں پائی جانے والی دولت اور لوگوں کا طرز زندگی اس رجحان کو دوام بخشے ہوئے ہے۔ مڈل ایسٹ ممالک میں انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے اور عورتوں کے لیے روزگار کے چند مواقع ہی پائے جاتے ہیں۔ حتی کہ ملازمت پیشہ عورتیں بھی متبادل کے طور پر جسم فروشی کے دھندے کو اپناتی ہیں۔ مثال کے طور پر مصر میں نچلے طبقے کی عورتیں دیکھتی ہیں کہ پبلک سیکٹر میں پورا مہینہ کام کر کے اتنے پیسے نہیں کمائے جا سکتے جتنے جسم فروشی کر کے چند راتوں میں کمائے جا سکتے ہیں ۔اس رجحان کی بدولت مصر بین الاقوامی سیاحت کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جنسی سیاحت کے غیر قانونی ہونے کے باوجود مصری اپنے دگرگوں معاشی حالات کے پیش نظر اس رجحان کو ختم کرنے میں مشکل سے دوچار ہیں۔ وہ خلیج کی کرنسی جو جسم فروشی سے حاصل ہوتی ہے کو مصر سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جنسی سیاحت، جسم فروشی کے پھیلاؤاور عارضی شادیوں کو ناہموار معاشی ترقی کا نتیجہ سمجھا جا سکتا ہے، جبکہ اس کا مزید پھیلاؤ طلب اور رسد کے اصول کے تحت جاری ہے۔ خلیجی باشندے جنسی تفریح کو حاصل کرنے کے ذرائع اور امداد سے معمور ہیں جبکہ غریب مسلم طبقات مالی ضمانت کے بدلے خدمات فراہم کرنے پر مجبور ہیں۔ مڈل ایسٹ میں انسانی سمگلنگ کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ عرب مردوں کی اپنے ممالک سے باہر شادیاں بھی ہیں ۔جائز شادی کے بغیر جنسی ضرورت پر عائد پابندیوں سے بچنے کے لیے مڈل ایسٹ کے کچھ مخصوص ممالک میں عورتیں اور مرد ’’عارضی یا سفری شادی‘‘ کرتے ہیں ۔شادی کی یہ قسم محض جسمانی لطف کے حصول کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اسے عارضی شادی کا نام ہی دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی شادی میں خاوند اور بیوی کا سہواس کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی قسم کی رسم نبھانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ نکاح یا معاہدے میں بیوی کی بہتری کے لئے کوئی شق درج نہیں کی جاتی ۔جیسا کہ روایتی اسلامی شادیوں میں کئی چیزوں کو ضابطہ تحریر میں لا کر فریقین سے رضا مندی کے دستخط کروائے جاتے ہیں۔ عارضی شادی میں ساتھ دینے کا دورانیہ درج نہیں کیا جاتا ۔اگرچہ دونوں فریقوں کو اپنے تئیں معلوم ہوتا ہے۔ تاہم یہ ایک ٹیکنیکل معاہدہ ہوتا ہے۔ اس قسم کی شادی میں عورت کے پاس عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جانے کا کوئی امکان نہیں رہتا کیونکہ وہ اپنے بنیادی حقوق اور اقدار پر سمجھوتہ کر چکی ہوتی ہے۔ عارضی شادی کو عموماً ’’جائز یا قانونی جسم فروشی‘‘ کہا جاتا ہے ۔ان شادیوں کی متضاد حیثیت کے باوجود ان کو مذہبی اور قانونی ہر دو حوالوں سے جائز تصور کر لیا گیا ہے۔ سید احمد کے بقول عارضی شادیاں اسلامی ممالک میں مقبول ہو رہی ہیں کیونکہ یہ روایتی شادیوں کے علاوہ جنسی تعلقات کو جائز قرار دیتی ہیں۔ ایک دوسرے عالم شیخ الزرقاوی جو اسلامی فقہ کے ماہرو مستند مسلم سکالر ہیں کے مطابق عارضی شادی مذہبی طور پر جائز ہے ۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ ایسی شادی سماجی طور پر ناقابل قبول ہو لیکن اسلامی حوالے سے کیا چیز جائز ہے اور سماجی طور پر کیا چیز قابل قبول ہے ان میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ ان کا اشارہ اس طرف ہے کہ جب تک دونوں فریق شادی کے معاہدے کی شرائط پر کاربند ہیں وہ اللہ کی نظر میں قانونی طور شادی شدہ ہیں۔عارضی شادی بیواوں اور غیر شادی شدہ نوجوانوں کو شادی کے بغیر جنسی خواہش کی تکمیل سے روکتی ہے جسے روایتاً گناہ سمجھا جاتا ہے۔ دراصل عارضی یا سفری شادی ان اعمال کو جائز قرار دیتی ہے جو بصورت دیگر غیر قانونی نظر آتے ہیں۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 28 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں