انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 28
مڈل ایسٹ میں اخلاقی ضابطوں کی سخت پابندی کا خیال رکھا جاتا ہے اور جنس جیسی اصطلاح یا موضوع کو حساس تصور کیا جاتا ہے۔ مڈل ایسٹ کے ایسے معاشرے جہاں اسلام غالب مذہب کے طور پر رائج ہے شادی سے پہلے یا بعد میں جنسی عمل کو گناہ خیال کیا جاتا ہے۔ چند ایک ممالک میں تو غیر شادی شدہ زانیوں کو گواہوں اور عوام کے مجمعے میں اس گناہ کی پاداش میں ایک سو کوڑے مارے جاتے ہیں۔ زنا ایک ایسا لفظ ہے جس کے مڈل ایسٹ کے کئی ممالک میں عورتوں سے بدسلوکی یا دست درازی کے معنی لیے جاتے ہیں۔ یہ عورت کے خاندان کے لیے انتہائی شرم کی بات سمجھی جاتی ہے۔ شادی شدہ کے لیے جنسی فعل پر تمام پابندیوں کے باوجود انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کے ذریعے مڈل ایسٹ میں جسم فروشی کے فروغ کی خبریں سامنے آ رہی ہیں ۔عارضی شادیاں معاشی طور پر خطرے سے دوچار عورتوں کے استحصال کا ایک اہم جزوسمجھی جاتی ہیں۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 27 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بین الاقوامی انسانی حقوق کی ایک معروف کارکن کیسپٹن غیر ملکی امور کے جرنل میں لکھتی ہیں کہ ’’صنعتی ممالک اس مسئلہ پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔‘‘ اس کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ سیاسی اہلیت کا نہیں بلکہ سیاسی ادارے کا ہے۔ مڈل ایسٹ کے ممالک میں انسانی سمگلنگ کے خلاف لڑنا ایک چیلنج ہے۔ کیونکہ وہاں کے حکمران یہ بات ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ ان کے ممالک میں انسانی سمگلنگ ہو رہی ہے۔ سیاسی ادارے کی کمی جزوی طور پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے خالی دھمکیوں کا نتیجہ ہے ۔لیکن اس میں نمایاں معاشی محرکات اور نفسیاتی عوامل کا کردار قدرے زیادہ دخیل ہے جسے انسانی سمگلنگ کے بنیادی اسباب سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اپنے آرٹیکل ’’عالمی لہریں‘‘ میں وہ رقمطراز ہیں کہ جنسی سمگلنگ مڈل ایسٹ میں کئی حوالوں سے ایک حساس موضوع ہے۔ ایک سطح پر یہ اخلاقی بدعنوانی کو ظاہر کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ معاشرے میں اسلامی اقدار کا اثرورسوخ انحطاط کا شکار ہے۔ ایک دوسری سطح پر مڈل ایسٹ کے بہت سے ممالک میں حکومتیں اسلامی حکم کے نفاذ اور روایت کو زندہ رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ کام اسلامی نکتہ نگاہ سے قوم کو متحد رکھنے کی ان کی اہلیت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ مثلاً اگر حکومت جنسی سمگلنگ کو ایک اہم مسئلے کے طور پر تسلیم کرے تو اس کا مطلب ریاست کی طاقت میں کمی تصور کیا جاتا ہے۔
ان ممالک میں انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایسے افراد کو نظروں سے اوجھل اور ناقابل رسائی مقامات پر رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک انڈر گراؤنڈ سرگرمی ہے اور سمگل شدہ افراد ’’چھپی ہوئی آبادی‘‘ قرار دیئے جاتے ہیں ۔اس تجارت سے حاصل ہونے والا منافع منی لانڈرنگ کے ذریعے دیگر ممالک میں منتقل کیا جاتا ہے ۔یہ عمل سمگلرز کا کھوج لگانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
ایسی عورتیں اور لڑکیاں جن کا ریپ کے ذریعے جنسی استحصال کیا جاتا ہے یا جن سے جبری جسم فروشی یا جنسی غلامی کا کام لیا جاتا ہے کی بقیہ زندگیاں اس داغ کے ساتھ سماجی عذاب سے دو چار رہتی ہیں۔ جنسی بد اخلاقی سے تعلق کا عذاب تمام زندگی ساتھ رہتا ہے ۔ایک دفعہ یہ تعلق پیدا ہو جائے تو پھر عورت کی نیک نامی میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں جو کبھی بھی بھر نہیں سکتی ہیں۔ 2003ء میں شائع ہونے والی ایک سٹڈی رپورٹ کے مطابق 89 فیصد عورتیں جسم فروشی کے دھندے سے باہر نکلنا چاہتی ہیں۔ اس انڈسٹری کی 70 فیصد عورتوں کے ساتھ ریپ ہو چکا ہوتا ہے اور 90 فیصد پر جسمانی تشدد آزمایا جاتا ہے۔
مڈل ایسٹ کے ممالک میں انسانی سمگلنگ کے علاوہ بچوں کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ کم عمر لڑکیوں سے شادی اس وقت دنیا میں ایک جرم قرار دیا جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت مڈل ایسٹ کے 15 ممالک میں ایک کروڑ تیس لاکھ غیر ہنر مند غیر ملکی افراد مختلف شعبوں میں معمولی اجرت پر کام کر رہے ہیں۔ گھریلو ملازمت مڈل ایسٹ میں انسانی سمگلنگ کی اہم وجہ تصور کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہزاروں لڑکیاں اور عورتیں اردن میں بطور گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں ۔ وہاں پہنچ کر ان کو معلوم پڑتا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ان کو ممنوعہ اور غیر اخلاقی کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔کم عمر ملازموں کے ساتھ مالک جنسی زیادتی کرتے ہیں۔ سمگلنگ کی شکار عورتوں کو قانونی اور سماجی تحفظ کے بدلے سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کم عمری کی شادی جنسی استحصال خیال کی جاتی ہے۔ لیکن یہ مڈل ایسٹ میں اور بیرون ملک عام رواج پا چکی ہے۔ ایمرجنسی اور آفات کی صورتحال بھی بچوں کو جنسی تشدد اور استحصال سے دوچار کرتی ہے۔ سرکاری اعدادو شمار اور اقوام متحدہ اور آئی پی پی ایف کے مطابق صرف شام میں پانچ ہزار عراقی لڑکیاں اور بیوہ عورتیں 2006ء تک جسم فروشی میں ملوث پائی گئی تھیں۔مڈل ایسٹ میں انسانی سمگلنگ کا ایک سلسلہ جاری ہے جو ہمسایہ ممالک کے ساتھ حق ہمسائیگی کے طور پر ادا کیا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر یمن بھی انسانی سمگلنگ کا ایک ذریعہ ہے جہاں سے بچوں کو سمگل کر کے سعودی عرب، شام اور یو اے ای پہنچایا جاتا ہے۔ کچھ بچوں اور نوجوان لڑکیوں کو مغربی یورپ کے ممالک اور برطانیہ جعلی دستاویزات کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔سمگل شدہ بچوں کی ایک بڑی تعداد ترکی اور ایران تک پہنچائی جاتی ہے۔ اس طرح ایرانی بچے سمگل کیے جاتے ہیں اور افغانستان سے کم عمر لڑکیوں کو ایران سمگل کیا جاتا ہے جن سے جبری طور پر شادیاں کی جاتی ہیں۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ایرانی عورتیں اور لڑکیاں پاکستان، ترکی، قطر، کویت، یو اے ای، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کمرشل جنسی استحصال کے لیے سمگل کی جاتی ہیں۔ یمنی بچوں کو شمالی سرحد سے سعودی عرب اور درون ملک کے شہروں عدن اور صنعا میں سمگل کیا جاتا ہے جہاں ان سے جبری مشقت اور بھیک مانگنے کا کام لیا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو راستے میں ہی ریپ کر دیا جاتا ہے۔ یمن کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہر سال ایک ہزار بچے سعودی عرب منتقل کیے جاتے ہیں جن کی بوگس دستاویزات تیار کی جاتی ہیں۔
2006ء میں نو سو بچے سعودی عرب سمگل کیے گئے جبکہ لبنان میں درون ملک بچوں کی سمگلنگ کی رپورٹ بھی منظر عام پر آ چکی ہیں جن سے جنسی استحصال کے ذریعے آمدن حاصل کی جاتی ہے۔ شام عورتوں اور لڑکیوں کے کاروباری جنسی استحصال کا ٹھکانہ اور راہداری بھی ہے۔ شام میں پھیلے ہوئے عراقی لوگوں میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد عراقی گینگز کے ہاتھوں جبری کاروباری جنسی استحصال کا شکار ہے۔ یہ گینگز پرائیویٹ یتیم خانوں سے لڑکیوں اور جوان لڑکوں کو اٹھا کر ملک کے دیگر علاقوں میں لے جا کر جبری مشقت اور جبری جسم فروشی کا دھندا کراتے ہیں۔ شام میں بچے خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ اس کی وجہ کمزور ملکی قانون یا اس کا مناسب طریقے سے عدم نفاذ ہے۔ بچوں کو آسانی سے دھوکہ دیا جا سکتا ہے اور وہ سمگل ہونے سے آگاہ نہ ہونے کے سبب سمگلرز کا آسان شکار ہوتے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے ممالک انسانی سمگلنگ کے ذرائع، ٹھکانے، راہداری اور درون ملک، سمگلنگ میں بھی شامل ہیں۔
مصر
مصر ایک قدیم تہذیب کا امین ہے اور علم و ادب کا گہوارہ اسلامی ملک ہے ۔آج کل سیاسی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ دریائے نیل اور نہر سویز قدیم آبی تجارتی گزرگاہیں ہیں جو غیر ملکی تاجروں کے لیے ہمیشہ سے باعث کشش رہی ہیں۔ یہاں پر یورپین سیاح بالخصوص قدیم یادگاریں دیکھنے کے لیے بھی آتے ہیں۔ یہ ملک مڈل ایسٹ میں انسانی تفریح کے باعث بھی مشہور تصور کیا جاتا ہے اور فن کے نام پر یہاں قائم ڈانس کلب، بارز انسانی سمگلنگ کی ایک بڑی وجہ خیال کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ تین عشروں سے مڈل ایسٹ کے عرب ممالک کے باشندوں کی آمدورفت مصر میں خاصی حد تک بڑھ چکی ہے۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 29 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں