انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 29

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 29
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 29

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصر سمگل شدہ افراد کی منزل، راہداری اور ذرائع کا کام بھی دیتا ہے، جن کا جبری طور پر جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور ان سے جبری مشقت بھی لی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گلی محلوں میں کھیلتے تقریباً دس لاکھ لڑکے اور لڑکیوں سے جبری طور پر مشقت اور بھیک مانگنے کا کام لیا جاتا ہے۔ مقامی مافیا کافی عرصے سے اس قبیح فعل میں ملوث ہے جس کو روکنے میں حکومت بری طرح ناکام ہے۔ ان میں سے کچھ بچوں کو ذراعت کے شعبے اور کچھ کو گھریلو کام کے لیے جبراً بھرتی کیا جاتا ہے جن پر باہر گھومنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ ان بچوں کو جسمانی اور جنسی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ ہر وقت تنخواہ کی عدم ادائیگی اور آجر کی ناراضگی کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ خلیج سے مبینہ طور پر امیر عرب باشندے اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیوں سے عارضی شادیاں کرنے اور گرمیوں کی تعطیلات کو پرمسرت بنانے کے لیے مصر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان میں اکثریت سعودی عرب، یو اے ای اور قطری باشندوں کی ہوتی ہے۔ ان شادیوں کا انتظام عورتیں، دلال یا والدین کرتے ہیں ۔ باالفاظ دیگر یہ ایک کاروباری جنسی استحصال کی شکل ہے جو گزشتہ تین عشروں سے جاری ہے۔ سیاحت کے دوران جنسی مقاصد کے لیے بچوں کو ساتھ رکھنا قاہرہ اور اسکندریہ میں عام پایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ازبکستان، یوکرائن ،روس اور مشرقی یورپین ممالک سے سمگل کر کے لائے جانے والی عورتوں کو اسرائیل میں جنسی مقاصد کی غرض سے بھیجنے کے لیے مصر کو راہداری کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ان مجرمانہ کارروائیوں میں منظم گروہ ملوث ہوتے ہیں جو بین الاقوامی انسانی سمگلنگ مافیا کا حصہ ہیں ۔غیر مسلم عورتوں سے جبری شادیاں کرنے اور بعد ازاں ان سے جبری طور پر جسم فروشی کرانے کی اطلاعات بھی مصر میں منظر عام پر آ چکی ہیں۔

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 28 پڑھنےکیلئے یہاں کلک کریں
جنوب اور جنوب مشرقی ایشیاء سے تعلق رکھنے والے مردوں اور عورتوں سے مصر میں جبری مشقت لی جاتی ہے۔ ایسے کارکنوں سے کام پر رکھنے سے قبل پاسپورٹ ضبط کر لیے جاتے ہیں تاکہ وہ کسی دوسری جگہ کام نہ کر سکیں۔ یہ درست ہے کہ اتھوپیا، سوڈان، فلپائن، انڈونیشیا اور سری لنکا کی خواتین ورکرز اپنی مرضی سے مصر کا رخ کرتی ہیں ۔لیکن ان سے گھروں میں جبری مشقت لی جاتی ہے ۔ایسی خواتین کے ساتھ گھروں کے مرد جنسی زیادتی بھی کر گزرتے ہیں ۔ان سے فل ٹائم کام لیا جاتا ہے اور چھٹی نہیں دی جاتی۔ ان کو جسمانی اور جنسی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے اور عزت نفس مجروح کی جاتی ہے۔ ان کی تنخواہیں روک لی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی سے باہر گھوم پھر نہ سکیں ۔آجر ورکرز سے معاہدہ کرتے وقت دستاویز کی عدم موجودگی، غیر قانونی حیثیت اور بے روزگاری کو ایک جبر کے آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سوڈانی تارکین وطن جو ان عورتوں کو سوڈانی مافیا اور والدین قاہرہ کے نائٹ کلبوں میں جنسی استحصال پر مجبور کرتے ہیں۔
میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق کچھ سوڈانی اور مصری لڑکیوں کو اردن میں جبری طور پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مصری حکومت انسانی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے مطلوبہ اقدامات کرنے سے قاصر ہے تاہم وہ اس پر قابو پانے کے اقدامات کا اعلان کر چکی ہے۔ حکومت کی طرف سے جنسی بے راہ روی اور جبری مشقت کے لیے انسانی سمگلنگ کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی منظوری دی گئی ہے۔ اس پر عملدرآمد کا مرحلہ کب طے ہوتا ہے اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ بچوں سے مشقت لینے اور عارضی شادیوں سے عوام الناس کو آگاہ کرنے کی مہم کا آغاز ایک مستحسن اقدام خیال کیا جا رہا ہے۔ بچوں سے جبری مشقت کے قانون میں ترمیم کو بھی ایک معاون اقدام قرار دیا گیا ہے جس سے بین الاقوامی برادری نے مصر کو عارضی طور پر ریلیف دینے کے عندیے کا اظہار کیا ہے۔ 2008ء میں انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو سخت سزائیں سنائی گئی تھیں ۔اس کے باوجود مصر کو اس لعنت سے نجات کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
مصر میں انسانی سمگلنگ کے خلاف کیے جانے والے اقدامات میں سرفہرست پارلیمنٹ کی طرف سے کی جانے والی وہ قانون سازی ہے جس میں ملوث افراد کے لیے تین سے پندرہ سال کی قید کی سزا اور مقدمہ کی شدت کو دیکھتے ہوئے نو ہزار سے چھتیس ہزار امریکی ڈالر جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت قاہرہ کی ایک عدالت نے ایک درجن سے زائد افراد کو اگرچہ سزا ئیں سنائی تھیں مگر یہ دھندہ ابھی تک اپنی پوری روانی سے جاری ہے۔ سزا دیے جانے والوں میں دو مصری اور دس خلیجی باشندے شامل تھے ۔جنہوں نے بازار سے دس بچیوں کو اغواء کر کے سیاحوں کو پیش کیا اور کچھ کے ساتھ عارضی شادی کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس واقعہ میں ملوث افراد میں سے کچھ کو عمر قید اور کچھ کو پندرہ سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔ اس طرح کم عمر لڑکیوں سے عارضی شادیوں کا انتظام کرنے والوں کو بھی معمولی سزائیں دی گئی تھیں۔ 2010ء میں ایک کم عمر لڑکی کو ایک بوڑھے سعودی کے ساتھ شادی پر مجبور کرنے کے جرم میں بھی سزا دی گئی۔ درجنوں شادی رجسٹرارز کو گرفتار کیا گیا۔ والدین کو بھی عقوبت خانوں میں ڈالا گیا تاکہ عوام میں ان غیر قانونی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ مصر نے 2009ء میں پانچ سو کے قریب سرکاری و غیر سرکاری اہلکاروں کو انسانی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے تربیت فراہم کی جس میں عدالتوں کے جج صاحبان، پولیس افسران، وزارت سیاحت کے ملازمین، سماجی کارکن، سرکاری وکلاء اور لیبر انسپکٹر ز شامل تھے۔
مصر میں سمگلرز کا شکار ہونے والے افراد کی مناسب دیکھ بھال کا فقدان بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ تربیت کے باوجود سرکاری اہلکار بازار سے بے گناہ بچوں اور جنسی استحصال کی شکار عورتوں کے خلاف انسانی سمگلنگ کے مقدمات درج کر کے ان سے تفتیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے گنہگار محفوظ رہتے ہیں اور بے گناہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو کر قید خانوں کے مہمان بنتے ہیں۔ یعنی ابھی تک پولیس یا متعلقہ اداروں کے اہلکار انسانی سمگلنگ میں ملوث اور اس کا شکار افراد میں شناخت کرنے سے قاصر ہیں۔
کچھ بچوں کو نابالغوں کے مراکز میں بھیج دیا جاتا ہے جن کے حالات ناقابل بیان حد تک افسوسناک ہوتے ہیں ۔ قانون میں ممانعت کے باوجود بچوں کو بالغوں کے ساتھ قید میں رکھا جاتا ہے۔ سرحدوں پر تعینات عملہ بغیر دستاویزات کے مصر میں داخل ہونے والوں کے ساتھ ساتھ ان ناپسندیدہ افراد کو بھی نشانہ بناتے ہیں جن کو وہ شناخت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔مصر میں سماجی ہم آہنگی کی وزارت کے تحت انیس سے زائد مراکز قائم ہیں جہاں بازار میں گھومنے والے بچوں، معذور افراد اور عورتوں کو جو انسانی سمگلنگ کا شکار ہوتی ہیں خدمات فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہ مراکز صرف دن کے وقت کام کرتے ہیں۔ اگست 2009ء میں قاہرہ میں وزارت خاندان اور آبادی نے ایک مرکز میں غیر سرکاری تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دی جو انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کی بحالی کا کام کر رہی ہیں ۔حال ہی میں منسٹری آف ہیلتھ اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے مطابق انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کے علاج و معالجے اور دیکھ بھال کے لیے مصر ایک ایسا مرکز قائم کرے گا جس میں ایک ہسپتال اور نگرانی کرنے کے مراکز قائم کرنا شامل ہیں۔ متعدد شکایات ایسی وصول ہو چکی ہیں جن میں جیلوں میں قید افراد کے ساتھ زبانی، جسمانی اور جنسی بدسلوکی کا ذکر موجود تھا۔ مصر میں عارضی شادیوں کی روک تھام کیلئے محمد مرسی کی حکومت کے اقدامات جاری تھے کہ ملک پر مارشل لا مسلط کر دیا گیا اب یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ موجودہ فوجی حکومت سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھ پاتی ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر میں انسانی سمگلنگ کے خاتمے کیلئے ابھی تک کچھ نہیں کیا گیااور دیہاتی علاقوں میں عرب سیاحوں کا کم سن لڑکیوں سے عارضی شادیاں کرنا ابھی تک جاری ہے۔

سعودی عرب میں انسانی سمگلنگ اور عارضی شادیاں
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مڈل ایسٹ میں ایک کروڑ سے زائد غیر ملکی ورکرز (عورتیں اور مرد) اور ساٹھ لاکھ سے زائد مہاجرین پناہ گزین ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ تعداد سعودی عرب میں مقیم ہے ۔ایک اندازے کے مطابق سعودیہ میں اس وقت ستر لاکھ سے زائد غیر ملکی افراد ہیں ۔ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو مسلم ممالک سے عمرے کی ادائیگی کی دستاویزات پر سعودی عرب میں داخل ہوتے ہیں اور پھر وہیں چھپ کر کام کرتے رہتے ہیں ۔ایسے غیر ملکیوں کے حقوق ختم ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو سعودی عرب میں قانوناً جائز قیام کرنے والے بھی کسی مقامی سعودی باشندے کے خلاف شکایت نہیں کر سکتے۔ تمام ایشیائی غیر ملکی باشندوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر گھروں میں کام کرنے والے تارکین کو بہت ہی کم اجرت پر کام پر رکھا جاتا ہے۔ جنسی مقاصد کے حصول کے لیے انسانی سمگلنگ میں گزشتہ ایک عشرے سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سمگلرز یا ایجنٹ مافیا جوان لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے اور بہترین ملازمت کا جھانسہ دے کر ان ممالک میں لاتے ہیں۔ بعض عورتیں بھی جسم فروشی کے دھندے کی طرف مائل ہو جاتی ہیں کیونکہ اسے فوری پیسہ کمانے کا آسان ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہ بہت جلد غلاموں والی زندگی اپنا لیتی ہیں۔(جاری ہے )

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں