انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 25
پاکستان میں ایڈز کے پھیلاؤ میں پیشہ ور خون عطیہ کرنے والوں کے خون کا بھی اہم حصہ ہے۔ایسے افراد سے لیے گئے خون کے نمونے اچھی طرح چیک نہیں ہوتے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 15 لاکھ افراد میں خون کی منتقلی ہوتی ہے جو بغیر سکریننگ کے کی جاتی ہے۔ 1998ء میں کراچی میں ایڈز کی نگرانی کے مرکز میں پیشہ ور خون دینے والوں پر کی جانے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ انتہائی غریب افراد کی اکثریت ، جو پیسوں کے لئے خون دیتے ہیں منشیات کی عادی تھی۔ اس تحقیق کے مطابق 20 فیصد ہیپاٹائٹس سی 10 فیصد ہیپاٹائٹس بی اور ایک فیصد ایچ آئی وی میں مبتلا افراد خون دینے والوں میں شامل تھے۔ یاد رہے کہ خون کی 20 فیصد منتقلی ان پیشہ ور افراد کی طرف سے کی جاتی ہے۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 24 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مہاجرین اور ترک وطن کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ورکرز پر مشتمل ہوتی ہے جو دیہاتوں کو چھوڑ کر شہروں کا رخ کرتی ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد مسلح افواج اور صنعتی علاقوں میں چلی جاتی ہے۔ سمندر پار کام کرنے والوں کی تعداد 80 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ گھروں سے طویل وقت کے لئے دوری بھی غیر محفوظ جنسی عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جو ایچ آئی وی کے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
انسانی سمگلنگ نے جہاں ملکوں کی معیشتوں کو غیر متوازن کیا وہاں انسانوں کے استحصال اور ناقابل علاج بیماریوں کا تحفہ بھی متعارف کروایا۔ پاکستان میں پائے جانے والے پہلے مریض کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خلیج کے ایک ملک سے آیا تھا۔ اس کے بعد یہ وائرس تیزی کے ساتھ مقامی آبادی میں پھیلنے لگا۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں سوائے ایران کے ایڈز کے مرض نے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ آج لاکھوں افراد انجانے میں اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ اس باب کے شروع میں کہا گیا کہ پاکستانی حکومت اور بین الاقوامی اداروں کے ایڈز کے متعلق اعداد و شمار میں فرق پایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ 20 ہزار افراد ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں جن کی 30% تعداد میں غیر ملکی خصوصاً خلیجی ممالک سے آئے ہوئے افراد شامل ہیں۔ خلیجی ممالک میں جب کوئی غیر ملکی پہلی دفعہ کام کرنے کے لئے داخل ہوتا ہے تو اس کا میڈیکل چیک اپ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگر وہ 20 سال تک بھی وہاں قیام پذیر رہے اس کا طبی معائنہ کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ہے۔
مشرق وسطیٰ یا مڈل ایسٹ میں انسانی سمگلنگ
مذکورہ بالا دونوں الفاظ اکثر ابہام پیدا کرتے ہیں ۔کیا یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں یا الگ الگ جگہوں کے نام ہیں؟۔ اس پر ابھی تک بحث جاری ہے ۔ مڈل ایسٹ ایک جغرافیائی تصور ہے۔ بعض مصنفین نے مڈل ایسٹ کو وہ علاقہ قرار دیا ہے جو مصر کی مغربی سرحد تک مغرب کی طرف اور مشرق کی طرف ایران کی مشرقی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک دوسری تعریف میں شمالی افریقہ سے پاکستان کے مغربی پہاڑوں تک پھیلے ہوئے علاقے کو مڈل ایسٹ کہا جاتا ہے ۔کچھ لوگوں نے عرب لیگ کے ممالک کو عرب دنیا کہا ہے جس میں بائیس ممالک شامل ہیں۔ عرب دنیا کے مرکزی ممالک عرب لیگ کے بانی چھ ممالک کو کہا جاتا ہے۔ ان میں مصر، عراق، اردن، لبنان، سعودی عرب اور شام شامل ہیں۔ ان چھ ممالک نے 1945ء میں عرب لیگ کی بنیاد رکھی۔ دیگر ممالک جوں جوں آزادی حاصل کرتے گئے لیگ میں شامل ہوتے گئے۔اس ترتیب کے حوالے سے یمن، تیونس، لیبیا، سوڈان، مراکو، کویت، نائیجیریا، بحرین، یو اے ای، قطر، عمان، موریطانیہ، صومالیہ، فلسطین، ڈجبوئی اور کومورس شامل ہیں۔ البتہ یہ بات قابل بحث ہے کہ کیا ان علاقوں میں تمام لوگ عرب قوم ہیں؟ مثال کے طور پر شمالی افریقہ اور تیونس کے باشندے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ وہ باربر ہیں عرب نہیں ۔اسی طرح دیگر عرب دنیا کے مختلف علاقوں میں نسلی امتیازات پائے جاتے ہیں۔
لہٰذا مڈل ایسٹ ایک متنازع اصطلاح ہے۔ یہ افریقہ اور یورپ کی طرح ایک مخصوص جغرافیائی اکائی نہیں ہے اور نہ ہی یہ یورپی یونین کی طرح ایک معاشی یا سیاسی الائنس ہے۔ دراصل یہ اصطلاح برطانوی دور کی ہے جب اس خطے کے اکثر ممالک برطانیہ کی کالونیاں ہوا کرتے تھے۔ مڈل ایسٹ کے الفاظ1902ء میں پہلی دفعہ برٹش جرنل ’’نیشنل ویو‘‘ میں ’’الفریڈ تھائر ماہان‘‘ نے اپنے ایک آرٹیکل ’’خلیج فارس اور بین الاقوامی تعلقات‘‘ میں استعمال کیے۔ بعد ازاں ایک صدی تک یہی الفاظ لکھنے اور پڑھنے میں استعمال ہوتے رہے۔ مڈل ایسٹ کے الفاظ کو ’’لندن ٹائمز‘‘ کے تہران میں نمائندے ویلنٹائن کیرول نے بھی بہت استعمال کیا جس سے یہ عام استعمال ہونے لگے۔ آج عرب دنیا اور دیگر بین الاقوامی ادارے ا سے ایک جغرافیائی اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس اصطلاح کی جغرافیائی تعریف سے بھی اختلاف کیا جاتا ہے۔ اردو میں اسے مشرق وسطیٰ کہا جاتا ہے۔ مڈل ایسٹ یا عظیم مڈل ایسٹ کی اصطلاح کو اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں مغربی افریقہ میں موریطانیہ تک پھیلے ہوئے علاقے اور عرب لیگ کے تمام شمالی افریقی ممالک اس میں شامل ہوں گے ’’انسائیکلو پیڈیا آف ماڈرن مڈل ایسٹ‘‘ کے مطابق بحیرہ روم کے جزائر مالٹا اور سائرس بھی اس میں شامل ہیں۔ سیاسی طور پر مشرق کی جانب پاکستان تک مڈل ایسٹ میں شامل ہیں کیونکہ اس کے افغانستان کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ اسی طرح سابق سوویت یونین کی جنوب اور جنوب مغربی ریاستیں، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، آرمینیا، ترکمانستان اور آذربائیجان کو مڈل ایسٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان ریاستوں کے مڈل ایسٹ کے ساتھ ثقافتی، تاریخی، نسلی اور خصوصاً پختہ مذہبی تعلقات استوار رہے ہیں ۔اس نام کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ برطانوی دور میں جب ہر چیز ان کے زیر اثر تھی تو انہوں نے بے شمار چیزوں، جگہوں اور شخصیات کے نام تبدیل کر دیئے تھے۔ کئی جگہوں اور چیزوں کے نئے نام رکھ دیئے ۔ایسے ہی لندن اور انڈیا کے درمیانی ممالک یا مقامات کو مڈل ایسٹ (مشرق کے درمیان) کا نام دیدیا گیا۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 26 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں