حضور نبی کریمﷺ کے اخلاقِ حمیدہ وعاداتِ کریمہ ۔۔۔۔!!!
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حضور نبی کریم ﷺکے اخلاق حسنہ کے بارے میں سورۂ قلم میں ارشاد فرمایا ترجمہ!اور بیشک آپ(ﷺ)اخلاق کے اعلٰی پیمانے اور مرتبے پر فائز ہیں۔( آیت نمبر 4)
ترے خُلْق کو حق نے عظیم کہا
تر ی خِلْق کو حق نے جمیل کیا۔۔۔۔۔۔!!!!!
آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی میں تمام مکارم اخلاق علی الوجہ الاتم موجود تھے اور آپ ﷺ قرآنی اخلاق و آداب کا مجسّم نمونہ تھے اسی لئے جب اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے آپﷺ کے خلق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کان خلقہ القرآن کہ آپ ﷺ کا خلق (اخلاق)قرآن ہے یعنی آپ ﷺ کے تمام اعمال و اقوال و افعال اور اخلاق وعادات قرآنی تعلیم کے عین مطابق تھے۔
حضور نبی کریم ﷺ کے اخلاق کی گواہی صرف قرآن مجید میں ہی نہیں بلکہ پہلی آسمانی کتب میں بھی موجود ہے،چنانچہ حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنھما سے ملا تو میں نے ان سے سوال کیا کہ مجھے "تورات"میں حضور نبی کریم ﷺ کے صفات کے بارے میں بتائیے،انہوں نے فرمایا ہاں! اللہ کی قسم! "تورات" میں بھی آپ ﷺ کی وہ بعض صفات ذکر کی گئی ہیں جو قرآن مجید میں مذکور ہیں چنانچہ قرآن مجید میں ہے (سورۂ احزاب آیت نمبر 45) اے نبیﷺ! یقینا ہم نے آپ ﷺ کو گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اسی طرح "تورات" میں بھی یہ صفات ذکر کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ اس میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ عرب لوگوں کیلئے قلعہ ہونگے،آپ ﷺ میرے بندے اور میرے رسولﷺ ہیں۔ میں نے آپ ﷺ کا نام متوکّل (اللہ تعالی پر بھروسہ کرنے والا) رکھا ہے،نیز اس میں آپ ﷺ کی یہ صفات بھی ہیں کہ آپ ﷺ نہ بد اخلاق ہیں اور نہ سخت مزاج ہیں اور نہ ہی بازاروں میں اونچی آواز سے بات کرتے ہیں اور بُرائی کا جواب بُرائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف اور درگذر کرتے ہیں۔(بخاری شریف 4837)
حضور نبی کریم ﷺ پر جب پہلی وحی الہی نازل ہوئی اور آپ ﷺ نہایت پریشانی کے عالم میں اپنے گھر تشریف لائے اور فرمایا:’’مجھے کپڑے اوڑھاؤ، مجھے کپڑا اوڑھاؤ۔‘‘ انہوں (ام المؤمنین سیدہ خدیجتہ الکُبریٰ رضی اللہ عنھا) نے کپڑا اوڑھا دیا دیا یہاں تک کہ آپﷺ کا خوف زائل ہو گیا تو آپ ﷺ نے اُمّ المؤمنین حضرت سیدہ خدیجتہ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا سے فرمایا اے خدیجہ رضی اللہ عنھا ! یہ مجھے کیا ہوا ہے ؟ ام المؤمنین رضی اللہ عنھا نے عرض کیا! ہرگز نہیں،آپ ﷺ کو تو بشارت ہو۔اللہ کی قسم! اللہ تعالی آپ ﷺ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا،اللہ کی قسم!آپ ﷺ تو صلہ رحمی کرتے ہیں،سچ بولتے ہیں،بوجھ برداشت کرتے ہیں،تہی دست کو کما کر دیتے ہیں ،مہمان نواز ہیں اور حق کے واقعات میں مدد کرتے ہیں۔(بخاری شریف کتاب بدء الوحی باب بدء الوحی 3- مسلم شریف الایمان 16،حدیث نمبر 403)
آغاز نبوت سے پہلے ہی حضور نبی کریم ﷺ لوگوں میں الصادق الامین کے لقب سے مشہور تھے،یعنی کفار و مشرکین بھی اسی بات کے معترف تھے کہ آپﷺ ہمیشہ سچ بولتے ہیں،امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں لوگوں سے صلہ رحمی سے پیش آتے ہیں۔نبوت ملنے کے بعد جب آپﷺ پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ترجمہ:اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب سے) ڈرایئے۔ (سورۂ شعرآء آیت نمبر 214) تو آپ ﷺ نے صفآء پہاڑی پر کھڑے ہو کر قریش کو پکارا،جب وہ لوگ آپ ﷺ کے پاس پہنچے اور آپ ﷺ نے فرمایا۔کہ اگر میں تمہیں اس بات کی خبر دوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے گھوڑ سواروں کی ایک فوج تم پر حملہ آور ہونے والی ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے ؟ سب نے بیک آواز کہا’ ہم نے آپ ﷺ کو ہمیشہ سچ بولتے ہوئے ہی پایا ہے۔‘(بخاری شریف 4770)
معاہدہ حدیبیہ کے دوران جب حضور نبی کریم ﷺ نے شاہ روم (ہرقل) کو ایک خط بھیجا جس میں اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تو اس وقت قریش کا ایک تجارتی قافلہ روم میں تھا،جس کے سربراہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے۔ ہرقل نے آپﷺ کا خط پڑھنے سے پہلے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور انکے دیگر ساتھیوں کو اپنے دربار میں مدعو کیا اور اُن سے آپ ﷺ کے بارے میں چند سوالات کیے،حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے(فتح مکہ کے دن آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا)لیکن انہوں نے شاہ ہرقل کو دیانتداری کیلئے جوابات دئیے اس کی سوالات میں اس سوال یہ بھی تھا کہ کیا تم نے نبوت سے پہلے کبھی آپﷺ پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی ؟ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں۔۔۔۔!شاہ روم نے پوچھا وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں۔۔؟ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ تم اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ۔اور تم اپنے آباؤ اجداد کی باتوں کو چھوڑ دو۔نیز وہ ہمیں نماز پڑھنے،سچ بولنے پاکدامن رہنے اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔شاہ ہرقل نے تمام سوالوں کے جوابات سن کر انکی توجیحات بھی پیش کیں اور کہا تم جو کہتے ہو کہ دعویٰ نبوت سے پہلے بھی کبھی انہوں نے جھوٹ نہیں بولا تو مجھے یقین ہے جب وہ لوگوں پر جھوٹ نہیں گھڑے تو اللہ تعالی پر بھی جھوٹ نہیں گھڑ سکتے۔اور باقی جو تم نے کہا وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ تم اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤاور تم اپنے آباؤ اجداد کی باتوں کو چھوڑ دو۔نیز وہ ہمیں نماز پڑھنے،سچ بولنے پاکدامن رہنے اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور تم نے جو کچھ کہا ہے اگر یہ سب برحق (سچ)ہے تو عنقریب وہ میرے اس تختِ سلطنت کے بھی مالک بن جائینگےاور مجھے یقین تھا کہ وہ تشریف لانے والے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہونگے۔ پس اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ میں آپ (ﷺ) تک پہنچ سکوں گا تو میں ضرور آپ (ﷺ) سے ملنے کی کوشش کرتا اور اگر میں آپ ﷺ تک پہنچ جاتا تو میں آپ ﷺ کے قدم دھوتا۔(بخاری شریف 7; 1773)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جو عرصۂ دس سال آپ ﷺ کی خدمت کرتے رہے وہ بیان کرتے ہیں ترجمہ ! آپ ﷺ نہ بُرا بھلا کہتے تھے،نہ بے ہودہ گفتگو کرتے تھے اور نہ لعنت بھیجتے تھے اور اگر آپﷺ ہم میں سے کسی کو ڈانٹنا چاہتے تو زیادہ سے زیادہ یہی فرماتے ؛ اسے کیا ہو گیا ہے اسکی پیشانی خاک آلودہ ہو.(بخاری شریف کتاب الادب ،2247، بخاری شریف6031) اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ تمام لوگوں میں سب سے اعلٰی و ارفع اخلاق کے حامل تھے، آپﷺ نے مجھے ایک دن کسی کام کے لئے بھیجا تو میں کچھ بچوں کے پاس سے گزرا جو کھیل رہے تھے ( تو میں اس کام جانے کی بجائے ان بچوں کیساتھ کھیلنے لگ گیا) اچانک آپ ﷺ تشریف لائے اور میرے پیچھے سے میری گردن کو پکڑ لیا ، میں نے آپ ﷺ کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ مسکرانے لگے ، اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے پیارے انس رضی اللہ عنہ! تم وہاں گئے جہاں میں نے تمہیں جانے کا حکم دیا تھا۔۔۔؟ میں نے عرض کیا جی اللہ کے رسول ﷺ! میں ابھی جا رہا ہوں ۔( مسلم شریف کتاب الفضائل، باب کان رسول اللہ ﷺ احسن الناس خُلقاً)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں کہ بے ہودہ گفتگو حضور نبی کریم ﷺ کی عادت نہیں تھی اور نہ ہی آپ ﷺ اسکی کوشش کرتے تھے اور آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اچھے اخلاق والا ہو۔(بخاری شریف6035,مسلم شریف 2321)ام المؤمنین حضرت سیدہ صفیہ بن حی رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے زیادہ اچھے اخلاق والا کوئی نہیں دیکھا ۔(قال الحافظ فی الفتح 6/757, اخرجہ الطبرانی فی الاوسط باسناد حسن)حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ فرما رہے تھے تم سلام کو پھیلاؤ،اور کھانا کھلاؤ،اور رشتہ داروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرو،اور رات کو اس وقت نماز (تہجد) پڑھا کرو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں اس طرح تم سلامتی کیساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ (ترمذی شریف 2485,ابن ماجہ 1334)
حضور نبی کریم ﷺ کے اخلاق کے مختلف پہلو
جود و سخاوت۔۔۔۔! حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا گیا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ نے سائل کو نہیں کہا ہو۔(بخاری شریف 6034)حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ سے اسلام قبول کرنے کی شرط پر جس چیز کا بھی سوال کیا جاتا آپ ﷺ عطا فرما دیتے حتی کہ ایک شخص آپﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے اُسے اتنی زیادہ بکریاں عطا فرمائیں کہ جو دو پہاڑوں کے درمیان خالی جگہ کو بھر سکتی ہیں،چنانچہ وہ شخص اپنی قوم کیطرف واپس لوٹا اور اس نے کہا، اے میری قوم!تم سب کے سب اسلام قبول کر لو کیونکہ (حضرت سیدنا) محمد (رسول اللہﷺ) اتنا عطا کرتے ہیں کہ جیسے انہیں فقر وفاقہ کا اندیشہ ہی نہیں ہے۔(مسلم شریف 2312)
صحیح مسلم میں ابن شہاب زہری رحمہ اللہ علیہ سے مروی ہےکہ رسول کریم ﷺ فتح مکہ کے بعد اپنے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کیساتھ غزوہ حنین میں پہنچے کفار سے جنگ ہوئی اللہ تعالی نے اپنے دین اور مسلمانوں کو غلبۂ عطا فرمایا اُس دن آپ ﷺ نے حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کو ایک سو چوپائے(جانور) دیئے ،پھر ایک سو دئیے ،پھر ایک سو دیئے۔ ابن شہاب رحمہ اللہ علیہ کا بیان ہےکہ ان سے حضرت سعید بن المسیب رحمہ للہ علیہ نے بیان کیا کہ حضرت صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم!مجھے رسول اللہ ﷺ نے اس وقت عطا کیا(جو کچھ عطا کیا) جب آپ ﷺ مجھے (نعوذ باللہ) سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھے،پھر آپ ﷺ مجھے بار بار دیتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺمجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہو گئے۔ (مسلم شریف 2313)
عاجزی و انکساری...!!
آپ ﷺ قائد المرسلین ،خاتم النبیین،سیدالاولین والاخرین ہیں لیکن اتنے بڑے مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود آپ ﷺ نہایت منکسر المزاج اور متواضع انسان تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں گُھل مل جاتے تھے،ہمیشہ اُن کے قریب رہتے تھے،آپ ﷺ اور انکے درمیان کوئی نہ تھا کہ جس کے ذریعے وہ آپ ﷺ تک پہنچتے بلکہ ہر شخص جب چاہتا،جہاں چاہتا آپ ﷺسے ملاقات کر لیتا۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سیدنا جبرئیل امین آپ ﷺ کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ اسی دوران ایک فرشتے کو آتے ہوئے دیکھا،حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے کہا کہ یہ فرشتہ جب سے پیدا ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں نازل ہوا، جب وہ آیا تو اس نے کہا! اے محمدﷺ! اللہ تعالی نے مجھے یہ پیفام دیکر بھیجا ہے کہ آپ ﷺ ایک بادشاہ نبی بننا چاہتے ہیں کہ ایک بندہ نبی بننا چاہتے ہیں ؟ تو جبرئیل امین علیہ السلام نے عرض کیا، اپنے رب کیلئے تواضع اختیار کیجیئے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا لاَ بَل عبدًا رسولًا نہیں میں بندہ رسول ہی بننا چاہتا ہوں (صحیح الترغیب والترھیب 3280, الصحیحہ للالبانی 1002)۔ حضور نبی کریم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے ،
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے دعا کی: ”یااللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں وفات دے اور قیامت کے روز مسکینوں کے زمرے میں اٹھا“، ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے دریافت کیا اللہ کے رسول ﷺ! ایسا کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس لیے کہ مساکین جنت میں اغنیاء سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے، لہٰذا اے عائشہ رضی اللہ عنھا! کسی بھی مسکین کو دروازے سے واپس نہ کرو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی سہی، عائشہ رضی اللہ عنھا ! مسکینوں سے محبت کرو اور ان سے قربت اختیار کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تم کو روز قیامت اپنے سے قریب کرے گا۔(ترمذی شریف2352)حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کمزور مسلمانوں کے پاس تشریف لاتے،ان سے ملاقات کرتے،ان میں جو بیمار ہوتا عیادت فرماتے اور جو فوت ہو جاتا اسکی نماز جنازہ پڑھاتے اور تدفین میں شرکت فرماتے تھے۔(المستدرک، الصحیحہ للالبانی 2112,) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب بچوں کے پاس سے گزرتے انہیں سلام کرتے اور فرماتے کہ آپﷺ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (بخاری شریف 6247)حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ انصار کو ملنے تشریف لے جاتے انکے بچوں کو سلام کہتے اور انکے سروں پر ہاتھ (دستِ شفقت) پھیرتے تھے۔( صحیح الجامع 4947)حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ جب نماز فجر پڑھ کر فارغ ہوتے تو مدینہ منورہ کے خادم اپنے برتن لیکر آجاتے جن میں پانی بھرا ہوتا،چنانچہ آپ ﷺ ہر برتن میں ( برکت کیلئے )اپنا ہاتھ ڈبوتےاور بعض اوقات سردیوں کے موسم میں پانی ٹھنڈا ہوتا تب بھی آپﷺ اپنا ہاتھ اس میں ڈبوتے۔(مسلم شریف 2324)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما بیان فرماتے ہیں کہ آپﷺ زمین پر بیٹھتے اور زمین پر ہی کھانا کھاتے،اور بکری کو باندھتے تھے اور جو کی روٹی پر ایک غلام کی دعوت کو قبول فرماتے تھے۔ (رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر،صحیح الالبانی فی الصحیحہ 2125)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو آپ ﷺ سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ تھا،اس کے باوجود وہ جب آپ ﷺ کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ (کھڑا ہونا) آپ ﷺ کو ناپسند ہے ۔(ترمذی 2752)
نوٹ! محبت رسول ﷺ کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم وہی عمل کریں جو آپ ﷺ کو محبوب ہو، جسکا آپ ﷺ حکم فرمائیں،چنانچہ ہمیں اطاعت واتباع والی زندگی بسر کرنی چاہیئے اور ہم ہر اپنے عمل میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین (جو رشد وہدایت کے مینارے ہیں) کے عمل کو دیکھیں کیونکہ انکا ایمان اور انکے اعمال ہمارے لئے معیار وحجت انکی پاکیزہ زندگیاں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔
آپ ﷺ کی رحمدلی۔۔۔۔!!!!
حضور نبی کریم ﷺ نہایت رحمدل،نرم مزاج اور ترس کھانے والے تھے۔سورۂ آل عمران میں اللہ تعالی کا ارشاد۔۔۔ترجمہ! آپ ﷺ اللہ تعالی کی رحمت سے ان کیلئے نرم مزاج ہیں،اور اگر آپ ﷺ تند مزاج اور سنگدل ہوتے تو وہ(لوگ) آپ ﷺ کے پاس سے چھٹ(اٹھ جاتے یا نہ بیٹھتے) جاتے۔ لہذا آپ ﷺانہیں معاف کر دیجیئے اور ان کیلئے مغفرت طلب کیجیئے۔اور معاملات میں ان سے مشاورت کیجیئے۔ (آیت نمبر 159)
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم چند ہم عمر نوجوان آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے بیس راتیں آپ ﷺ کے قیام کیا،پھر آپ ﷺکو گمان ہوا کہ جیسے ہم اپنے گھروالوں سے ملنے کا شوق رکھتے ہیں،چنانچہ آپ ﷺ نے ہم سے ہمارے گھر والوں کے متعلق معلومات لیں،ہم نے آپ ﷺ کو سب کچھ بتا دیااور چونکہ آپ ﷺ بہت نرم مزاج اور رحمدل تھے اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا تم اپنے گھر والوں کیطرف لوٹ جاؤ ،پھر انہیں بھی تعلیم دو اور میرے احکامات ان تک پہنچاؤ۔ اور تم نماز اس طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں کوئی شخص آذان کہے اور تم میں جو بڑا ہو وہ (نماز کی) امامت کرائے۔(بخاری شریف 6008, مسلم شریف 674)
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے مسجد کے کونے میں پیشاب کرنا شروع کیا اور لوگ اسکی طرف لپکے تاکہ اُسے ماریں، آپ ﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو اور اسکے پیشاب پر ایک ڈول پانی کا بہا دو۔بیشک تمہیں آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے نہ کہ تنگی پیدا کرنے والا بنا کر۔ (بخاری شریف 6128)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میں نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہوں تو میری نیت یہ ہوتی ہےکہ میں اسے لمبا کرو،لیکن جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کر دیتا ہوں،کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اس کے رونے کیوجہ سے اسکی ماں اس پر ترس کھاتی ہے۔(بخاری 709, مسلم 470)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کی دس سال خدمت کی،اس دوران آپﷺ نے مجھے اُف تک نہیں کہا،اور نہ یہ کہ تم نے یہ کیوں کیا؟ اور نہ یہ کہ تم نے یہ کیوں نہیں کیا۔۔۔۔؟ (بخاری 6038, مسلم 2309)
آپ ﷺ کا عفو و درگزر اور بردباری۔۔۔۔۔!
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں آپ ﷺکے ساتھ جا رہا تھا،آپ ﷺ نے ایک نجرانی چادر اوڑھ رکھی تھی جسکے کنارے موٹے تھے۔اچانک ایک دیہاتی بدو آیا اور اس نے آپ ﷺ کے چادر کو پکڑ کر اس قدر شدت سے کھینچا کہ میں نے اس کے نشانات آپ ﷺ کی گردن پر دیکھے،پھر اس بدو نے کہا اے محمد ﷺ! مجھے اس مال سے دینے کا حکم دیجیئے،جو اللہ تعالی نے آپﷺ کو دے رکھا ہے،آپ ﷺ نے اس کیطرف التفات فرمایا اور مسکرائے اور اسے مال دینے کا حکم فرمایا۔(بخاری 3149,مسلم 1057)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نجد کی جانب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنگ کیلئے نکلے۔پھر آپﷺ سے ہماری ملاقات ایسی جگہ ہوئی جہاں کانٹے دار درخت بہت زیادہ تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ ایک درخت کے نیچے اپنی سواری سے اترے اور اپنی تلوار اسکی ایک ٹہنی سے لٹکا کر سو گئے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم بھی ادھر ادھر بکھر گئے اور جہاں جس کو سایہ ملا وہ وہیں آرام کرنے لگا،پھر آپﷺ نے ہمیں بیان فرمایا کہ میں جب سویا ہوا تھا تو ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے میری تلوار اٹھائی،میں بیدار ہوا تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک ننگی تلوار سونتے ہوئے میرے سر پر کھڑا ہے،اس نے مجھ سے کہا،آپ (ﷺ) کو مجھ سے کون بچائے گا۔۔؟ میں نے کہا اللہ تعالی بچائے گا۔اس نے مجھ سے پھر کہا کہ آپ (ﷺ) کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے پھر بھی یہی کہا کہ مجھے اللہ تعالی ہی بچائے گا۔پھر اس نے تلوار نیام میں کر لی۔ اور دیکھو! یہ ہے وہ شخص۔۔۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ گ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے اسے کوئی سزا نہیں دی،(یعنی اسے معاف فرما دیا)۔
دوسری روايت میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جنگ ذات الرقاع میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، پس جب ہم ایک گھنے سائے والے درخت کے پاس آئے تو ہم نے اسے رسول اللہ ﷺ کے لئے چھوڑ دیا، مشرکین میں سے ایک شخص آیا اور رسول اللہ ﷺ کی درخت سے لٹکی ہوئی تلوار کھینچ لی اور کہا: تو مجھ سے ڈرتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: نہیں، اس نے کہا: تجھے آج مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ!‘‘ اور صحیح ابو بکر اسماعیلی کی روایت میں اس طرح ہے: دیہاتی نے کہا: تجھ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ، راوی کہتے ہیں ( اتنا سننا تھا) کہ کافر کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی، آپ ﷺ نے تلوار اٹھالی اور فرمایا: (تو بتلا) تجھے، مجھ سے کون بچاے گا؟، کافر کہنے لگا: آپ بہتر تلوار پکڑنے والے ہوئے (یعنی احسان کیجیے)، آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تو اس بات کی گواہی دیتاہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسولﷺ ہوں؟ اس نے جواب دیا : نہیں، البتہ میں آپﷺ سے عہد کرتا ہوں کہ میں آپﷺ سے لڑوں گا نہ آپﷺ سے لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔ آپ ﷺ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا، وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور کہا: میں تمہارے یہاں سب سے اچھے انسان کے پاس سے آ رہا ہوں۔۔(بخاری 2910;3913:4139 ، مسلم 843)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کے پاس کچھ یہودی آئے اور کہا السّام علیکم !(نعوذ باللہ) آپ (ﷺ) پر موت ہو، میں انکے الفاظ سمجھ گئی چنانچہ میں نے کہا (علیکم السّام واللعنتہُ) تم پر موت ہو اور لعنت بھی ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا،عائشہ (رضی اللہ عنھا) ٹھہر جاؤ(اور نرم رویہ اختیار کرو) کیونکہ اللہ تعالی ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا۔۔۔۔؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم نے نہیں سنا کہ میں نے (وعلیکم) کہہ کر ان کی بات کو انہی کی بات پر لوٹا دیا ہے۔(بخاری 6256, مسلم 2165) اللہ تعالی ہمیں حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العلمین ۔