ایل پی جی ،سوچ اور پرائس کنٹرول
اگر آپ خبر رکھتے ہیں اور نظر رکھتے ہیں تو آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ ایل پی جی (لیکویفائڈ پٹرولیم گیس) کی قیمت یکم اکتوبر 2013ءسے 3روپے فی کلو کم ہوئی۔اگر آپ ایل پی جی استعمال کرتے ہیں اور جرات اظہار بھی رکھتے ہیں تو ممکن ہے۔آپ نے ڈسٹری بیوٹر کو سنا دیا ہو کہ اعلان کے مطابق قیمت تو کم ہوئی، لیکن آپ کے ہاں قیمت فروخت وہیں کھڑی ہے، بلکہ آپ کنزیومر پرائس سے بھی زیادہ قیمت وصول کررہے ہیں اور 11.8کلو کے سلنڈر پر ایک سو تیس روپے زائد وصول کررہے ہیں۔ یقین کی حد تک گمان ہے کہ ڈسٹری بیوٹر نے آپ کی بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہوگا اور آپ کو رنگین جوابات کی پوٹلی تھما دی ہوگی۔ایک جواب ہوگا: ” ہمیں گیس کمپنی کی طرف سے مہنگی مل رہی ہے“۔ دوسرا جواب یہ ہوگا: ”جہاں سے سستی ملتی ہے ، وہاں سے لے لیں“۔ تیسرا جواب یہ ہوسکتا ہے: ”نوٹیفکیشن دکھاﺅ“۔ آپ نے اخبار کا حوالہ دیا تو جواب ہوگا: ”اخبار والے تو یونہی خبر لگا دیتے ہیں“۔
اگر آپ ذرا مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں اور آپ نے ڈسٹری بیوٹر سے ریٹ لسٹ طلب کی تو جواب ہوگا: ”ابھی کمپنی نے بھیجی نہیں“۔ آپ نے رسید طلب کی تو آپ کو بغیر مہر و تفصیلات کے صرف رقم لکھ کر پرچی تھما دی۔آپ جستجو کرتے متعلقہ معروف ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنی سے ریٹ دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ویب سائٹ پر نیو پرائس کا ٹائیٹل دیکھ کر آپ کلک کرتے ہیں تو وہاں جون 2013ءکی قیمتیں آپ کا منہ چڑاتی ہیں۔آپ ویب پر ”انکوائری فارم“ پُر کرتے ہیں تو کوئی جواب نہیں۔آپ کمپنی کے سینٹ جارج پارک لاہور کے پتے پر خط ارسال کرتے ہیں تو کوئی جواب نہیں۔آپ پندرہ روز کے بعد دوبارہ خط ارسال کرتے ہیں تو ”لاجواب“ قسم کا جواب بذریعہ فون دیا جاتا ہے،جو آپ کے سوال کا تو بہر صورت جواب نہیں۔آپ یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ”اس کمپنی کا تو جواب نہیں“۔ اب آپ مزید کرید کرتے ہیں اور اوگرا ویب سائٹ پر جا کردم لیتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ اگست و ستمبر 2013ءکی قیمتیں تو اپ لوڈ ہیں اور اکتوبر میں کمی کے بعد قیمتیں اپ لوڈ نہیں۔آپ اوگرا اور مارکیٹنگ کمپنیوں کی جوڑی کی عدم سلامتی کی دعا کرتے ہیں“۔یہ ساتھ لمحہ بھر بھی قائم نہ رہے“ وغیرہ کہہ کر دل کا غبار دھوتے ہیں....پھرآپ آخری کوشش کے طور اوگرا سے ای میل پر رابطہ کرتے ہیں، ایک آئی ڈی خراب ہے تو دوسرے آئی ڈی اور تیسرے آئی ڈی سے جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔آپ فون کا سہارا لیتے ہیں، دو تین ہاتھوں سے ہو کر آپ متعلقہ ڈائریکٹر کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ آپ اکتوبر 2013ءکی قیمت اور نوٹیفکیشن کا دریافت کرتے ہیں، وہ آپ کے ساتھ سفارت کاری کا سا انداز اختیار کرتا ہے اور آپ اس کی سفارت کاری و ضرب کاری کی تاب نہیں لا پاتے۔آپ سوچتے ہیں کہ مَیں نے ایک سو روپے کی خاطر مزید ایک سو روپے اور ایک سو منٹ ضائع کر لئے۔ پھر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کی جیب سے اچکا ہاتھ مارکر ایک سو روپے نکال لے تو آپ کیا کریں گے؟
اس سوچ میں آپ ابھی غوطے کھا رہے ہیں تو آپ کو یاد آتا ہے کہ آپ پاکستان کے 25ملین گھروں میں سے ان 4.3ملین میں شامل نہیں، جو سوئی گیس کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔آپ کو ایک سو روپیہ لاکھوں سے ضرب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔آپ کے ہاتھ میگنیفائنگ گلاس آ جاتا ہے، اب منافع کا ہاتھی آپ کے سامنے ہے۔آپ ڈر جاتے ہیں۔شیر کو آواز دیتے ہیں، لیکن چیف منسٹر کے دائیں جانب چین کے سولر پینل اور بائیں جانب ترکی کی بسیں ہیں، انہیں بھی فرصت نہیں۔آپ سوچتے ہیں کہ اگر کنزیومر کورٹس کی تعداد بڑھ جائے تو شاید مسئلہ حل ہو جائے۔آپ سوچتے ہیں کہ اگر چند کروڑ اوورچارجنگ اور زائد قیمت کے مرض کے خاتمے کے لئے صرف کر دیئے جائیں تو مہنگائی کے بھیڑیئے کی تین ٹانگیں تو ٹوٹ جائیں گی۔آپ سوچتے ہیں کہ اگر پٹرول پمپ پر، ایل پی جی سلنڈر شاپ پر، ریٹیل سٹور پر، آٹو سٹور پر ،بیکر پر اوورچارجنگ نہ ہو تو ہر ماہ سفید پوش کو بچے کے دودھ خرچ کے برابر رقم کی بچت ہوجائے، لیکن غریب کا بچہ دودھ کیوں پیئے؟
یک بیک آپ کو یاد آتا ہے کہ ایل پی جی کے کوٹہ کی غیر شفاف تقسیم کے بارے میں ایک کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ خواجہ آصف نے یہ کیس دائر کر رکھا ہے۔آپ کو یہ بھی یاد آتا ہے کہ ابھی تو ایل پی جی آٹو گیس سٹیشنز شروع کرنے کے منصوبے ہیں،پھر کار اور ویگن بھی اس پر چلے گی۔آپ کو یاد آتا ہے کہ اب سردی آئے گی ،ساتھ ہی سرد مہری بھی آئے گی۔درجہ حرارت کم ہوگا اور گیس کی قیمتیں بڑھیں گی۔ ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیز اور ڈسٹری بیوٹرز کی چاندی ہوگی اور عوام باندی ہوگی۔آل پاکستان ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان اخباری بیانات میں گیس مافیا کو منافع خوری کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔آپ سوچتے ہیں کہ ”گیس مافیا“ شاید گیس کی مانند بے رنگ و بے شکل ہے، دکھائی نہیں دیتا، پکڑائی کیسے دے گا“۔ ٭