قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 95
فطرت صاحب کے ایک بیٹے کا نام نسیم سحر ہے۔ وہ بہت زرخیز طبیعت رکھتے ہیں۔ یہ ایک مدت سے سروس کے سلسلے میں سعودی عرب میں ہیں لیکن وہاں بھی فطرت صاحب کے مزاج کے مطابق وہ شعرو ادب کی جوت جلائے ہوئے ہیں ۔ خود بھی شعر کہتے ہیں اور مشاعروں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ وہ وہاں کی ادبی سرگرمیاں لکھ کر پاکستان اور ہندوستان کے پرچوں میں چھپواتے بھی ہیں۔
فطرت صاحب ہی نے راولپنڈی میں ایک مشاعرہ کروایا تھا جسے ہم آل انڈیا مشاعرہ تو نہیں کہہ سکتے لیکن اس میں پنجاب اور سرحد کے بیشتر شعراء شریک ہوئے تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب قیوم نظر اور یوسف ظفر کا نام ایک ساتھ آتا تھا۔ جیسے دونوں جڑواں بھائی ہوں۔ ان کے نام لازم و ملزوم تھے اور مشاعروں میں بھی جب وہ جاتے تھے تو ایک ساتھ ہی جاتے تھے۔ قیوم نظر صاحب نے ہیئت کے بہت خوبصورت تجربے کئے ہوئے تھے اور یوسف ظفر صاحب نظموں کے علاوہ خوبصورت غزلیں کہہ رہے تھے۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 94 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خرابی یوسف ظفر صاحب میں یہ تھی کہ وہ نروس بریک ڈاؤن کے شکار تھے اور جب مطلع کہنے پر انہیں داد نہیں ملتی تھی تو وہ باقاعدہ بے ہوش ہو کر نیچے گر پڑتے تھے ۔ ان کے سنبھالنے کا دوستوں کو پہلے اہتمام کرنا پڑتا تھا اور دوست مل کر انہیں مطلع پر پہلے خوب داد دیتے تھے جس کے بعد وہ آگے چل نکلتے تھے اور قیوم نظر صاحب کا تھوڑا سا زور تو ہیئت کے لیے تجربوں پر ہوتا تھا اور تھوڑا زور دوسری جدتوں پر ہوتا تھا اس لیے وہ داد لے ہی جایا کرتے تھے۔ نجی محفلوں میں تو ان کا یہ حال تھا کہ وہ پیروڈی اور جملہ بازی خوب کرتے تھے اور محفل کی جان بن جاتے تھے۔
یہیں سے میرے دونوں حضرات سے تعلقات بنے۔ یوسف ظفر صاحب کا تو بعد میں زندگی کا رویہ بدلا اور وہ زندہ دلی سے سنجیدگی کی طرف بھاگ نکلے اور حج کے بعد ان کی کیفیت یہ تھی کہ وہ اٹھتے بیٹھتے صرف حج کے آس پاس کی باتیں کرتے تھے۔ انہوں نے داڑھی بھی بڑھائی تھی اور کچھ معجزاتی سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا۔ لیکن قیوم نظر صاحب اب بھی بہت خوش باش ہیں۔ خدا انہیں زندگی دے ۔ اب ذرا کمزور سے ہیں لیکن وہ ہمیشہ ہی بہت زندہ دل اور جملہ باز رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے دو جوان بیٹے ان کے سامنے لقمہ اجل بنے۔ خدا ہی جانے کہ انہوں نے غم کے اتنے طوفان اپنے اندر کس طرح چھپائے اور اوپر سے ہنستے رہے۔
حب ان کا بیٹا سلمان سمن آباد لاہور میں حادثے کا شکار ہوا تو ان کی طرف گیا۔ وہ ہنس کر کہنے لگے’’ یا ر قتیل میں تو ڈھیٹ ہو گیا۔ دیکھ لو بیٹے مر رہے ہیں اور میں زندہ ہوں ۔ اور ڈھیٹ ہو گیا ہوں‘‘ یہ سب کچھ کہتے ہوئے وہ رہ نہیں رہے تھے لیکن میں ان کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔ میرا ایک مصرع ہے ۔
جو پلکوں پر نہیں آتا وہ آنسو دل پہ گرتا ہے
میرا خیال ہے کہ آنسوؤں کی ایک ایک برسات ان کے دل پر گر رہی تھی لیکن ان کے چہرے کی وضع داری وہی تھی۔
پیروڈی کہنے میں قیوم نظر کو جو کمال حاصل تھا اس کی ایک مثال سنئے۔ ٹی وی کا ایک مشاعرہ تھا ہم سب وہاں گئے تو شاعروں کو رائلٹی کے سلسلے میں ضیاء جالندھری کا رویہ زیر بحث تھا اور لوگ ان کے بارے میں عجیب عجیب ریمارکس دے رہے تھے۔ قیوم نظر نے کہا۔
خوش آگئی ہے ضیا کو جالندھری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے
انہوں نے علامہ اقبال کے ایک شعر کی پیروڈی کی تھی جس میں ضیاء صاحب کو لے آئے تھے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا ۔ وہ بھی جالندھر کے تھے اور یہ بھی جالندھر کے تھے۔ اس پس منظر میں ان کی اس پیروڈی نے جو لطف دیا وہ آج تک لوگوں کو یاد ہے۔
قیوم نظر اب کراچی میں ہیں اور سنا ہے کہ بہت مضمحل ہو چکے ہیں اور جسم میں رعشہ بھی آچکا ہے ۔ ظاہر ہے کہ پتھر کے نہیں بلکہ گوشت پوست کے انسان تھے اور دو جواں سال بیٹوں کی ناگہانی موت کے جو دو بھونچال ان کے اندر آئے انہوں نے ان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اب وہ کہاں تک ان زلزلوں کا مقابلہ کرتے ۔ ان کے اندر جو دراڑیں پڑ چکی تھیں ان سے ان کے جسم نے بھی متاثر تو ہونا ہی تھا۔ روح کے زخم تو چھپائے جا سکتے ہیں لیکن جسم پر ہونے والے صدمات کے اثرات کو نہیں چھپایا جا سکتا۔
مجھے قیوم نظر صاحب سے ملے بہت عرصہ ہو گیا ہے ۔ان کی یہ حالت سننے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ان کی زندہ دلی میں کوئی فرق نہیں آیا ہو گااور اگر اب بھی میں ان سے ملنے وہاں جاؤں تو شاید آج بھی وہ اسی طرح کوئی جملہ یا لطیفہ سنائیں اور ان کے چہرے پر اسی طرح کوئی مسکراہٹ ہو۔
جس زمانے میں قیوم نظر اور یوسف ظفر کا نام گونج رہا تھا اس زمانے میں ان کے ایک تیسرے ساتھی عبدالمجید بھٹی تھے جو ان کے سینئر تھے اور جن کی عزت بھی کی جاتی تھی۔ ان سے میری ملاقات بھی فطرت صاحب کے مشاعروں میں ہوئی اور ان سے ایک تعلق خاطر قائم ہو گیا۔ میں نے بھٹی صاحب سے جو کچھ سیکھا وہ محنت ، لگن اور جنون تھا۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 96 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں