سیرت النبیؐ کی پیروی میں فلاح ہے
رسول اللہ ، محسن انسانیت، خاتم النبین ، سروردوعالم محمد عربیؐ کی حیات طیبہ ہر اس انسان کے لئے اسوہ حسنہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔اس سرچشمہ سے بے خطا رہنمائی مل سکتی ہے اور یہی دارین کی سعادت کا ذریعہ ہے۔اس دارفانی میں بڑے بڑے اہل فکر ،دانش وراور مصلحین پیدا ہوئے، لیکن آپ جیسا ہمہ صفت کامل راہنما نہیں مل سکا۔تاریخ کے ہر دور اور ہر قوم میں اللہ کے رسول آئے اور انسانیت کو راہ ہدایت دکھاتے رہے۔دنیا کو آخری نبی کی آمد کا صدیوں سے انتظار تھا۔ رسول اللہ حضرت محمدؐ کی بعثت سے یہ طویل انتظار ختم ہوا۔آپ سلسلہ رسالت کی آخری کڑی ثابت ہوئے اور رحمۃ اللعالمین بنا کر مبعوث کئے گئے ، آپ کی شریعت آخری شریعت قرار پائی۔اس نے سب سابقہ شریعتوں کو منسوخ کر دیا۔اب آپ کی راہنمائی ہی سب کے لئے اور تاقیامت ہے۔آپ کا ارشاد ہے: ’’اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے ،تو انہیں میری اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔‘‘
تاروں سے کہہ دو کوچ کریں ،خورشید منور آتے ہیں
قوموں کے پیمبر آتو چکے اب سب کے پیمبر آتے ہیں
ماہ ربیع الاول رسول اللہ ؐ کی ولادت اور وصال کا بھی مہینہ ہے۔آپ پوری انسانیت کے لئے تاقیامت اسوۂ کامل اور تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔ اللہ کے تمام پیغمبروں نے اللہ کے دین کی دعوت دی، لیکن آپ پیامبر دعوت کے ساتھ ساتھ پیغمبر انقلاب بھی تھے۔آپ نے عملاً وہ انقلاب برپا کر دیا جس کی مثل تاریخ انسانی میں نہ پہلے تھی نہ آئندہ ہو گی۔رسول اللہؐ سے اْمتیوں کے عشق و محبت سے مراد فقط جذبات عقیدت و ارادت نہیں ،تقلیدو اتباع بھی اس کا ضروری جزو ہے۔ رسول اکرمؐ کی تعلیمات سے پوری طرح فیض یاب ہونے کے لئے آپؐ کی زندگی کو چراغ راہ بنانے اور آپ کی روحانی واخلاقی اور عملی خوبیاں اخذ کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔کتاب و سنت اساس دین ہیں۔رسول اللہ کی ولادت باسعادت اور حیات طیبہ ہماری راہنمائی کرتی ہے۔
رسول اللہ کے نظام تربیت میں آپؐ کے اْمتیوں کے لئے اخلاق و کردار کی سربلندی ،اْخروی آبیاری و نشوونما کا پہلا زینہ ہے۔سیدنا ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر رسولؐ اللہ نے فرمایا :’’میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں۔ان کے بعد تم ہر گز گمراہ نہیں ہو گے، وہ دو چیزیں ہیں :اللہ کی کتاب اور میری سنت۔یہ دونوں جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ وہ حوض کوثر تک آئیں گی۔‘‘ یہ قرآن و سنت ہی ہے جن کو مضبوطی سے تھامے رہیں گے تو راہ راست سے نہیں بھٹک سکتے۔ یہ دونوں دین کے بنیادی مآخذ ہیں۔یہ ہدایت کے وہ سرچشمے ہیں جن سے قیامت تک راہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی اور اختلافات میں رجوع کیا جاتا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے رسول اللہ کی اطاعت کو بھی لازم قرار دیا ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ،اطاعت کرو اللہ اور اطاعت کرورسول کی اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔‘‘ (محمد:32)۔ارشاد ہے کہ اللہ کے رسول کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔اس سے واضح ہوتاہے کہ کتاب اللہ کے ساتھ آپ کی سنت یا آپ کی تعلیمات ہی دین کی اساس ہیں۔دونوں کے ذریعے دین کی تکمیل ہوتی ہے۔ محمدؐ اللہ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔آپ کی رسالت تمام انسانوں کے لئے اور قیامت تک کے لئے ہے۔ اب نہ تو کوئی رسول آئے گا اور نہ ہی کسی سابق رسول کی اتباع جائز ہو گی۔جو شخص آپ کو رسول مانتا ہے، لیکن آخری رسول نہیں مانتا وہ حقیقت میں آپ کی رسالت کا آدھا اقرار اور آدھا انکار کر تا ہے اور یہ چیز انکار کے ہی ہم معنی ہے۔آپ کی رسالت کے دو جز و ہیں۔ایک آپ کا رسول ہونا اور دوسرا آپ کے ذریعے رسالت کا ختم ہونا۔قرآن کریم نے صاف اور واضح اعلان کر دیا ہے کہ رسالت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ آپ تک پہنچ کر ختم ہو گیا اور اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔۔۔۔’’لیکن آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں۔‘‘ (الاحزاب33:06)
ختم نبوت کا اعلان حقیقت میں اس بات کا اعلان ہے کہ آپ کی رسالت عالم گیر رسالت ہے۔آپ صرف اس دور کے پیغمبر نہیں جس میں آپ پیدا ہوئے ہیں، بلکہ ہردور میں آپ کی اتباع فرض ہے۔حق غلبے کے لئے اور باطل مٹنے کے لئے ہے۔آج کے دور میں انسانوں کو غلام بنانے کے انسانی نظام ناکام ہیں ، دعوت دین اور اسلام کے کامل ضابطہ حیات ہونے سے زندگی کے ہر شعبے میں راہنمائی بالکل عیاں ہو رہی ہے۔ اسی لئے مغربی مفکرین ،پالیسی ساز، لادینیت کے پرچار ک پر یشانی کے عالم میں عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر حملہ آور ہیں ،توہین وتضحیک کا ہر حربہ استعمال کیاجا رہا ہے، لیکن اہل ایمان بے شمار کمزوریوں اوربے عملی کے باوجود رسول اللہؐ کے عشق و محبت سے سرشار ہیں۔
اس لئے ان شیطانی حربوں کے سدباب کے لئے احتجاج ،قوانین کی حفاظت ،عالمی قوانین میں ترامیم کے ذریعے تحفظ کی کوششیں ناگزیر ہیں۔راہ نجات صرف آپ کی پیروی میں ہے۔جو شخص بھی اللہ تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ رحمت اللعالمین و خاتم النبیین کی بتائی ہوئی راہ پر استقامت سے عمل کرے۔اْمت رسول اللہؐ کی آج دنیا میں کثیر تعداد ہے، لیکن ’’وہن ‘‘کی بیماری نے اسے ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ اْمت کاشیرازہ بکھرا ہواہے۔ کشمیر ،فلسطین ، شام ، یمن ، عراق ، افغانستان اور میانمار میں مسلمان انتہائی کسمپرسی اور مظلومیت کاشکار ہیں۔ عالم اسلام عموماً اوراس کی قیادت خصوصاً ہر سطح پر بے حسی اورلاپروائی کا شکار ہے ، جبکہ استعمار اور ملت کفر متحد ہو کر اْمت رسول اللہؐ پر حملہ آور ہے۔
پاکستان عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز ہے، اسے اللہ نے ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔اقامت دین کے تمام اشاریئے بھرپور طاقت کے ساتھ موجود ہیں، لیکن غربت ، ذلت ، بد اخلاقی و بے حیائی ، قومی وسائل کی لوٹ مار اورکرپشن غالب ہے۔ کلمۂ توحید کی بنیاد پر قائم ہونے والی جس مملکت خداداد کو مثالی اسلامی ریاست ہونا چاہیے تھا، وہ آج تنزلی کی بدترین سطح پر ہے۔ قیام پاکستان کے لئے دی جانے والی پاکیزہ قربانیوں کو بھی فراموش اور ملیا میٹ کردیا گیاہے۔ رسول اللہؐ نے انسانوں کے بگڑے ہوئے معاشرے میں دعوت دین اوراللہ کی توحید کو عام کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو مخالفتوں کا آغاز ہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی گئی، آپؐ اور اصحاب رسول اللہ کو ناقابل بیان اذیتیں پہنچائی جانے لگیں، حضرت بلالؓ کو تپتی ریت پر لٹایاجاتا،حضرت عمارؓ پر اس قدرظلم و تشدد کیاگیا کہ زبان سے اللہ واحد کا نام لینا مشکل ہو گیا، ان کے والد یاسر کو بڑی آزمائش اور اذیتوں کا سامنا رہا،
ان کی والدہ سمیہؓ کو ابو جہل نے خنجر مار کر ہلاک کر دیا ، حضرت خبیبؓ کو انگاروں پر لٹا دیاجاتا۔پوری پیٹھ پر آبلے پڑجاتے اور جسم کے بوجھ سے آگ ٹھنڈی ہوجاتی۔ خود رسول اللہؐ کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھا گیا۔ہجرت حبشہ، شعب ابی طالب میں محصوری ، طائف کا سفر، حالات خراب سے خراب تر ہونے لگے، لیکن رسول اللہؐ نے اپنی سعی و جہد جاری رکھی تاآنکہ ہجرت مدینہ کا مرحلہ آگیا۔ کفار نے دعوت دین اور اہل دین کو مٹانے کے لئے طاقت ، قوت ، ترغیبات اورجنگوں کا تسلط کیا،لیکن یہ پاکیزہ جدوجہد جاری رہی، عظیم کامیابی کی منزل 6ہجری میں فتح مکہ کی صورت میں حاصل ہوئی۔
اس عظیم واقعہ فتح مکہ سے کفر شکست کھا گیا ، ہتھیار ڈال دئیے گئے اور سارا عرب زیر نگین آگیا۔آج بھی اقامت دین ، نظام او رقیادت کی تبدیلی کے راستے میں عالمی استعمار ، لادین قوتیں مال و دولت اور طاقت کے ساتھ ہر رکاوٹ کھڑی کر رہی ہیں،مایوسی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار اورافکار کو ذرائع ابلاغ مادرپدر آزادی ،اباحیت اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کا شکار کیاجا رہا ہے۔رسول اللہؐ کے اسوہ سے صرفِ نظر کرکے نہیں، بلکہ مکمل تقلید اور سنت نبوی کی پیروی سے ہی قسمت سنور ے گی اور حالات بدلیں گے۔اسی کے نتیجے میں ہم رحمت ایزدی کے امیدوارہوں گے۔ ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کو بھی بدلنا ہوگا۔
رسول اکرم ؐ کی روحانی اور اخلاقی خوبیوں کاتذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی تقلید بھی کی جائے تب در کھلے گا۔ محض لباس اور وضع قطع کابدلنا ہی مطلوب نہیں اور نہ ہی روایتی مسلمانوں کی طرح اخلاق نبوی سے فقط ایک دو باتیں اخذ کرکے اسوۂ نبویؐ اور تعلیمات اسلامی سے بالکل بیگانگی برتی جائے، بلکہ رسول اللہؐ کی زندگی کے تمام پہلوؤں اور اْن کی ساری روحانی اور اخلاقی خوبیوں کا مکمل اتباع ہونا چاہیے۔ قول وفعل اور گفتار و کردار میں، رسول اکرم ؐ کا ایمان کامل، تدبر، حلم، حوصلہ، استقلال، جہدِ مسلسل، انصاف پسندی ، بے لوثی اور استغنا جیسی خوبیاں مسلمانوں کو جزو زندگی بنانے کی سعی کرنی چاہیے۔
موجودہ دور اطلاعات ، ذرائع ابلاغ، جدیداور تیز ترین الیکٹرانک میڈیاکے ذریعے اخلاق ، کردار اور ذہنی یکسوئی کو ختم کرکے ہیجانی کیفیت مسلط کردینا چاہتاہے۔ اس صورت حال سے محفوظ رہنے اور اقامت دین کی ہمہ گیر جدوجہد کا مسلسل حصہ بنے رہنے سے ہی خلافت الٰہیہ کی بلندی پر ہم پہنچ سکتے ہیں۔ قرآن سے جڑ جائیں کہ مسلمانوں کے لئے سرچشمۂ ہدایت یہی کتاب ہے۔ قرآن نے ہی ملت اسلامیہ کی بنا رکھی ہے اور سنت رسولؐ نے اسے کامل عمارت کی شکل میں ڈھالا ہے۔ ملت اسلامیہ کے لئے سیرت رسول اللہ کی ہر لمحہ پیروی ناگزیر ہے۔