28بٹر فلائی ایفیکٹ

28بٹر فلائی ایفیکٹ
28بٹر فلائی ایفیکٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ستمبر 1918ء کو برطانیہ اور جرمنی کے درمیان جنگ جاری تھی کہ دورانِ جنگ برطانوی فوجی ہنری ٹینڈے کی گولیوں کی زد میں ایک جرمن نوجوان فوجی آ گیا، ہنری چاہتا تو اْس زخمی نوجوان کو بڑی آسانی کے ساتھ مار سکتا تھا، مگر ہنری نے اْس نوجوان جرمن فوجی کو جانے دیا، بعد میں اْس زخمی جرمن فوجی کو دنیا نے ایڈولف ہٹلر کے نام سے جانا، جس نے قریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کو موت کے گھاٹ اْتار کر دنیا کی تاریخ میں ہولوکاسٹ کی بنیاد رکھ دی۔ نظریہء شواش جسے انگریزی اصطلاح میں بٹر فلائی ایفیکٹ اور قیاس تھیوری بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل انتہائی معمولی اور غیر اہم وقوعہ ہے جس پر ابتدائی مراحل میں توجہ نہ دینے سے وہ زبردست انتشار پھیل سکتا ہے جس کے متعلق انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اتنی بڑی تبدیلی کے پیچھے اِس قدر غیر اہم اور معمولی اثر تھا۔ بٹر فلائی ایفیکٹ یا نظریہء شواش کی جانب سب سے پہلے ایک امریکی ریاضی دان ایڈورڈ لورینز نے توجہ دلائی۔ لورینز نے اپنی اِس تھیوری کو سمجھانے کے لئے تتلی کے پروں کی حرکت سے انتہائی معمولی سطح پر ہونے والی فضائی تبدیلی کی جانب اشارہ کیا کہ یہ معمولی فضائی تبدیلی بعد میں کہیں ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

بٹر فلائی ایفیکٹ یا نظریہء شواش محض ریاضی یا طبیعات کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کا ایک گہرا تعلق ہماری روزمرہ کی زندگی سے بھی ہے، یعنی زندگی میں کئے گئے ہمارے وہ انتہائی معمولی فیصلے، جن پر ہم بالکل بھی توجہ نہیں دیتے، وہی فیصلے کل کو ہمارے سامنے ایک بڑی بلا بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ سے معمولی فیصلے ہی ہمیں آگے لے کر جاتے ہیں۔


وہ فیصلے جن پر ہم گھنٹوں غور کرتے ہیں، اْن کا اثر عموماً بہت معمولی ہوتا ہے۔ نظریہء شواش سے آگہی کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ہم زندگی کے کسی بھی معاملے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کریں اور اپنے آس پاس،بالخصوص اپنے کئے گئے ہر ایک عمل پر گہرائی سے غور کریں، اگر ہم اپنی زندگی کو تھوڑا سا ریورس کرکے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کون سے انتہائی معمولی تخیلات و افعال تھے، جن کے مثبت یا منفی اثرات سے آج ہم گزر رہے ہیں۔ اس سیارے پر انسان کی ہر سوچ و عمل اور اِس کائنات میں ہونے والا کوئی انتہائی معمولی سا واقعہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ سب کچھ باہم مربوط ہے، یعنی انسان اور کائنات کا آپس میں زبردست تعلق ہے۔ گوتم بدھ نے کہا تھا کہ سوچ کے متعلق ہمیشہ محتاط رہو، کیونکہ آپ کی سوچ جلد یا بدیر ایک واقعہ بن کر آپ کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے اور نہ صرف آپ اپنی سوچ سے متاثر ہوں گے، بلکہ لاکھوں لوگ بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب کارل مارکس نے کہا تھا کہ سرمایہ دار سے اپنا حق زبردستی چھین لو تو اس کے لئے اشتراکیوں نے باقاعدہ اسلحہ تیار کیا،تاکہ سرمایہ دار سے لڑا جا سکے، وہی اسلحہ بعد میں غریب طبقے کے خلاف استعمال ہوا اور لاکھوں بے بس لقمہء اجل بن گئے…… پنسلین تو فلیمنگ الیگزینڈر نے بنائی تھی، مگر آج دنیا میں کوئی بھی ایسی جراثیم کْش دوائی نہیں ہے جس میں پنسلین کا استعمال نہ ہوتا ہو۔ایک انسان کی اپنے وقت میں انتہائی معمولی سی کوشش بعد میں پوری کائنات پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور ایسا ہوتا ہے، یہ کوئی سائنس فکشن نہیں،بلکہ ایک حقیقت ہے۔ اِس کائنات اور انسان کا ربط بہت گہرا ہے اور ہر انسان کا کسی دوسرے انسان سے تعلق بھی انتہائی گہری نوعیت کا ہے۔ رسالت مابؐ نے ایک چھوٹے سے دیہات میں چند مساکین کے ساتھ مل کر تحریکِ اسلام کا آغاز کیا تھا۔ آج دنیا بھر میں ایک اَرب اَسّی کروڑ لوگ اس تحریک کے ماننے والے ہیں۔ یہاں کچھ بھی معمولی نہیں ہے۔

آپ کا ہر عمل حتیٰ کہ آپ کی ہر ایک سوچ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ سکتی ہے اور یہ ایک ایسی دانش ہے کہ اگر انسان پوری توجہ کے ساتھ اس کو اپنے پلے باندھ لے تو اس سے پوری انسانیت کا بھلا ہو سکتا ہے،مگر ہم انسان یہی سمجھتے آئے ہیں کہ ہماری سوچ صرف ہماری ہے اور ہمارا کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انسان جس قدر بھی عزلت نشین ہو جائے، اس کی سوچ اور عمل یہ کائنات اپنے اندر محفوظ کر لیتی ہے اور پھر وقت آنے پر اْس سوچ یا عمل کو بروئے کار لاتی ہے۔ پس اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو ہمارا پورا معاشرہ بٹر فلائی ایفیکٹ کی بنیاد پر قائم ہے، انسان تو بہرصورت مر جاتا ہے، مگر اْس کی سوچ اور اْس کا انجام، دیا گیا عمل صدیوں تک جاری رہتا ہے، اگر ہم غور کریں تو آج کروڑوں انسانوں کا طرزِ عمل ہزار دو ہزار سال قبل کی سوچ اور نظریات کا جدید ورڑن ہیں۔ ہم جو کچھ بھی آج سوچ رہے ہیں، یہی کچھ صدیوں پہلے سوچا جا چکا ہے۔ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، ہزاروں سال قبل یہی کچھ کیا جا چکا ہے۔تبھی آج ہم ایسا سوچتے ہیں اور تبھی آج ہم ایسا کرتے ہیں۔

بھلے آج دنیا میں ہزاروں رنگ کے قمقمے روشن ہیں، مگر یہ سب تبھی ممکن ہوا، جب ایک مفلوک الحال ماہرِ طبیعیات تھامس ایڈیسن نے ایک انتہائی معمولی سی برقی قندیل ایجاد کرتے ہوئے اپنی آنکھیں گنوا دیں، سو آج ہم جس قدر بھی اعلیٰ ترین بلب ایجاد کر لیں، اِس جدید ترین ایجاد کو تھامس ایڈیسن کی کوشش سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ چمڑے پر درخت کی ہری ٹہنیوں سے لکھے گئے اشارات آج آئی پیڈ پر ٹائپ کئے گئے حروف سے اپنی ہیئت میں تو مختلف ہو سکتے ہیں، مگر چمڑے پر ہری ٹہنی سے اشارات کو آپس میں جوڑنے والے کی سوچ سے اس ایجاد کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بالکل یہی معاملہ پوری کائنات کا ہے۔ اِس کائنات میں ایک انتہائی معمولی سی فضائی اور خلائی تبدیلی، انسانی سوچ اور عمل کا زاویہ ارتقائی مراحل طے کرکے دنیا کی ہیئتِ مجموعی بدل دیتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -