سیمینار پاک سعودی تعلقات ، ماضی ، حال اور مستقبل
برادر اسلامی مملکت سعودی عرب کا 91واں یوم الوطنی دھوم دھام سے منایا گیا۔ سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں اس عظیم مملکت کے قومی دن کی پر وقار تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ پاکستان میں مرکزی تقریب اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں منعقد ہوئی جس کی میزبانی پاکستان علماء کونسل کے چئیرمین اور وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ امور حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کی۔ اُن کی سعودی عرب سے محبت و عقیدت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ ناصرف دونوں برادر اسلامی ممالک میں یکساں مقبول ہیں بلکہ ان کے دونوں ممالک کی اعلیٰ حکومتی شخصیات کے ساتھ جس نوعیت کے دوستانہ تعلقات موجود ہیں اُنہوں نے ہمیشہ ان تعلقات کو دونوں ممالک کے باہمی رشتے کو مضبوط بنانے کے لئے استعمال کیا۔
حافظ محمد طاہر محمود اشرفی صرف عرب حکمرانوں کے ہی قریب نہیں بلکہ عرب نوجوانوں میں بھی ان کی بے مقبولیت مقبولیت ہے، مکہ، مدینہ اور جدہ میں ، میں نے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ جونہی وہاں کے نوجوانوں کی نظر ان پر پڑتی وہ ان کے ساتھ سیلفی بنانے کے لئے کتنی تگ و دو کرتے، ان سے گفتگو کرتے ہوئے والہانہ محبت کا اظہار کرتے۔ حقیقت میں یہ اُن کے اعتماد کا اظہار ہی تو ہے اس بات پر ان کا یقین پختہ ہے کہ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی عالم اسلام کی عظیم مملکت سعودی عرب کے سچے اور مخلص دوست ہیں، اُنہوں نے ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کے حق میں توانا آواز بلند کی اور سعودی عرب کے خلاف اٹھنے والے پروپیگنڈوں کا بھرپور جواب دیا۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کا قومی دن آیا تو اسلام آباد میں سب سے بڑی اور پروقار تقریب کی میزبانی کا اعزاز انہیں نصیب ہوا۔
اس تقریب کے مہمان خصوصی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف الرحمٰن علوی تھے جبکہ دیگر مہمانان گرامی میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری، مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف، شہباز گل، پیر نقیب الرحمن، مولانا حامد الحق حقانی، مولانا سید یوسف شاہ، مولانا ضیا اللہ شاہ بخاری، مولانا محمد خان لغاری، علامہ طاہر الحسن، خالد شہزاد فاروقی، سید عزیز الرحمان شاہ ،مولانا اشفاق خان پتافی سمیت بڑی تعداد میں علماءومشائخ،مفکرین،دانشوروں ، اراکین پارلیمنٹ ، عرب اسلامی ممالک کے سفراء اور برطانوی ہائی کمشنر نے شرکت کی۔ سیمینار میں کمپیئرنگ کے فرائض محمد بلال طاہر نے ادا کئے انہوں نے نہایت پر اعتماد انداز میں اس بڑے ایونٹ کو احسن انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ پاک سعودی تعلقات، ماضی، حال اور مستقبل کے عنوان پر انعقاد پذیر اس سیمینار میں صدر مملکت اور وفاقی وزراء نے دونوں ممالک کے تعلقات کو جس طرح بیان کیا ان کی گفتگو کا ایک ایک حرف اخلاص و للہیت میں ڈوبا ہوا نظر آیا۔
خاص طور پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی گفتگو ہال میں بیٹھے ہر مہمان کے لئے بے حد متاثر کن تھی۔ انہوں نے پاک سعودی تعلقات کے جو زاویے تاریخ کے جھروکوں سے نکال کر پیش کئے انہیں سن کر اہل علم و دانش بھی ورطۂ حیرت میں ڈوبے دکھائی دئیے۔ ان کی تمام تر گفتگو میں حقائق ، صداقت اور دانشورانہ وجاہت کی جھلک نظر آئی اور ہال میں موجود تمام سامعین ان کی گفتگو کے ایک ایک لفظ کو اپنے دامن میں سمیٹ رہے تھے۔ انہوں نے سعودی عرب کو ہر پاکستانی مسلمان کا دوسرا گھر قرار دیتے ہوئے سعودی قیادت و عوام کو یوم الوطنی کی مبارکباد دی اور کہاکہ" پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات قیام پاکستان سے بھی قبل 1940ء سے اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ جب سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبدالعزیز آل انڈیا مسلم لیگ، قائد اعظم اور اصفہانی کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور ہر مشکل میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے تھے۔ 1960ء کے بعد پاکستان نے جس طریقے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعلقات قائم کئےدنیا کی تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی،دونوں ممالک کو مذہبی، ثقافتی و سماجی مماثلتیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے ہوئے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب ترقی و خوشحالی کا مشترکہ ویژن رکھتے ہیں۔ موجودہ دور حکومت میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان ، سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مشترکہ کاؤشوں سے دونوں ممالک کے تعلقات کا ایک نیا سفر شروع کیا۔ 1940ء میں دونوں ممالک کے درمیان جن باہمی تعلقات کی ابتداء ہوئی اب انہیں ایک نئے عروج پر پہنچائیں گے۔ ہمارا سعودی عرب کے ساتھ دل کا رشتہ ہے کیونکہ مکہ اور مدینہ وہاں موجود ہیں اور ہر مسلمان کا دل مکہ اور مدینہ سے جڑا ہوا ہے"۔
جس سرزمین پر میرے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ قدم رنجہ ہوئےاس کے ذرے ذرے سے پاکستانیوں کو دل و جان سے محبت ہے۔ صدارتی خطبہ کے ابتداء میں کہے گئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف الرحمٰن علوی کے اس جملے پر سامعین کی داد و تحسین ہی اہل پاکستان کی جانب سے اس جملے کی تائید تھی۔ بلاشبہ ہمارے دل مکہ اور مدینہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ہم اس سرزمین کے دفاع و سلامتی کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتے ہیں۔ اس کے استحکام کے لئے اللہ کی بارگاہ میں التجائیں کرتے ہیں۔ صدر عارف الرحمٰن علوی کے ایک جملے نے پاک سعودی تعلقات کی حقیقت کو پوری طرح کھول کر رکھ دیا تھا۔ صدر مملکت کی گفتگو میں ایک اور خوبصورت جملے نے پاک سعودی تعلقات کے مستقبل کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ان کا کہنا تھا کہ" ہمیں سعودی عرب کی سرزمین سے بھی محبت ہے اور وہاں بسنے والے لوگوں سے بھی محبت ہے اور یہ ایک مکمل محبت ہے ، جب تک کائنات باقی ہے یہ محبت بھی باقی رہے گی"۔ ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ "امت مسلمہ قیادت کیلئے پاکستان اور سعودی عرب کی طرف دیکھتی ہے، دونوں ممالک کی قیادت پوری دنیا کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، دونوں ممالک نے ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کا پہلا معاہدہ 1951ءمیں ہوا، سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کی دوستی کی طویل تاریخ ہے، پاکستانی سعودی عرب سے دلی محبت کرتے ہیں۔ جب ہمسایہ ملک کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس پر پاکستان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، اس موقع پر دوست ممالک نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ماحولیات سمیت دیگر شعبوں کے بارے میں بہترین ویژن رکھتے ہیں، سعودی عرب ویژن 2030ءتاریخی تبدیلی ہے، سعودی عرب میں نئے شہر قائم کئے جائیں گے، یہ بڑا منفرد کاروباری مرکز بنے گا"۔
سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی سیمینار میں موجود حاضرین کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے تھے، انہیں پاکستانی عوام میں جتنی مقبولیت حاصل ہے وہ کسی اور ملک کے سفیر کو حاصل نہیں۔ انہوں نے سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کو اہم اسلامی ملک قرار دیا، دونوں ممالک کے درمیان شاندار، دوستانہ، برادرانہ، سیاسی، فوجی، عوامی سطح اور بھارئی چارہ پر مبنی تعلقات کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی پاکستان سپریم کونسل کا قیام خوش آئند ہے، یہ کونسل دونوں ممالک کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات کی عکاس ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ "سعودی عرب کا قومی دن ہو اور پاکستان اور پاکستانی اپنی محبتوں کا اظہار نہ کریں یہ ناشکری ہوگی، حافظ محمد طاہر اشرفی نے اس موقع پر اس پروقار تقریب کا اہتمام کرکے فرض کفایہ ادا کردیا ہے"۔
تقریب کے میزبان اور وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ کیلئے خصوصی نمائندہ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے ابتدائیہ پیش کرتے ہوئےکہا کہ ہماری دینی اور سیاسی قیادت حرمین شریفین سے دلی لگاؤ رکھتی ہے، پاکستان اور سعودی عرب اچھے اور مشکل وقت کے دوست ہیں، اسلامی تعاون تنظیم عالم اسلام کی بھرپور نمائندگی کر رہی ہے،مسلم اُمہ کی بقاءاس کےاتحاد میں ہے، فلسطین، کشمیر اور افغانستان کی صورتحال پر دونوں ممالک کا موقف یکساں ہے، موجودہ حکومت ملکی خود مختاری، استحکام اور سلامتی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے"۔
گزشتہ دو سال سے کورونا کے باعث معمولات زندگی معطل ہوکر رہ گئے تھے الحمدللہ اب کرونا کا زور ٹوٹ رہا ہے اور رونقیں ایک بار پھر بحالی کی جانب بڑھ رہی ہیں، اس صورتحال میں اس تقریب کا انعقاد حوصلہ افزاء ہے۔ خدا کرے یہ عالمی وباء مکمل طور پر ختم ہوجائے اور حرمین شریفین کہ رونقیں بھی بحال ہوں تاکہ ہم ایک بار پھر بیت اللہ کی زیارت اور در حبیب مصطفیٰﷺ کی حاضری کا شرف حاصل کرسکیں ۔ آمین
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔