’’تایا آ گیا“ خوشی کی لہر دوڑ جاتی، ہم دوڑے جاتے اور قافلے کی شکل میں ان کو گھر لے آتے، سب جمع ہو کر اپنی اپنی منگوائی چیزوں پر قبضہ کر لیتے

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:46
علی الصبح دو تین بجے تایا نور محمد کی روانگی کا وقت تھا، وہ چپکے سے گاؤں سے نکل جاتے اور اپنا مقررہ روٹ اختیار کر لیتے، کوئی چھ سات بجے جب وہ فورٹ عباس پہنچتے تو سارے بازار کھل چکے ہوتے تھے۔ دوپہر تک وہ فرمائش کے مطابق خریداری کرتے اور سامان اکٹھا کرتے رہتے پھر دوپہر کو وہ ماموں عبدالحق کی آڑھت کی دکان پر بیٹھ کر گھر سے لائی ہوئی روٹی کھاتے اور سارا سامان ان کے گودام میں رکھ کر وہیں کسی چارپائی پر لیٹ کر دو گھڑی آنکھ لگا لیتے تاکہ گرمی کی شدت کچھ کم ہو تو وہ واپسی کا سفر اختیار کریں، آخر عصر کی اذان کے بعد وہ وہاں سے نکلتے اور عشاء تک گاؤں پہنچ جاتے۔ ان کا واپس آنا بھی ایک شاندار منظر ہوتا تھا، ہم بچے گاؤں سے باہر چاند کی چاندنی میں ریت کے ٹیلوں پر بیٹھے ان کا انتظار کرتے جب وہ نظر آتے تو ایک بچہ نعرہ لگاتا کہ ’’تایا آ گیا“ اور سب میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی، ہم ان کی طرف دوڑے جاتے اور ان سے چھوٹی موٹی چیزیں پکڑ لیتے اور ایک قافلے کی شکل میں ان کو گھر تک لے آتے، جہاں سب جمع ہو کر اپنی اپنی منگوائی ہوئی چیزوں کا معائنہ اور ان پر تبصرہ کر کے قبضہ کر لیتے۔ ہم بچے بڑے شوق سے اپنی کتابیں اور پنسلیں وغیرہ لے کر سنبھال لیتے تاکہ اگلے روز ساتھی بچوں کو دکھا کر داد وصول کی جا سکے۔ اس وقت سکول کی کتابوں پر مملکت خدا داد بہاولپور ریاست کا امتیازی نشان چھپا ہوتا تھا جس میں دو کو نجیں سینہ تانے آمنے سامنے کھڑی ہوتی تھیں۔ ان کو دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ہم رات کوبار بار اٹھتے اور ماچس جلا کر انھیں دیکھا کرتے تھے۔تب ڈاک کے ٹکٹ، سرکاری کاغذات اور نوٹوں پر بھی یہی کونجیں بنی ہوتی تھیں۔تایا کو کھانا کھلایا جاتا اور پھر وہ سب کو حساب کتاب اور بچے ہوئے پیسے دے کر اپنے گھر کی راہ لیتے۔یوں یہ خریداری کا دورانیہ جو تقریباً 20 گھنٹے پر محیط ہوتا تھا اپنے اختتام کو پہنچتا۔
آج جب میں گاؤں میں لوگوں کی فورٹ عباس کو آنیاں جانیاں دیکھتا ہوں تو اس وقت کی سختیوں کو یاد کر کے آنکھیں فرط جذبات سے ڈبڈبا اٹھتی ہیں۔ اس وقت کے لوگوں کی قربانیوں نے آج کل کے لوگوں کے لیے کیا کچھ نہیں کیا اور ان کی زندگی کتنی سہل بنا دی تھی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے گھر میں ایک خاص مہمان آیا ہوا تھا جس کی بہتر حیثیت کو نظر میں رکھتے ہوئے گوشت کھلانا ضروری طے پایا۔جس کیلئے بٹّھل ماموں کو ایک تیز رفتار سواری، یعنی اونٹنی دے کر روانہ کیا گیا کہ وہ فورٹ عباس سے کلو بھر گوشت لے آئے۔
اس نے بس آنا جانا ہی کیا تھا لیکن پھر بھی4گھنٹے بعد اس کی واپسی پر جب گوشت کو کھولا گیا تو وہ راستے کی سخت دھوپ اور گرمی برداشت نہ کر سکا تھا اور محلے میں خوشبو پھیلانے کی حسرت دل میں ہی لیے باہر کوڑے کے ڈھیر پر منتقل ہو کر مہمان کی بجائے کتو ں اور بلّیوں کی خوراک بنا، اور بدلے میں گھر کی ایک اور مرغی نے اس خاص مہمان کی خاطر اپنی جان ہار دی۔
شادی بیاہ
اس علاقے میں زیادہ تر لوگ مشرقی پنجاب سے آئے تھے اور آتے وقت وہاں کے رسم و رواج ساتھ لانا نہیں بھولے تھے، اس لیے شا دی بیاہ کی رسمیں بھی جہیز میں ساتھ ہی آئی تھیں۔شادی سے ہفتہ بھر پہلے سرگرمیاں عروج پر پہنچ جاتیں، گاؤں کی لڑکیاں کام کاج سے فارغ ہو کر رات کو شادی والے گھر جمع ہو کر خوب دھما چوکڑی مچاتیں، ڈھولکی نہیں ہوتی تھی، بس دو گروپ بن جاتے اور اپنی رنگ برنگی آوازوں میں نہ سمجھ آنے والے گانے گاتیں اور ہر مصرعے کے آخیر میں ایک لمبی سی ”ہے ہے اے اے۔۔۔“ضرور کرتیں،بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ گانا کم اور بین زیادہ ڈالے جا رہے ہیں۔ جب بڑا ہوا تو پتہ لگا کہ ان میں سے ایک گروپ لڑکے والوں کا اور دوسرا اس کے سسرالیوں کا بنتاہے، یہ گانوں ہی گانوں میں ایک دوسر ے کو طعنے دیتی اور ان کے لتے لیتی ہیں۔ اور پھر ان میں سے ایک دوتربیت یافتہ لڑکیاں کھڑی ہو جاتیں اور پنجاب کا روایئتی گدّا رقص شروع کر دیتیں اور رفتہ رفتہ اس میں اور لڑکیاں بھی شامل ہوتی جاتیں۔اس ساری اچھل کود میں سب سے بڑا اور آخری آئیٹم میری پھوپھی، جو اس مجمع کی رنگ لیڈر ہوتی تھیں،پیش کیا کرتی تھیں، وہ ایک زنانہ قمیض میں خاص تکنیک سے لمبے سرکنڈے ڈال کر اس کے اوپر بڑا سا اُپلا باندھ لیتیں اور اس پر بڑی سی پگڑی باندھ کر جب یہ سب کچھ سر پر اٹھاتیں تو گھپ اندھیرے وہ 9 فٹ کی ایک خوفناک چڑیل نظر آتی تھیں جس کو دیکھ کر بچے سہم جاتے اور محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ماؤں کی گود میں چھپ جاتے۔اسی حالت میں وہ ادھر ادھر بھاگتی پھرتیں،گھمن گھیریاں ڈالتیں اور ”فووأأ فو و و۔۔۔“کی آوازکے ساتھ ایک انتہائی غیر مؤثر اور دل دہلا دینے والا رقص کیاکرتی تھیں۔ اس دوران اس علاقے میں مردوں کا داخلہ قطعی ممنوع تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔