اس کے چہرے پہ دکھ کے سائے پھیلنے لگے”سب سے بڑی ضرورت انسپائریشن ہوتی ہے ذہنی و روحانی اذیتیں میسر آئیں تو فنکار کا زندہ رہنا دشوار ہو جاتا ہے“

 اس کے چہرے پہ دکھ کے سائے پھیلنے لگے”سب سے بڑی ضرورت انسپائریشن ہوتی ہے ...
 اس کے چہرے پہ دکھ کے سائے پھیلنے لگے”سب سے بڑی ضرورت انسپائریشن ہوتی ہے ذہنی و روحانی اذیتیں میسر آئیں تو فنکار کا زندہ رہنا دشوار ہو جاتا ہے“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:یاسمین پرویز
قسط:16
”فنکار کی سب سے بڑی ضرورت انسپائریشن ہوتی ہے۔“ اس کے چہرے پہ دکھ کے سائے پھیلنے لگے۔ لمحہ بھر کے توقف کے بعد وہ پھر اسی دکھ سے بولا ”مگر جب انسپائریشن کے بجائے ہر لمحہ ذہنی و روحانی اذیتیں میسر آئیں تو فنکار کا زندہ رہنا دشوار ہو جاتا ہے۔“
”معاف کیجیے گا جمال صاحب، فنکار اگر انسپائریشن یا سازگار ماحول کو فنی دنیا کے لیے ناگزیر قرار دے اور انہیں فنکار کی بنیادی ضرورت سمجھے تو وہ کبھی سچا فنکار نہیں ہو سکتا۔ یہ علیٰحدہ بات ہے کہ یہ باتیں فن کے نکھار میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔“
”مجھے آپ کے خیال سے اختلاف نہیں مگر جب ذاتی مسائل اس حد تک بڑھ جائیں کہ انسان کو ان کا حل خواب آور دوا میں نظر آنے لگے تو فنکار ایک عام آدمی کی نسبت اپنے آپ پہ زیادہ ظلم کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہ زیادہ باشعور، حساس، خود آگاہ اور باریک بیں ہوتا ہے۔ اس کے احساسات و جذبات بڑے نازک ہوتے ہیں۔ یہ علیٰحدہ بات ہے کہ خارج و باطن کے اس ٹکراؤ سے کوئی تو زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے اور کوئی ٹوٹ کر یوں ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے کہ پھر کبھی سمٹ کر ایک نہیں ہو سکتا اور یوں خارجی دنیا کے اس عدم تحفظ کے احساس کے پیش نظر اسے اپنے خول میں سمٹنا ہی اس مسئلے کا حل نظر آنے لگتا ہے۔“
”فرار کہہ لیجیے اسے، مگر فنکار کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خارجی اور داخلی دنیا کے مسائل کا حل خواب آور گولیوں میں ڈھونڈنے لگے۔“
”لیکن وہ اپنی ذات سے بیگانہ بھی تو نہیں ہو سکتا۔ وہ باقی انسانوں سے علیحدہ ہوتے ہوئے بھی علیحدہ نہیں۔“
”مگر وہ ان سے ممتاز ضرور ہے اور اپنی اسی حیثیت کو منوانے کے لیے اسے عام انسانوں سے زیادہ دکھ جھیلنے پڑتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے دکھ اپنی ذات کے حصار کو توڑ کر ساری کائنات پہ چھا جاتے ہیں۔ پھر نہ اپنا دکھ اپنا لگتا ہے اور نہ دوسروں کا دکھ دوسروں کا۔“ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ دوبارہ بڑے دکھ بھرے لہجے میں بولی ”جمال صاحب، کائنات میں پھیلے ہوئے دکھ کے اندھیروں کو دیکھ کر میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ انسان جوں جوں ترقی کی راہوں پہ گامزن ہوتا چلا جاتا رہا ہے، اس کے دکھ پھیلتے جاتے ہیں اور وہ روحانی سکون کی دولت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے دل میں زندہ رہنے کی امنگ ہوتے ہوئے بھی مرنے کی خواہش بڑھ رہی ہے۔ شاید اس لیے کہ ہم مسرت کی بنیاد روحانیت کے بجائے مادیت پہ رکھنے لگے ہیں، اور خواہش کا دامن پھیلا کر مسرت کو زیادہ سے زیادہ اپنے دامن میں سمیٹنا چاہتے ہیں لیکن جوں جوں مسرت سے دامن بھرتاہے، توں توں خواہش کا دامن وسیع ہوتا جاتا ہے اور یوں انسان بہت کچھ پا کے بھی اپنے آپ کو محروم سمجھتا ہے۔ یہ محرومی ہمیں محبت میں بھی بخل برتنا سکھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری روحیں محبت کی پیاسی ہیں۔ ہم انسان سے محبت کرنا بھول گئے ہیں اور اپنی غرض سے محبت کرنا سیکھ گئے ہیں۔“
وہ سوچنے لگا کہ ہر دم مسکرانے والی یہ لڑکی آج کتنے سنجیدہ روپ میں اسے ملی تھی اور کتنی اپنائیت سے وہ اسے اس کی گم شدہ ذات کا پتہ دے کر اس کی سوچ کو راہ دکھا رہی تھی۔
وہ راہبر تھی یا مسیحا، کہ اس کا دکھ اور اس کے زخموں کا علاج جانتی تھی۔
نہ جانے کتنی دیر، گفتگو کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔
جمال جب گھر لوٹا تو ثمینہ گھریلو کاموں سے فارغ ہو چکی تھی۔ اس نے کھانا کھایا اور خاموشی سے اپنے مطالعے کے کمرے میں چلا آیا۔
اس کے اندر کا فنکار آج مدت کے بعد بیدار ہوا۔ اس بیداری میں کسی سرشاری اور تسکین تھی!
رات کے پچھلے پہر ثمینہ کی آنکھ کھلی تو وہ اسے بیدار پا کر ناراضی سے بولی ”آج پھر آپ کے سر پہ لکھنے کا جنون سوار ہو گیا ہے خواہ مخواہ اپنی صحت اور وقت برباد کرنے کا کیا فائدہ ہے بھلا؟“
وہ یقینا ہمدردی کا اظہار کر رہی تھی اور جمال سوچ رہا تھا کہ کاش وہ اسے بتا سکتا کہ زندگی صرف فائدے اور نقصان کے چکر کا نام نہیں مگر وہ کس سے بات کرتا کہ ثمینہ تو سو بھی چکی تھی۔
اس نے میز کی دراز سے کاغذوں کا پلندہ نکالا، ترتیب دیا اور جھک کر لکھنا شروع کر دیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -