پیداوار،معیار اور تخلیق سے معیشت مضبوط کریں

پیداوار،معیار اور تخلیق سے معیشت مضبوط کریں
پیداوار،معیار اور تخلیق سے معیشت مضبوط کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزارت پلاننگ ڈویلپمنٹ نے اسلام آباد میں ’’بناؤ پاکستان‘‘ پیداوار، معیار اور تخلیق سے معیشت مضبوط بنانے کے پروگرام کا افتتاح فیصل مسجد آڈیٹوریم میں کیا ،جس کے مہمانِ خصوصی احسن اقبال تھے۔

پرائیویٹ سیکٹرسے صنعت و تجارت کی اہم شخصیات کے علاوہ حکومت کے مختلف محکموں کے سیکرٹریز نے بھی شرکت کی۔ اس پروگرام کی اس لئے بہت اہمیت ہے کہ حکومت 2025ء تک پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت کو تیزی سے ترقی کے راستے پر گامزن کرکے اسے دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل دیکھنا چاہتی ہے۔

وزیر داخلہ و پلاننگ احسن اقبال نے اپنے خطاب میں تفصیل سے اس پروگرام پر روشنی ڈالی، جس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو دنیا کی پچیس بہترین معیشتوں میں شامل کرنا ہے۔

معاشی استحکام اور ترقی کے لئے میڈ ان پاکستان مصنوعات کا معیار عالمی سطح کے مطابق ہو۔ سی پیک کا پہلا فیز تکمیل کے قریب ہے، جس کی وجہ سے معیشت کو تیزی سے ترقی دینے کے لئے بنیادی ڈھانچہ تیار کر لیا گیا ہے۔


پاکستان میں فیول اور توانائی کے بحران پر بھی قابو پا لیا گیا ہے، جس سے پیداواری یونٹوں کو اپنی پروڈکشن کا معیار اور پیداوار تسلسل سے عالمی منڈیوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ غربت ختم کرنے کے لئے پیداواری یونٹس زیادہ سے زیادہ قائم کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ صرف نئے کارخانے لگانے سے ہی بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا اور پاکستان کے عوام خوشحال ہوں گے تو غربت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ پہلے کی نسبت پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔

اب سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے جارہا ہے، جس میں گوادر بندرگاہ اور نئی بننے والی سڑکوں کے ساتھ انڈسٹریل زونز بنائے جائیں گے، جس کے لئے پاکستانیوں کے علاوہ غیرملکی سرمایہ کار بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔

احسن اقبال نے مزید بتایا کہ 2013ء میں موٹروے سڑکوں کی لمبائی 579 کلو میٹر تھی، جو اب بڑھ کر 1010 کلو میٹر ہوچکی ہے اور 2019ء تک ان کی لمبائی 3690 کلو میٹر تک پہنچ جائے گی، جس سے تیز رفتار بار برداری کے وسائل میسر آنے سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوگا اور پیداوار کی شرح بھی سات فیصد سے بڑھ جائے گی۔

تمام عالمی مالیاتی اعشارئیے مثبت ہیں۔ صرف ایک بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سیاسی حالات خراب نہ ہونے پائیں، لیکن امید ہے کہ سی پیک منصوبے پر پاکستان کے تمام ادارے بے شک وہ عسکری ہوں یا انتظامی ایک ہی صفحہ پر ہیں تو یقینی بات ہے کہ پاکستانی معیشت کو بہت کم خطرات لاحق ہیں۔


پرائیویٹ سیکٹر کے بزنس لیڈروں میں سے افتخار علی ملک نے بتایا کہ وہ خود بھی پاکستان پلاننگ کمیشن کے ممبر ہیں، اس لئے ادارے کی تمام میٹنگوں میں شریک رہتے ہیں۔ موجودہ سیمینار اس لئے بہت اہم ہے کہ اب سی پیک کا پہلا فیز مکمل ہونے جارہا ہے، گوادر بندرگاہ بھی رواں دواں ہورہی ہے، پاکستان میں نئی سرمایہ کاری آرہی ہے، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کا طوفان نہیں آیا، بلکہ پاکستان کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگیا ہے، اب وقت ہے کہ پاکستان کے ایکسپورٹرز جدید مشینری اور معیاری مصنوعات کو تخلیقی سطح پر پیدا کرکے دنیا بھر میں پاکستان کا نام بلند کریں۔ اب یہ بات پوری قوم کے لئے کتنی خوشی کی ہے کہ ورلڈ کپ کے مقابلوں میں پاکستانی فٹ بال استعمال کئے جائیں گے، اس وقت تک ایک کروڑ سے زیادہ فٹ بال خریدنے کے آرڈرز مل چکے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی مصنوعات پہلے بھی معیار میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری مصنوعات کا معیار پہلے سے بلند ہونے کے ساتھ حکومت کی طرف سے سستی بجلی اور گیس بھی ملنی چاہئے، تاکہ پاکستانی مصنوعات کی لاگت میں کمی ہونے کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات عالمی منڈیوں میں دوسرے ممالک کی مصنوعات کے ساتھ کھل کر نہ صرف مقابلہ کرسکیں، بلکہ اپنا مقام بھی حاصل کریں۔

یہ وقت ہے جب پاکستانی مصنوعات کو برانڈنگ کی طرف ماضی سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کے بنے ہوئے فٹ بال پر غیر ملکی برانڈنگ ہوتی ہے جس سے پاکستانی فٹ بال دوسو ڈالر کا فروخت ہوتا ہے، اگر ہم اپنی برانڈنگ کریں تو بے شک ایک سو ڈالر میں پاکستانی برانڈنگ کافٹ بال فروخت کریں، لیکن جب دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ دو سو والا فٹ بال پاکستانی برانڈ کا ایک سوڈالر میں دستیاب ہے تو ضرور پاکستانی برانڈ مقبولیت حاصل کرلے گا۔


سارک چیمبر آف کامرس کے نائب صدر افتخار علی ملک نے تقریب کے اس پہلو پر خصوصی روشنی ڈالی، جس میں وفاقی وزیر اور سیکرٹریز نے ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو فروغ دینے پر زور دیا۔ سارک ممالک اگر باہمی تجارت میں اضافہ کریں تو دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستانی مصنوعات کی کھپت میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔

اس وقت پاکستان دنیا کی سب سے بڑی سائنسی تنظیم ’’سرن‘‘ کا بائیسواں ممبر ہے، انڈیا انتہائی کوشش کے باوجود اس کی ممبر شپ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، اس اہم ترین ممبر شپ کی وجہ سے پاکستان سائنسی شعبہ میں زبردست ترقی کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی انجینئرنگ کے شعبہ کو ترقی دے کر آٹو موٹو انڈسٹری سے لے کر دوسری تمام صنعتوں تک کو ترقی دے سکتا ہے۔

زراعت کے شعبہ میں ہائی برڈ فصلوں سے دنیا بھر میں اپنی اجناس کی مارکیٹ پیدا کرسکتا ہے۔ سی پیک کے ون بیلٹ ون روڈ پروگرام کے منصوبے سے اب پاکستان کو بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -