پاک بھارت تصادم ہو کر رہے گا؟

بھارت نے پاکستان پر کھلے عام جنگ مسلط کر دی ہے۔22اپریل2025ء کو پہلگام میں دہشت گردی کا ایک المناک واقعہ ہوا جس میں مسلح افراد نے سیاحوں کو بے دردی سے قتل کرکے ایک سانحے کو جنم دیا۔ اس واقع کے ٹھیک 5منٹ کے اندر اندر بھارتی میڈیا نے پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر ایک مخصوص فضاپیدا کرنا شروع کر دی۔ پاکستان نے فوراً اس واقع کی مذمت کی لیکن کیونکہ ہندوستان میں قائم فاشسٹ مودی سرکار پاکستان کے خلاف مسلسل دراندازیوں میں مصروف ہے۔ کے پی ہو یا بلوچستان بھارتی ایجنسی را یہاں بڑے منظم طریقے سے دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے جس کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا اور مسلسل حالت جنگ میں رکھنا ہے تاکہ پاکستان تعمیر و ترقی کا عمل جاری نہ رکھ سکے۔پہلگام واقع کے اگلے روز سندھ طاس معاہدے کو معطل، سفارتی تعلقات محدود، تمام پاکستانیوں کے ویزے منسوخ، دفاعی اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم جاری کر دیا۔ گویا پاکستان کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا۔اگلے دن پاکستان میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا اور ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ کمیٹی نے سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 23اپریل 2025ء کو اعلان کردہ بھارتی اقدامات کا جائزہ لیا اور انہیں انتہائی غیرذمہ دارانہ، یکطرفہ غیر منصفانہ سیاسی محرکات پر مبنی اور قانونی میرٹ سے عاری قرار دیا۔قومی سلامتی کمیٹی نے قرار دیا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک حل طلب تنازع ہے جسے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے 23اپریل 2025ء کے بھارتی بیان میں پوشیدہ خطرے کی مذمت کی،کمیٹی نے کہا بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ریاستی سرپرستی میں بیرون ملک قتل و غارت یا غیر ملکی سرزمین پر کی جانے والی کوششوں کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے، یہ گھناؤنے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے کئے گئے تھے جنہیں حال ہی میں پاکستان اور دیگر ممالک نے ناقابل تردید شواہدکے ساتھ بے نقاب کیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے اور پانی روکنے کے انڈین اعلان کے حوالے سے پاکستان نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ دو طرفہ ہے اور اس پر عالمی بینک کی گارنٹی بھی ہے، اس لئے اسے فریق واحد اپنے طور پر منسوخ نہیں کر سکتا۔ کسی تنازع کی صورت میں مصالحتی فورم موجود ہیں، اس لئے اگر بھارت نے پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش کی تو اسے جنگ تصور کیا جائے گا او رکسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
پاکستان نے بھارتی اقدامات کے جواب میں بھارتی دفاعی،فضائی اور بحری مشیر ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیئے ہیں اورانہیں پاکستان چھوڑنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔سارک ویزہ سکیم کے تحت سوائے سکھ یاتریوں کے جاری تمام ویزے منسوخ کر دیئے ہیں۔ بھارتی ہائی کمیشن کا عملہ 30افراد تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا اطلاق 30اپریل سے ہو گا۔پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت بھی بند کر دی ہے اور سب سے اہم بھارتی فضائی کمپنیوں کے لئے پاکستانی فضائی حدود بھی بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ہم نے اپنی فضائی سرحدوں پر بھی الرٹ جاری کر دیا ہے۔ واہگہ بارڈر بھی حالت جنگ میں آ گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ نہری پانی کے حوالے سے جو تنازعہ چل رہا تھا اور بہت سنجیدہ صورت اختیار کر چکا تھا، حل کرلیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو اور وزیراعظم کے درمیان ملاقات میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں کہ اس مسئلے کو کس طرح حل کرنا ہے جس پر پیپلزپارٹی نے اتفاق کیا ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ اب مسئلہ نہیں رہا،قوم نے اس حوالے سے یکجہتی اور اتفاق کا ثبوت دیا ہے پوری قوم بھارتی جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی نظر آنے لگی ہے۔ ہماری مسلح افواج کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار اور پرعزم ہیں۔
پاکستان نے پانی کے مسئلے پر عالمی فورم سے رابطہ کرنے کے آپشن بارے بھی اعلان کیا ہے یعنی بھارت کے ساتھ پانی کے تنازع کے حل کے لئے عالمی فورم سے رجوع کیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت نے یہ اچانک سب کچھ کیوں کیا ہے؟ پاکستان کے ساتھ اس کی دشمنی اپنی جگہ، پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہمہ وقت خواہش بھی اپنی جگہ موجود ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلگام واقعہ یا ڈرامہ رچانے کا حقیقی مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ ہندوستان بلوچستان اور کے پی میں پاکستان کو پہلے ہی خون میں نہلا رہا ہے۔ دہشت گردی کے فروغ کے ذریعے پاکستان کے خلاف اس کی محاذ آرائی تو پہلے بھی جاری ہے۔ اب پہلگام کا ڈرامہ رچانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ بھارت سرکار اس سارے ڈرامے سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ یہ جو سب کچھ نظر آ رہا ہے حقیقت ہونے کے باوجود حتمی نہیں ہے اس ڈرامے کا اصل ہدف کیا ہے؟ اس بارے میں ہمیں گہرائی میں دیکھنا ہوگا، سوچنا ہوگا اور پھر انہی حقائق کی روشنی میں کوئی فیصلہ کرنا ہوگا وگرنہ معاملات نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایک بات سوچنے کی ہے کہ اگست 2019ء میں متنازعہ اور مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کے بعد سے بھارت سرکار یہاں ایک طویل منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ یہاں کی ڈیموگرافی یعنی آبادی میں ہندو مسلم تناسب کو تبدیل کرنے کی کاوشیں کررہی ہے۔ امیر ہندوؤں کو یہاں بسایا جا رہا ہے یہاں سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول ترتیب دینے کی انتھک کاوشیں کی جا رہی ہیں۔لاکھوں فوجیوں کی یہاں تعیناتی امن و امان قائم رکھنے کے لئے ہی ہے۔ پھر کشمیر میں عالمی ٹورسٹ مقامات بھی قائم کئے جا رہے ہیں۔ کئی ممالک کے ساتھ اس حوالے سے معاہدے بھی کئے جا چکے ہیں ان معاہدوں کو عملی صورت دینے کے لئے سازگار ماحول کے قیام کا انتظار کیا جا رہا تھا ایسے میں ہندوستان نے فالس فلیگ آپریشن سے اپنی ساری سرمایہ کاری کا بھٹہ بٹھا لیا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ پہلگام میں جو کچھ ہوا وہ فالس فلیگ آپریشن ہو، یعنی پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لئے بھارت سرکاری اپنا اتنا بڑا نقصان کر ڈالے؟ ہاں اگر یہ سچ ہے کہ بھارت سرکار نے اپنا اتنا بڑا نقصان کر ڈالا ہے۔ لاکھوں فوجیوں کی موجودگی اور کشمیر میں مارشل لاء جیسی صورت حال کی موجودگی کے باوجود پاکستان نے اگر اتنا بڑا آپریشن کر ڈالا ہے تو پھر بھارتی سرکار پر لعنت ہو کہ وہ پاکستانی دراندازوں کو روک نہیں سکے یہ نہ صرف بھارت کی سیکیورٹی کی ناکامی ہے بلکہ سیاسی طور پر مودی سرکار کے لئے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے۔ یہ جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہے۔ اس کے پس پردہ بھی کچھ ہے اور جو پس پردہ ہے وہ اصل ہے وہی سچ ہے ہمیں اس کی تلاش بھی جاری رکھنی چاہیے۔