امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 11
اپنے بیان میں انہوں (شاہ محمود قریشی ) نے کہا کہ ویانا کنوینشن 1961 اور 1963 کے تحت امریکی سفارت خانے کے اندھے استثنی کا مطالبہ کسی بھی صورت درست نہیں ہے ۔ یکم ستمبر کو کانگریس کے وفد نے بھی صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں ۔ ان ملاقاتوں میں ویانا کنوینشن کے تحت میری رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔صدر زرداری کے امریکا سے اچھے تعلقات تھے لیکن اس کے باوجود وہ سیاسی طور پر اتنے مستحکم نہیں تھے کہ میری رہائی کے سلسلے میں کوئی مدد کر سکتے ۔ میری رہائی کی صورت میں ان کے خلاف مظاہرے شروع ہو سکتے تھے سو انہوں نے میری قسمت کا فیصلہ دوسروں پر چھوڑ دیا ۔
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 10 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
وزیر اعظم گیلانی بھی میری رہائی کے سلسلے میں کچھ نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں میرے کیس کے بارے میں یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لی کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے۔اسی دوران ایک وکیل نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ کر دی کہ میری رہائی کی کوششوں پر پابندی عائد کی جائے جس پر عدالت نے مجھے امریکی حکام کے حوالے کرنے سے روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے میرا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا ۔اس کے ساتھ ہی میرے خلاف میڈیا پرلا تعدا د سازشی کہانیاں بھی گردش کرنے لگیں ۔ایک کہانی میں مجھے بلیک واٹر نامی تنظیم کا حصہ قرار دیا گیا جو پاکستان سے جوہری ہتھیار چرانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ایک میڈیا نے یہ رپورٹ جاری کہ کہ مجھے فون پر صدر اوبامہ سے رابطہ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ میں نے پاکستان کے حساس مقامات کی تصاویر بنائی ہیں جن میں نیوکلیئر تنصیبات بھی شامل ہیں ۔صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ نے میرے کیمرے سے کچھ مبینہ تصاویر کو میرے خلاف بطور ثبوت استعمال کرنے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ میں ایک جاسوس ہوں ۔ میرے خلاف سب سے منفی کہانی میرے جسمانی ریمانڈ کے چودھویں روز پاکستانی حکومت اور پولیس نے پھیلانے کی کوشش کی ۔ یہ کہانی مقتول فہیم کی بیوی شمائلہ کنول کے حوالے سے تھی کہ اس نے زہریلی گولیاں نگل لیں ۔ اسے فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال لایا گیا جہاں اس نے کیمرے کے سامنے نزاعی بیان دیا کہ اسے انصاف کی امید نہیں اس لئے احتجاجاً خودکشی کی ہے۔اسی دوران میڈیا نے خبر جاری کی کہ شمائلہ کنول فوت ہو گئی ہے ۔ میڈیا نے اسے شہید ثابت کرنے کی کوشش کی اور یہ کہ اس کی ماں معذور ہے ۔ اس کی فہیم سے چھ ماہ قبل شادی ہوئی تھی اور فہیم کی موت کے بعد سے وہ سخت ڈپریشن کا شکار تھی ۔ میرے لئے پریشانی کی بات یہ تھی کہ میں نو روز قبل نوجوان لیفٹیننٹ کی زبانی فہیم کی بیوہ کی خودکشی کی کہانی سن چکا تھا ۔ میں حیران تھا کہ یہ خبر کیوں نو دن تک میڈیا سے چھپائی گئی ۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے الائیڈ ہسپتال کے باہر کنول کی ہلاکت کے خلاف جبکہ کچھ نے لاہور میں امریکی قونصلیٹ کے باہر مظاہرہ کیا ۔ اس پراپگنڈے میں مجھے خوفناک عفریت کے طور پر پیش کیا گیا ۔ سڑکوں پر مظاہرین نے میرے پتلے جلائے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ مجھے پھانسی پر لٹکایا جائے ۔
پولیس ٹریننگ کالج میں میری آزادی کے دن بھی ختم ہونے لگے تھے ۔ مجھے ایک چھوٹے اور اندھیرے کمرے میں رکھا جانے لگا۔ ان دنوں قونصلیٹ جنرل اور ان کے عملے سے ملاقاتیں میرے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھیں ۔
چودہ روزہ ریمانڈ ختم ہونے کے بعد مجھے11 فروری 2011 کو ماڈل ٹاؤن میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر مسلح فوجی دستے نے گاڑی کو گھیرے میں لے رکھا تھا ۔ اس کی وجہ وہ خدشات تھے جن کے تحت مذہبی انتہا پسند عناصر عوامی پذیرائی کے لئے میرا خون بہانا چاہتے تھے۔پیشی کے دوران پراسیکیوٹر نے عدالت میں میرا مزید ریمانڈ مانگا۔ عدالت کی جانب سے ریمانڈ کی وجہ پوچھنے پر ایک پولیس افسر نے کہا کہ ملزم انتہائی مکار اور عیار ہے لہذا کیس کو مضبوط بنانے کے لئے مزید وقت کی ضرورت ہے ۔ جج نے انکار کرتے ہوئے چالان پیش کرنے کا حکم دیا ۔ اس پر میرے وکیل حسام قادری نے ایک درخواست جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ مجھے سفارتی استثنی حاصل ہے اور میرے خلاف مقدمہ بند کمرے میں چلایا جائے جبکہ میڈیا اور عوام کو اس کیس کی سماعت سے دور رکھا جائے ۔ وکیل حسام قادری کی انگریزی اتنی اچھی نہ تھی جس کی وجہ سے مجھے مایوسی ہوئی تاہم دلائل سننے کے بعد عدالت نے مجھے چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ۔ (جاری ہے)
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان آنے والاایسا امریکی جاسوس قرار دیا جاتا ہے جس نے لاہور میں دو افراد کودن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کیا اور پھر گرفتار ہوا ۔ اس پر قتل کا مقدمہ چلا اور قریب تھا کہ اسے سزائے موت سنا دی جاتی لیکن حالات نے ڈرامائی موڑ لے لیا ۔ اچانک مقتول کے ورثا دیت پر راضی ہو گئے ۔ کروڑوں روپے دیت کی رقم کس نے ادا کی اس پر متضاد رائے ہے کیونکہ کوئی بھی اس رقم کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوا ۔ بہرحال یہ شخص جسے کبھی سفارتی عملہ کا حصہ قرار دینے کی کوشش کی گئی تو کبھی اسے بلیک واٹر کے قاتل کورڈ کا حصہ قرار دیا گیا، باآسانی پاکستان سے امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔ وہاں اس نے اس ساری صورت حال پر ’’ کنٹریکٹر ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ڈیلی پاکستان آن لائن میں قسط وار پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادارہ یا قاری کا اس کتاب کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ کتاب پڑھتے وقت یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے جو خود کو کچھ بھی کہے لیکن پاکستان کے عوامی حلقوں میں اسے جاسوس قرار دیا جاتا ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے عزائم اور اسکے ’’مالکوں‘‘ کی فطرت اور طریقہ کار کو سامنے لانے کی غرض سے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنا قومی مفاد کا درجہ رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی اس کتاب میں جو ’’انکشافات‘‘ کئے گئے ہیں انہوں نے ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے ۔ کتاب کا ترجمہ و تلخیص نامورتحقیقاتی صحافی سید بدر سعید نے کیاہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں چھپنے والی پہلی اردو تحقیقاتی رپورٹ سید بدر سعید نے ہی لکھی تھی ۔ مصنف اس سے قبل ’’خودکش بمبار کے تعاقب میں ‘‘ اور ’’صحافت کی مختصر تاریخ . قوانین و ضابطہ اخلاق ‘‘ جیسی تحقیقاتی کتب لکھ چکے ہیں ۔ انہیں دہشت گردی ، طالبانائزیشن اور انٹیلی جنس امور پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے ۔وہ پاکستان کے اہم صحافتی اداروں میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں ۔