گورنر پنجاب کی تبدیلی ،ضرورت کیا تھی، صدر زرداری کے مقاصد؟

گورنر پنجاب کی تبدیلی ،ضرورت کیا تھی، صدر زرداری کے مقاصد؟
گورنر پنجاب کی تبدیلی ،ضرورت کیا تھی، صدر زرداری کے مقاصد؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سردار لطیف کھوسہ کو تبدیل کرکے مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب مقرر کئے جانے کے پس پردہ کیا محرکات ہیں؟ ایک قانون دان کو بدل کر جنوبی پنجاب کے ہی رہنما کو صوبائی گورنر تعینات کرکے پاکستان پیپلز پارٹی بالخصوص صدر آصف علی زراری کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ عام انتخابات سے چند ماہ قبل اس قسم کا فیصلہ مستقبل کے کس منظرنامے کی نشاندہی کرتا ہے اور آخر پیپلز پارٹی کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور سیاسی ذہن رکھنے والا کارکن اپنے آپ سے اور ملنے والے ہر ساتھی سے کررہا ہے۔
بظاہر تو پاکستان پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا اس اقدام کو صدر زرداری کی مفاہمتی پالیسی کا تسلسل قرار دے رہے ہیں لیکن یہ بات باشعور سیاسی کارکنوں بالخصوص جیالوں کی تسلی اور تشفی کے لئے کافی نہیں، بلکہ ان کے ذہنوں میں مزید سوالات پیدا کررہی ہے۔ کیا یہ مفاہمتی پالیسی مسلم لیگ ن کے ساتھ مفاہمت کا زینہ ہے یا مائنس ن لیگ، پنجاب میں کسی اور سیاسی اتحاد کا پیش خیمہ۔ نئے گورنر پنجاب کی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعلیٰ پنجاب سمیت ن لیگ کی شرکت اور مخدوم احمد محمود کی نامزدگی کا خیر مقدم کرنے کے اقدامات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان، امیر جماعت اسلامی، سید منور حسن سمیت دیگر سیاسی قائدین جن شکوک و شبہات کا اظہارکررہے تھے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اصل میں دونوں ایک ہیں، وہ بیک قلم مسترد نہیں کئے جاسکتے۔ یہ شکوک و شبہات منگل کی صبح نئے گورنر کی تقریب حلف برداری میں اس وقت سچ کے خاصے قریب نظر آئے جب دعوت اور لاہور میں موجودگی کے باوجود نائب وزیراعظم چودھری پرویز الٰہی اور صدر آصف علی زرداری کے اہم اتحادیوں نے اس اہم تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ اس سے مزید بدگمانیاں جنم لینے کاخدشہ پیدا ہوگیا ہے۔یہ باتیں اپنی جگہ مگر مخدوم احمد محمود کی بطور صوبائی گورنر اورمیاں منظوروٹو کی پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر کی حیثیت سے سامنے آنے سے پنجاب پیپلز پارٹی درحقیقت ”مسلم لیگیوں“ کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ اس کے پس پردہ صدر آصف علی زرداری کی سوچ سے یہی لگتا ہے کہ وہ پنجاب پیپلز پارٹی کی نگرانی مسلم لیگیوں کے ہاتھوں میں دے کر اس بڑے صوبے، جس میں مسلم لیگ کی حکمرانی ہے اور آئندہ بھی نظر آرہی ہے، اس کو مسلم لیگ سے چھیننے کی مضبوط اور مربوط حکمت عملی اپنا چکے ہیں۔ اگرچہ صدر زرداری کے ان دو بڑے فیصلوں سے جیالوں کی اکثریت نالاں ہے اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے مگر آئندہ انتخابات کا ”میدان“ لگنے سے قبل ”نتائج“ سے آئندہ انتخابات کا منظرنامہ صوبہ کی سطح پر تبدیل ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ چونکہ جنوبی پنجاب میں صدر آصف علی زرداری ہرحال میں مسلم لیگ ن کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی کمر بھی توڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شاید وہ مخدوم احمد محمود کو سامنے لاکر مسلم لیگ سے پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ حلف اٹھانے کے بعد جب نئے نویلے گورنر اپنی والدہ کی قبر واقع گلبرگ قبرستان میں حاضری کے لئے گئے تو ان کے ساتھ بہاولپور اور رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ایسے تین اراکین اسمبلی موجود تھے جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ ادھر جیالے، احمد محمود کی بطور گورنر تقرری سے خود کو پنجاب میں لاوارث سمجھنے لگے ہیں۔ ساجدہ میر اور دیگر رہنماﺅں نے تویہاں تک کہہ دیا کہ اب گورنر ہاﺅس جیالا ہاﺅس نہیں، لیگ ہاﺅس بن گیا ہے تاہم اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ آئندہ چند دنوں میں ظاہر ہوجائے گا۔ اب گورنر ہاﺅس ایک سانجھا ہاﺅس بن گیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے اہم رہنما جہانگیر ترین گورنر احمد محمود کے بہنوئی ہیں۔ ن لیگ سے بھی احمد محمود کے اچھے تعلقات ہیں ،یوسف رضا گیلانی اور پیر پگاڑا کے بھی عزیز ہیں تو آصف علی زرداری کے ماتحت ہیں، سو اب گورنر ہاﺅس جیالوں کا نہیں، سب کا گورنرہاﺅس بن جانا چاہئے۔
گورنر پنجاب کی تبدیلی

مزید :

تجزیہ -