مریم نواز شریف:ایک سالہ کارکردگی کا میزانیہ

مریم نواز شریف:ایک سالہ کارکردگی کا میزانیہ
 مریم نواز شریف:ایک سالہ کارکردگی کا میزانیہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مریم نواز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کا ایک سال مکمل ہو چکا ہے مخالفین اور حاسدین نے اس پر بہت کچھ کہا، لکھا ہے سوشل میڈیا پر منفی تبصرے بھی ہوئے ہیں لیکن جھوٹ کے نہ تو پیر ہوتے ہیں اور نہ ہی طویل زندگی،اِس لئے جھوٹ زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتا، اس لئے جھوٹ کا طوفان تھم چکا ہے اور سچائی واضع طور پر نظر آ رہی ہے۔ مریم نواز شریف کا وزارت اعلیٰ پنجاب کا ایک سال، کارکردگی و کامیابی سے روزِ روشن کی طرح منور ہو کر قوم کے سامنے آ چکا ہے۔پنجاب کے ہر کونے میں،ہر ضلع میں، ہر تحصیل میں تعمیر و ترقی کے کئی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور عامتہ الناس ان سے استفادہ بھی کر رہے ہیں اس کے علاوہ کئی ایک منصوبے زیر تکمیل بھی ہیں اور وہ بھی عوام کی نظروں میں ہیں۔ برسر زمین ان پر کام ہو رہا ہے ویسے مریم نواز شریف نے ایک ایسا اصول اختیار کر رکھا ہے جو انتہائی اہم بھی ہے اور پائیدار بھی۔وہ اصول یہ ہے کہ جب تک منصوبہ\پراجیکٹ کے متعلق تمام تیاریاں ہو نہیں جاتیں، یعنی پی سی ون کی منظوری،بجٹ ایلوکیشن، ٹینڈرنگ وغیرہ، اُس وقت تک اس کا اعلان نہیں کیا جاتا، تمام کاغذی کارروائیوں کے بعد جب منصوبہ کک سٹارٹ کی پوزیشن پر آتا ہے تو پھر اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ مریم نواز شریف کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ایک سال میں، اعلان کردہ بہت سے چھوٹے بڑے منصوبے اپنا رنگ دکھا چکے ہیں عوام کے اندر مریم نواز کی کارکردگی کے بارے میں عمومی طور پر مثبت تاثر پایا جاتا ہے وہ جو کچھ کہتی ہیں جس چیز کا اعلان کرتی ہیں وہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے مثلاً نواز شریف نے کسانوں کے لئے 400 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا وہ شروع ہو گیا ہے، پانچ لاکھ کاشتکاروں کو بلا سود قرضے دینے کا آغاز ہو گیا ہے، کاشتکاروں کے لئے گرین ٹریکٹر سکیم کے ذریعے انہیں ایک ہزار ٹریکٹر دیئے جائیں گے، ایگری کلچر ٹیوب ویل کی سولرائزیشن کے عمل کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری صنعتی ترقی کا انحصار بھی زرعی پیداوار پر ہے مثلاً ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت، کپاس پر انحصار کرتی ہے۔ ہماری برآمدات کا زیادہ حصہ ٹیکسٹائل پراڈکٹس پر مشتمل ہوتا ہے ہماری لیدر انڈسٹری کی بقا و ترقی لائیو سٹاکس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے  ہماری شوگر انڈسٹری گنے کی پیداوار سے منسلک ہے گویا کوئی بھی چھوٹی بڑی صنعت ہو اس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق زراعت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ہماری آبادی کا60فی صد سے زائد دیہی آبادی پر مشتمل ہے جن کا انحصار زراعت اور اس سے جڑے ہوئے شعبوں پر ہے۔ہماری قومی پیداوار میں زرعی شعبے کا حصہ25فی صد سے زائد ہوتا ہے گویا کثیر آبادی کا روزگار ہو یا صنعتی شعبے کی تعمیر و ترقی، زراعت اس کی بنیاد ہے اور کسان اس شعبے کا مرکز اور محور ہے پنجاب کی خوشحالی، پاکستان کی خوشحالی ہے اسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے مریم نواز شریف نے شعبہ زراعت اور اس کے مدار لمہام کسان کی بھلائی اور بڑھوتی کے لئے بہت اقدامات کئے ہیں۔ملکی تاریخ میں پہلا لائیو سٹاک کارڈ، پہلی فارمر رہنمائی ایپ کا اجراء اور  ایسے ہی دیگر اقدامات نہ صرف کسان کو معاشی خود مختاری کی راہ پر پہنچائیں گے بلکہ زرعی شعبہ ترقی و بڑھوتی کی نئی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔

موسمیاتی تبدیلیوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔پاکستان بھی اس کا شکار ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی عمل میں پاکستان کا حصہ شاید ایک فی صد سے بھی کم ہے،لیکن پاکستان اس کے منفی اثرات کا انتہائی شدت سے شکار ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے اس طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے آلودگی کے خاتمے کو بقاء کا مسئلہ بنا کر ڈیل کرنا شروع کر یا ہے۔سموگ پر قابو پانے کے لئے پہلا سیکٹر وائز ایکشن پلان مرتب کر لیا گیا ہے تمام گاڑیوں کے لئے فٹنس سرٹیفکیٹ کا حصول لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی کھپت میں کمی کرنے کے لئے ایک طرف سولرائزیشن کو فروغ دیا جا رہا ہے تو دوسری طرف الیکٹرک وی ہیکلز کے فروغ کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔پاکستان کی پہلی الیکٹرک بس سروس کا اجراء بھی کر دیا گیا ہے۔اس حوالے سے بڑی دلچسپ صورت حال بھی دیکھنے میں آئی،سندھ حکومت نے حکومت ِ پنجاب کے اس دعوے کو جھٹلانے کی کوشش بھی کی ہے کہ پہلی الیکٹرک بس سروس انہوں نے،یعنی حکومت سندھ نے شروع کی ہے۔ ویسے اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے کہ شاید پاکستان میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی مثبت کام کو شروع کرنے کے حوالے سے دو صوبائی حکومتوں کے درمیان مسابقت پیدا ہوئی ہے، ویسے تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو عوامی فلاح و بہبود کے وسیع تر منصوبوں کے اجراء اور تکمیل کا سہرہ محمد نواز شریف کے سر جاتا ہے۔ عصر حاضر موٹروے سے لے کر یلو کیب سکیم تک تمام منصوبوں کو متعارف کرانے اور پایہ تکمیل کو پہنچانے کے حوالے سے نواز شریف کا کریڈٹ کوئی نہیں لے سکتا  اور اور نج ٹرین، سپیڈو بس سروس، اوور ہیڈز، انڈر پاسز اور بڑی بڑی شاہراہوں کی تعمیر کے منصوبوں کو جاری کرنے اور مکمل کرنے میں شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے ادوار بھی مثالی رہے ہیں۔ عظیم الشان بس منصوبے کو کچھ لیڈر نفرت اور حسد سے جنگلا بس کہتے نہیں تھکتے تھے اب وہی لیڈر اپنے صوبوں میں ویسی ہی جنگلا بس سروس جاری کرنا فخر سے بیان کرتے ہیں۔نواز شریف نے تعمیر و ترقی کے جس سفر کا آغاز کیا تھا شہباز شریف نے اس سفر کو آگے بڑھایا، صوبے سے آگے جا کر مرکز میں بھی یہ سفر جاری ہے اور صوبے میں اپنے والد اور چچا کی قائم کردہ روشن مثالوں کو چار چاند لگانے کے لئے مریم نواز شریف ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔اگر انہیں پانچ سال تک کام کرنے اور کرتے رہنے کی مہلت میسر رہی تو لگتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے والد کی طرح تعمیر و ترقی کے سفر کو جاری رکھیں گی،بلکہ نئے ریکارڈ بھی قائم کریں گی،ان کی ایک سالہ تاریخ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -