پستی!

بین الاقوامی بساط کے کھلاڑی مشرق وسطیٰ میں جو کھیل کھیل رہے ہیں، اس کی سمجھ اب پاکستان میں عام لوگوں کو بھی آنا شروع ہو گئی ہے۔ اس سے قبل یہ منصوبہ خاص فہم و ادراک رکھنے والے لوگوں کو تو سمجھ آرہا تھا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کس طرح اپنے لاڈلے اسرائیل کی راہ کے تمام کانٹے صاف کرکے گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، مگر خوش فہم لوگ عرب اسپرنگ کے خوش نما لبادے کو جمہور کی فتح قرار دے کر اس کھیل کے اصل محرکات سے بالکل ناواقف تھے۔ صرف عام لوگوں کی کیا بات کریں، خود اس جنگ کی زد میں آئے خطے کے حکمراں بھی آج تک کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے کاغذی پھولوں سے دل بہلانے میں مصروف ہیں۔ انہیں کوئی جلدی نہیں کہ سر پر منڈلاتے خطرے کا سد باب کریں،جس کے سامنے ان کی سلطنتیں ریت کے گھروندے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ عرب دنیا میں پڑھنے لکھنے کا رجحان ناپید ہو چکا ہے، ورنہ یہ لوگ اگر دیوان میر ہی پڑھ لیتے تو اسی عطار کے لونڈے سے دوا ہرگز نہ لیتے، جو اس بیماری کی بنیاد ہے اور جس کا علاج مرض کو قابو کرنے کی بجائے بڑھاوا دینے کا موجب ہے۔
عرب دنیا کی پریشانی یا خود فراموشی اپنی جگہ، مگر ان حالات میں ہمارا پاکستان بھی عرب دنیا سے کم پریشان نہیں۔ ہمارا مقتدر طبقہ اب تک صورت حال کا مکمل تجزیہ کرنے میں بالکل ناکام رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے حکمرانوں کو بھی عربوں کی طرح پڑھنے پڑھانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ماضی قریب بھی بدیں امر ہمارے لئے ماضی بعید بن چکا ہے، ورنہ ناممکن تھا کہ ان حالات میں ہم حضرت قائداعظمؒ کے فرمودات کی طرف رجوع نہ کرتے۔ قائد نے دسمبر 1946ء میں فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کے بغیر مشرق وسطیٰ اور مصر کا دفاع ناممکن ہے‘‘۔ اس طرح انہوں نے مستقبل میں پاکستان کے کردار کا تعین کرتے ہوئے پان اسلام ازم کی طرف اپنے رجحان کو دو ٹوک الفاظ میں بیان فرما دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تحریک پاکستان کے دوران ہمارے عمائدین اور مذہبی زعما پاکستان کی صورت میں ایک نیا مدینہ اور اسلامی فلاحی اصولوں پر کار بند ریاست بنانے کی بات کر تے تھے۔ خلیج کے دہانے پر ایک ایسا ملک جو اسلامی دنیا سے جڑا ہوا ہو اور آنے والے دنوں میں اسلامی دنیا کے لئے خلافت عثمانیہ کے متبادل کے طور پر ابھرے۔ اسلامی دنیا سے رابطے کے دو طرفہ مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ پاکستان مشرق وسطیٰ کی حفاظت کے لئے بازو ئے شمشیر زن کا کردار بھی ادا کرے گا اور ان تمام اسلامی ممالک کے متحدہ بلاک سے حاصل کر دہ طاقت کو بھارت میں رہ جانے والے مسلمان بھائیوں کی حفاظت و نگہبانی کے لئے بھی استعمال کرے گا۔۔۔ اسی لئے قائد نے جہاں یہ فرمایا تھا کہ ہم اپنے بھارت میں رہ جانے والے مسلمان بھائیوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے، وہیں انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ پاکستان کے پاس اقلیتوں کے خلاف ہوئے کسی بھی ظلم کی روک تھام کے لئے بھارت میں مداخلت کا وہی حق ہوگا، جو برطانیہ نے گلیڈسٹون کے دور میں آرمینیا میں استعمال کیا تھا۔
قائد کے یہ فرمودات اس وقت کے ہیں، جب انگریز اور کانگریس کو کامل یقین تھا کہ پاکستان اقتصادی طور پر نہ تو کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو سکے گا اور نہ ہی کسی بڑی دفاعی فوج کا خرچ اٹھانے کی پوزیشن میں آسکے گا۔ آج باوجود ہماری تمام ترخامیوں ، بد عنوانیوں اور لوٹ مار کے پاکستان دنیا کے نقشے پر اہم ملک کی حیثیت سے نہ صرف موجود ہے، بلکہ دنیا کی بہترین اور مضبوط فوج کا مالک ایٹمی صلاحیت کا حامل واحد اسلامی ملک ہے، مگر قیادت کی پستی کا حال یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس قائد کے عزم، کردار کی مضبوطی اور مقصد سے ایمانداری جیسی خوبیوں کا شائبہ تک نہ ہے۔مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں ہمارا کردار غیر جانبدار مصالحتی طاقت کی بجائے، ایک فریق کی طرح کا ہے، کیونکہ مقتدر طبقے کو اپنے ذاتی تعلقات اور مفادات قومی مفاد سے کہیں زیادہ عزیز ہیں۔ ہماری بدقسمتی نے ان طاقتوں کو پاکستان کے معاملات میں دخیل کر لیا ہے۔جن کی اہمیت اپنے گردوپیش میں بھی آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی ہے۔ہندوستانی مسلمان جنہیں کبھی تنہا نہ چھوڑنے کا عہد ہمارے عظیم قائد نے کیا تھا، آج دنیا کے مظلوم ترین طبقات میں شامل ہیں، جن کا کوئی پرسان حال ہے نہ ہمدرد۔مودی کے دور میں درجنوں لوگ مقدس گائے کی توہین کے الزام میں شہید کئے جاچکے ہیں۔بہت سے علاقوں کے مسلمان پاکستانی قرار دیئے جانے کے بعد بدترین ریاستی تشدد کا شکار ہیں۔ مسئلہ کشمیر پچھلے ستر برس سے ہماری قومی غیرت کے سامنے سوالیہ نشان کی طرح موجود ہے اور اس حوالے سے آج عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے کوئی منظم تحریک چلا پائے ہیں اور نہ ہی عملی طور پر کشمیریوں کی کوئی مدد کر سکے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ ہماری یہ بے حمیتی اور بے حسی کشمیر میں آخری مسلمان کی شہادت تک جاری رہے گی۔ کاش ہمارے مقتدر لوگوں کو سمجھ آجائے کہ میر کارواں کے لئے اقبال ؒ کے بتائے راستے کا کوئی متبادل نہیں:
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرُ سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے