سیاسی محاذ آرائی۔ گورننس کہاں ہے؟

”جانے کیا کیا خیال کرتا ہوں، جب تیرے شہر سے گذرتا ہوں!“ شاعر کا طویل اقتباس کو مختصر کر کے گیت کی شکل دے دی گئی اور اسے فلما لیا گیا۔ اپنی شاعری کے حوالے سے مقبول بھی ہوا، مجھے تو یہ خیال اس لئے آیاکہ یہ جب کی بات نہیں، معمول کا سلسلہ ہے کہ گھر سے دفتر یا کہیں اور جانے، آنے کے لئے نکلنا ہوتا ہے تو اسی گیت کو گنگنانا پڑتا ہے کہ میرا بھی یہ روز کا معمول ہے اور ان مویشیوں کے لئے بھی چارہ روز ہی چاہئے، چنانچہ جونہی مرکزی گرین بیلٹ کی سڑک پر آتا ہوں تو نظارہ نظر آ جاتا ہے۔ آج تو حد ہی ہو گئی کہ ایک بڑی، چوڑی گرین بیلٹ میں قریباً دو درجن بچھڑے اور بچھڑیاں گھوم پھر کر پیٹ پوجا میں مصروف تھے، مجھے یہ غیر معمولی اور اس لئے نظر آیا کہ ہر روز تو بھینسیں سیر ہوتی ہیں اور وہ بھی ایک بار نہیں، کم از کم دو اور کبھی تو تین بار بھی ایسا ہوتا ہے کہ قیوم بلاک کے باڑے والے کا مال بھی چہل قدمی یہیں کرتا اور اس کو خوراک بھی مل جاتی ہے۔ اس پر اکتفا نہیں۔وارث کالونی سے ایک نوجوان(جب لڑکا تھا تب سے معمول ہے) اپنا ریوڑ لے کر ہر روز آتا ہے جبکہ ایک ٹویا ٹاؤن کا بابا بھی مہنگائی کو رد کرنے کے لئے اپنا مال یہیں لے آتا ہے۔یہ حضرات صرف گرین بیلٹ ہی سے فیض یاب نہیں ہوتے بلکہ مصطفےٰ ٹاؤن کی سڑکوں سے گزرتے چلے آتے ہیں۔ اس حوالے سے دردمند شہری ہر متعلقہ پلیٹ فارم سے رجوع کر چکے، کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔پی ایچ اے والے سال میں دو بار اس گرین بیلٹ میں بھی شجرکاری کا مذاق کرتے ہیں جس طرح مصطفےٰ ٹاؤن کی دوسری پارکوں کے سلسلے میں ہوتا ہے کہ ہر بار یہاں پودے لگائے جاتے ہیں وہ آج تک درخت نہیں بن سکے، شہباز بلاک کی بڑی پارک کے جنگلے اور اینٹیں اکھڑے ہوئے کم از کم تین سال ہو گئے ادھر کوئی توجہ نہیں، اسی طرح عباس بلاک کی ایک چھوٹی پارک بھی بدتر حالت میں ہے اس پر ایل ڈی اے اور پی ایچ اے کا دعویٰ ہے کہ تجاوزات ختم اور سبزہ زار آباد کر دیئے گئے ہیں۔ ایک صاحب کنور عبدالماجد نے اس حوالے سے ”سجناں نو لکھ لکھ، چھٹیاں پائیاں“ بلکہ ایک بار ایس ایس پی کی کھلی کچہری میں توجہ دلائی ہنوز معاملہ وہیں کا وہیں ہے اور ان حضرات کا کوئی انتظامیہ کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
پہلے بھی دو مختلف کالموں میں عرض کیا تھا کہ وحدت روڈ کی گرین بیلٹ شادی گھر، تعلیمی اداروں اور کلینکوں کی وجہ سے اجڑ کر پارکنگ بن چکی ہے، گھاس اور پودے ختم، کبھی یہاں گلاب اور موتیا بھی بہار دکھایا کرتے تھے۔ پی ایچ اے اور ایل ڈی اے کی مشترکہ مہم کی ”نگاہ مردِ مومن“ ادھر نہیں پڑی ونہ تقدیر تو بدل ہی جاتی۔ بابا رحمتے آج کل خبروں میں ہیں، ہمیں ان کے مبینہ سیاسی کردار سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی کسی تنازعہ میں الجھنا چاہتے ہیں لیکن خدا لگتی تو یہ ہے کہ اس وباء کو انہوں نے روک دیا تھا اور شادی گھروں کے لئے پارکنگ ضروری قرار دی تھی، ایل ڈی اے نے اس میں بھی رعایت ڈھونڈ لی اور ان حضرات کو رعایت مل گئی،اب جہاں جہاں گرین بیلٹ وہاں پارکنگ اور جہاں یہ حاصل نہیں وہاں سڑکیں تو موجود ہیں چنانچہ شادی کی تقریبات عوام کا منہ چڑاتی اور ٹریفک بند رکھنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔یہ دو محکموں کا مختصر سا اجمالی جائزہ ہے ورنہ کلین لاہور والے محکمہ صفائی نے تو دعویٰ کر دیا ہے کہ لاہور صاف کر دیا ہے جبکہ یہ درست نہیں اگر میرے ساتھ تشریف لائیں تو میں گندگی کے ڈھیر دکھا سکتا ہوں۔ یہ مسئلہ صرف ان ہی محکموں تک محدود نہیں،یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے، ہر شعبہ زندگی کے سرکاری اہلکار مجموعی طور پر کرپشن میں ملوث اور عوام/سائلین کو تنگ کرتے ہیں، حتیٰ کہ انصاف کے ایوانوں میں بھی قائداعظم محترم کی تصویروں ہی سے کام نکلتا ہے اور یہ سب وہاں کے متعلقہ حضرات کی افہام و تفہیم و الی پالیسی کے باعث ہے کہ سب چلتا ہے۔
میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، حالات یہ ہیں کہ ضلعی فوڈ اتھارٹی اختیارات کی حامل ہونے کے باوجود پڑتال اپنی پسند کے علاقوں سے کرتی ہے، ہفتے میں ایک دو بار یہ خبر نظر سے گذرتی ہے کہ اتنے ہزار لیٹر کیمیائی دودھ ضائع کر دیا گیا، علاقائی دکانوں پر پانی ملا اور کیمیکل والا دودھ فروخت ہوتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں، اسی طرح مہنگائی کی روک تھام کے لئے کوئی کار آمد میکنزم آج تک بنایا نہیں جا سکا اور مارکیٹ کمیٹی والوں کے نرخوں کی فہرست ہی نظر آتی ہے، اس کے مطابق بھی سودا نہیں بکتا، البتہ یہ شکایات عام ہیں کہ متعلقہ محکموں کے اہلکاروں نے مہنگائی کا توڑ دریافت کر لیا اور روزانہ کے لئے سبزی، گوشت اور فروٹ وغیرہ چالان کا رعب دے کر مفت اشیاء خوردنی حاصل کر لیتے ہیں۔
میں نے یہ کچھ ایسا نہیں لکھ دیا کہ چونکا دے، صرف نشاندہی کی اور عرض یہ کرنا ہے کہ جب سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہو تو گورننس پر غور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، سیاست کا حال تو برا اور سب کے سامنے ہے اور اسی کی وجہ سے ان محکموں پر کوئی توجہ نہیں اور ہر جگہ من مانی ہے اس ساری بدعنوانی کا بوجھ عوام ہی برداشت کرتے ہیں اگر حالات یہی رہتے ہیں تو پھر ان کا اللہ ہی حافظ ہے کہ صوبائی حکومت اور متعلقہ انتظامیہ بے بس نہیں لاتعلق ہو چکی ہیں اور یہ سب محاذ آرائی اور بدامنی کا نتیجہ ہے کہ عوام کے مفاد میں احتساب کا کوئی موثر نظام نہیں، سیاسی جماعتیں اور حضرات ایک دوسرے کو گرانے پر لگے ہوئے ہیں ان کو اپنے پیٹ کے آگے اور کچھ نہیں سوجھتا، آخر وہ بھی تو مہنگائی سے متاثر ہوئے ہیں، کیا حکومتیں ایسے ہی چلتی ہیں اور کیا یہ اس سیاسی محاذ آرائی کا نتیجہ نہیں، غور کرنے کی ضرورت ہے۔