زمانہ جاہلیت کا وہ معاہدہ جس کو رسول اللہ ﷺ سرخ اونٹوں کے بدلے بھی توڑنے پر تیار نہ تھے

مسند حمیدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک معاہدے میں موجود تھا۔ اگر آج بھی مجھے اس معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو ضرور قبول کروں گا۔ اس معاہدے کے شرکاء نے عہد کیا تھا کہ ہر حق والے کو اس کا حق دلایا جائے گا اور کوئی ظالم کسی پر کوئی زیادتی نہیں کرسکے گا۔‘‘
( البدایہ والنہایہ 3152)
زمانہ جاہلیت میں لوگوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے سینکڑوں گھرانے تباہ و برباد ہوچکے تھے۔ لوگوں کے اندر احساس پیدا ہوا کہ ملک میں امن و امان قائم کرنے کی کوشش اور مسافروں کی حفاظت اور غریبوں کی امداد کریں گے اور مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے چھڑائیں گے۔ یہ معاہدہ قریش کے پانچ قبیلوں میں ہوا، بنو ہاشم، بنو عبد المطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تیم۔ اس معاہدے کو حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنے چچاؤں کے ساتھ مطیبین کے حلف میں شریک ہوا تھا۔ اس وقت میں نوجوان تھا۔ مجھے کوئی سرخ اونٹوں کا ریوڑ بھی دے تو میں وہ عہد توڑنا پسند نہ کروں۔‘‘
(مسند احمد :1213)
حلف الفضول کے واقعے کا بیک گراؤنڈ بڑا ہی حیران کن ہے جو بتاتا ہے کہ ہر انسان کے اندر برائی کے خلاف ایک قدرتی جذبہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ یہ ماہِ ذیقعد میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے 20 سال پہلے کا واقعہ ہے جب قریش فجار سے واپس آئے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 20 برس تھی۔ اس معاہدے کے اولین داعی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبد المطلب تھے۔
اس کا سبب یہ تھا کہ زبید قبیلے کا ایک آدمی اپنا تجارتی سامان لے کر مکہ مکرمہ آیا۔ عاص بن وائل سہمی نے اس سے وہ سامان خرید لیا۔ عاص بہت بڑا سردار تھا۔ اپنی سرداری کے زعم میں اس نے اس غریب کی رقم دبا لی۔ زبید کے آدمی نے احلاف کے قبائل عبد الدار، مخزوم، جمع اور سہم سے مدد طلب کی۔ انھوں نے نہ صرف اس بے چارے کی مدد سے انکار کیا بلکہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کی۔ جب اس زبیدی نے خطرہ محسوس کیا تو وہ طلوع شمس کے وقت جبل ابوقبیس پر چڑھ گیا، اس وقت قریشی کعبہ کے اردگرد اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔اس نے بڑی رقت اور بلند آہنگی یہ شعر پڑھے:
یَا آلَ فِهْرٍ لَّمَظْلُوْمٌ بِضَاعَتُهٗ بِبَطْنِ مَکَّةَ نَائِي الدَّارِ وَالنَّفَرِ وَمُحْرِمٌ أَشْعَثَ لَمْ یَقْضِ عُمْرَتَهٗ یَا لَلرِّجَالِ وَبَیْنَ الْحِجْرِ وَالْحَجَرِ إِنَّ الْحَرَامَ لِمَنْ تَمَّتْ مَکَارِمُهٗ وَلَا حَرَامَ لِثَوْبِ الْفَاجِرِ الْغَدِرِ
ترجمہ: ’’اے آل فہر! (قریشیو!) اس مظلوم کی مدد کرو جس کا تجارتی مال وادیٔ مکہ میں چھین لیا گیا وہ یہاں غریب الوطن اور اپنے لوگوں سے دور ہے۔ اس نے احرام باندھ رکھا ہے۔ پراگندہ سر ہے۔ ابھی تک اس نے عمرہ بھی پورا نہیں کیا۔ اے حجر اسود اور حجر کے مابین بیٹھے ہوئے لوگو! (میری مدد کرو۔) عزت و حرمت تو اس شخص کی ہے جس کے کام اچھے ہیں۔ غدار اور بدکار (عاص بن وائل) کی چادر کی کوئی عزت نہیں۔‘‘
یہ سن کر زبیر بن عبد المطلب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’کیا اسے بے یارو مددگار چھوڑا جاسکتا ہے؟‘‘ اس پر قریش، زہرہ اور تیم عبد اللہ بن جدعان کے گھر اکٹھے ہوئے اور آپس میں معاہدہ کیا کہ وہ مظلوم کی مدد کے لیے یک جان رہیں گے حتیٰ کہ ظالم مظلوم کا حق واپس کردے۔ وہ اس معاہدے پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک سمندر میں پانی کی ایک بوند بھی باقی ہے اور جب تک ثبیر اور حرا پہاڑ اپنی جگہ قائم ہیں۔ اور یہ کہ وہ امورِ روزگار میں بھی ایک دوسرے کی ڈھارس بندھائیں گے۔
یہ معاہدہ ماہِ حرام ذیقعد میں طے ہوا اور قریش نے اس معاہدہ کو ’’حلف الفضول‘‘ کا نام دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ایک فضیلت والے کام پر اکٹھے ہوئے ہیں، پھر یہ لوگ عاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے مظلوم کا سامان چھین کر اس کے سپرد کردیا۔
البدایہ والنہایہ : 3152، 316)