نہ پہلے جیسے استاد رہے نہ ہم جیسے شاگرد، کمرشلزم کے اس دور میں ہرشے پیسے سے تولی اور ناپی جاتی ہے،یہ واقعہ استاد شاگرد کے تعلقات کی جھلک ہے

نہ پہلے جیسے استاد رہے نہ ہم جیسے شاگرد، کمرشلزم کے اس دور میں ہرشے پیسے سے ...
نہ پہلے جیسے استاد رہے نہ ہم جیسے شاگرد، کمرشلزم کے اس دور میں ہرشے پیسے سے تولی اور ناپی جاتی ہے،یہ واقعہ استاد شاگرد کے تعلقات کی جھلک ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:120
 بولے:”معافی چاہتا ہوں مگر انہوں نے میرے بھائی کو کلاس سے ڈراپ کر دیا ہے۔ میں خود ان کے پاس گیا، سفارشیں کرائیں مگر وہ نہیں مانے۔ میرے بھائی کی زندگی کا سوال ہے۔ جذباتی ہو گیا تھا۔“ میں نے سن کر کہا؛”بس اتنی سی بات ہے۔ آپ کے بھائی کو میں ابھی reinstate کروا دیتا ہوں۔ ان کو ساتھ لیا اور واپس شماریات ڈیپارٹمنٹ آیا۔ نجمی صاحب کے دفتر کے باہر انہیں کھڑا کرکے نجمی صاحب کے پاس گیا۔ مجھے دیکھ کر بولے؛”بیٹا! خیر ہے تم ابھی تو مل کر گئے تھے۔“میں نے سارا ماجرہ بتایا اور کہا؛”سر! وہ میرے ساتھ آئے ہیں اور آپ کے دفتر کے باہر کھڑے ہیں۔“سن کر بولے؛”تم نے ان سے کوئی commitment  تو نہیں کی۔“ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اپنے اسسٹنٹ اسلم کو آواز دی اور کہا”reinstatement سلپ بنا لاؤ۔ ان تینوں کو بھی دفتر بلا لیا۔اتنے میں سلپ آ گئی۔ ان کوتھاماتے بولے؛”یہ جا کر دفتر جمع کرا دیں۔“سلپ دیکھ کر بڑے حیران رہ گئے اور بولے؛”سر! ایک بات پوچھوں اگر برا نہ منائیں تو۔“ وہ بولے؛ ”پوچھیں۔“ اس شخص نے کہا؛”میں نے بڑی سفارشیں کرائیں آپ نہیں مانے۔ یہ کون ہیں۔“ وہ مسکرائے اور بولے؛”like your brother he was my student and i am proud of him.
ان کا جواب سن کر وہ یقیناً شرمندہ ہوا ہو گا۔ معافی مانگی اور چلا گیا۔ مجھے کہنے لگے؛”بیٹا اصل بات پوچھے بغیر کبھی کسی سے وعدہ مت کرنا۔ ہو سکتا ہے کہ جرم اتنا بڑا ہو کہ معاف کرنا ہی مشکل ہو۔ تمھاری بات میں ٹال نہیں سکتا تھا۔ خوش رہو۔مجھے تم پر فخر ہے۔“ میں نے ان کے ہاتھ چومے اور ان کی نصیحت ہمیشہ کے لیے پلے باندھ لی تھی۔
تم کس کی بیوی ہو؛
1982-83میں وہ انٹر کے امتحان میں شماریات کے چیف ممتحن نجمی صاحب تھے۔ شماریات کے پیپر چیک ہونے کے لئے ان کے پاس آئے۔ ان دنوں میں وہ ”یونگ ہال“(انارکلی)کے وارڈن تھے اور وہیں رہتے تھے۔ پیپر مارکنگ کے لئے انہوں مجھے بھی بلا لیا۔ میں صبح جاتا اور دوپہر تک پیپر مارکنگ کرتا۔ ایک روز میرے دوست اکبر خاں نے مجھے کہا؛”اس کے چھوٹے بھائی ”سنی“ کا پیپر بھی نجمی صاحب کے پاس تھا۔ ذرا چیک کر نا کتنے نمبر ہیں۔“ میں نے پتہ کیا تو اس کا پیپر اسی روز مارکنگ کے لئے میرے سامنے تھا۔ وہ چند نمبروں سے فیل ہو رہا تھا۔ نجمی صاحب کو بتا کر اس کو پاسنگ مارکس دئیے۔یہ ان کی مجھ سے محبت تھی۔ شادی کے کئی سال بعد میں کالج انہیں ملنے گیا تو کہنے لگے؛”بیٹا! کسی دن بچوں کو لے کر گھر آنا۔“ وہ واپڈا ٹاؤن لاہور رہتے تھے۔ میں اپنی بیگم اور بچوں عمر اور احمد(یہ دونوں ابھی چھوٹے تھے) کے ہمراہ ان کے گھر گیا۔ بڑے تپاک سے ملے۔ پر تکلف چائے پلائی۔عمر اور احمد کو کھلونے دئیے اور میری بیگم کہنے لگی؛”سر! آپ نے بہت تکلف کیا ہے۔“ مسکرائے اور بولے؛””بیٹی! تم نہیں جانتی۔ تم جس کی بیوی ہو وہ مجھے کتنا عزیز ہے۔ تم خوش قسمت ہو کہ یہ تمھارا شوہر ہے۔ صدا خوش رہو۔“پتہ نہیں وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہے یا نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ نہ اب نجمی صاحب جیسے استاد رہے اور نہ ہی ہم جیسے شاگرد۔ کمرشلزم کے اس دور میں ہرشے پیسے سے تولی اور ناپی جاتی ہے۔ یہ واقعہ میرے دور کے استاد شاگرد کے تعلقات، خلوص بے لوث محبت کی ایک جھلک ہی ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -