ناکام ریاست؟

Nov 26, 2024

ڈاکٹر جاوید ملک

 سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی اکثریت یہ کہتی نہیں تھکتی۔

ہم ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر 24/7 مریضوں کی خدمت کرتے ہیں۔

ہمارا مریض نہ وقت پر دواء کھاتا ہے، نہ دئیے گئے ٹائم پر فالواپ کرتا ہے اور نہ ہی ہماری دی گئی ہدایات پر عمل کرتا ہے بلکہ الٹا خود ہی ڈاکٹر بن کر اپنی من پسند ادویات نسخے پر لکھوانے کے لئے بحث کرتا ہے۔مطالبہ پورا نہ ہونے پر مریض جھٹ سے ڈاکٹروں کو قصائی، چھرا، کمیشن خور کے القابات سے نواز دیتا ہے۔

میں بطور ڈاکٹر اکثر سوچتا ہوں۔

ڈاکٹروں بارے عوام الناس کی رائے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی بدلنے کا نام نہیں لے رہی ہے؟آخر ترکش کے سارے تیروں کا رخ ڈاکٹروں ہی کی طرف کیوں ہے؟

مجھے مریضوں کی اس تیراندازی کا جواب شعبہ طب کے ان مردار لوگوں کیوجہ سے مل جاتا ہے جن کے عظیم کارناموں کی بدولت مسیحاء شعبہ اپنے ماتھے پر بدنما داغ سجائے پھر رہا ہے۔

اس کی تازہ مثال نشتر اسپتال ملتان کی ہے۔

کوئی تصور بھی کر سکتا ہے کہ ایک مریض جو گردوں کے ناکارہ ہونے پر پہلے ہی ڈائلسز کی اذیت سے گزر رہا ہو۔وہ ڈاکٹروں و طبی عملے کی غفلت کیوجہ سے ایڈز کا شکار ہوجائے؟

آخر پوچھنا تو بنتا ہے ناں؟اس بیچارے مریض کا قصور کیا تھا؟

یہ کہاں کا اصول ہے؟ایک آدمی علاج کی غرض سے آئے، اسے آپ ایڈز کا تحفہ دے کر چلتا کریں؟نشتر اسپتال ملتان کی کہانی بڑی ہی اذیت ناک ہے۔

ذرائع کے مطابق نیفرالوجی وارڈ کے ھیڈ پروفیسر ڈاکٹر غلام عباس نشتر یونیورسٹی کے رجسٹرار کے طور پر بھی کام کر رہے تھے۔موصوف نیفرالوجی وارڈ تو وارڈ

ڈائلسز یونٹ بھی کبھی تشریف لانے کی زحمت نہیں فرماتے تھے۔

نشتر اسپتال میں میرے ایک ڈاکٹر دوست کے مطابق ڈائلسز مشینوں میں استعمال ہونے والے نئے زیرو میٹر فلٹر کو استعمال کرنے کے بجائے فلٹر کو Reuse کیا جاتا تھا اور سرنجوں کو بھی دوبارہ استعمال کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔

پتہ یہ بھی چلا ہے۔ایچ آئی وی مثبت کیسز پہلے ہی رپورٹ ہو چکے تھے مگر نشتر اسپتال کی بے رحم انتظامیہ نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے اسے دبائے رکھا۔اللہ بھلا کرے۔پریس والوں کا جن کی بابت خبر ارباب اختیار تک پہنچی اور سی ایم صاحبہ خود ملتان پہنچ گئیں۔

اس سانحے پر وی سی یونیورسٹی کا استعفی آیا اور ایم ایس، ڈاکٹروں و عملہ کی معطلی کے ساتھ مریضوں کو ہرجانے کی ادائیگی اور پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کے احکامات موقع پر ہی دے دئیے گئے۔

سپر سی ایم کے ان آرڈروں کے بعد ڈاکٹرز کمیونٹی کی طرف سے تحفظات کا اظہار کرنا سراسر زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔

سوال یہ ہے؟نشتر اسپتال کی انتظامیہ سے سی ایم پنجاب، وزیر یا سیکریٹری صحت نے تو نہیں کہا تھا کہ آپ ایڈز مریضوں میں تبرک کے طور پر بانٹیں۔ صدافسوس!

سرکاری اسپتال اللہ توکل ہی چل رہے ہیں۔ جہاں ڈاکٹر حضرات ادویات، مشینوں و عملے کی کمی کا رونا روتے ہیں، وہاں ھڈ حرامی کی انتہا، چھوٹا عملہ کرپشن کی دلدل میں غرق ہے، مریضوں سے بخشیش لینا تو ان پر ختم ہے اور ڈاکٹروں و عملہ کی اکثریت مریضوں سے اس طرح بات کرتے ہیں۔اگر فرعون آکر دیکھ لے۔وہ بھی اپنے تکبر اور بادشاہت کو بھول جائے۔

راقم تو اکثر ہی کہتا ہے۔

ڈاکٹر و طبی عملہ جنت دوزخ کے کنارے پر کھڑے ہیں۔یہ ان کی مرضی ہے۔وہ مخلوق کی خدمت جیسی قبول و مقبول عبادت سے بنا حساب جنت الفردوس کے حق دار ٹھہریں یا دھکتی آگ کے مکین بن جائیں۔چوائس ان کی اپنی ہے۔

افسوس یہ ہے۔ ہم بدبودار معاشرے کے امین بن کر بے حسی، بے رحمی اور ظلم کا استعارہ بن چکے ہیں۔

ہمیں آنکھوں سے نہ کچھ دیکھائی دے رہا ہے اور نہ کانوں سے کچھ سنائی دے رہا ہے

ہم کسی سے کیا گلہ کریں۔ایک طرف تو دنیا آرٹفیشل انٹیلیجنس، چیٹ جی پی ٹی کے ہمراہ جدید علوم کے معرکے سر کر رہی ہے۔دوسری طرف ہم پتھر کے دور میں رہتے ہوئے، عدم برداشت، بدترین تقسیم اور ایک دوسرے کو فتح کرنے کے بھنور میں پھنس کر بحیثیت قوم ایک ناکام ریاست کی تخلیق کی طرف گامزن ہیں۔

کوئی ایک بھی ذی وقار شخص قوم کا خرد بننے کو تیار نہیں۔اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔آمین

مزیدخبریں